اسد ناصر اس مرتبہ اسٹریٹ چائلڈ فٹبال ورلڈ کپ کھیلنے والی پاکستانی ٹیم کے دس رکنی اسکواڈ کا حصہ ہیں۔ یہ اسکواڈ 7 اکتوبر کو قطر روانہ ہوگا اور 8 سے 15 اکتوبر تک ہونے والے مقابلوں میں حصہ لے گا
ایک سال پہلے تک اسد ناصر کو فٹبال کھیلنے کے لیے اپنے گھر کے پاس گراؤنڈ میں جانے کی اجازت نہیں ملتی تھی۔ اسکول سے بھاگ کر یا گھر والوں سے چھپ کر گھاس کے بغیر کچے گراونڈ میں ننگے پاؤں فٹبال کھیلنے والے اسد ناصر کا خواب تھا کہ وہ عالمی سطح کے مقابلوں میں حصے لینے کے لیے ملک سے باہر جائیں اور بڑے بڑے میدانوں میں کھیلیں
اور اب بالآخر قدرت نے انہیں اپنا یہ خواب پورا کرنے کا موقع دے ہی دیا
فیصل آباد کی تحصیل تاندلیانوالہ کے چھوٹے سے گاؤں چک 174 ریالہ مانکہ کے سولہ سالہ اسد ناصر اس دس رکنی فٹبال ٹیم کا حصہ ہیں جو 8 اکتوبر سے قطر میں ہونے والے سٹریٹ چائلڈ فٹ بال ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی کرے گی
ٹیم کا حصہ بننے سے قبل اسد ناصر کئی سال تک کھیتی باڑی میں اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے رہے اور پھر دو سال تک انہوں نے اسلام آباد کے علاقے چٹھہ بختاور میں ویلڈنگ کا کام کیا
وہ ایک سال سے آزاد کشمیر میں ’مسلم ہینڈز‘ نامی برطانوی فلاحی ادارے کے تعاون سے چلنے والی فٹبال اکیڈمی میں تربیت حاصل کرنے کے بعد ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے منتخب کی گئی دس رکنی ٹیم کا حصہ بنے ہیں
اس ٹیم میں اسد ناصر کے علاوہ پاکستان کے کئی شہروں سے ایسے بچوں کو شامل کیا گیا ہے، جو چھوٹی عمر میں ہی اسکول اور گھر بار چھوڑ کر محنت مزدوری کرنے لگے۔ ان میں زیادہ تعداد دیہاڑی دار مزدور بچوں کی ہے
اسد ناصر بتاتے ہیں ”مجھے گھر سے فٹبال کھیلنے کی اجازت نہیں تھی۔ میں پڑھنے لکھنے میں بہت کمزور تھا۔ گھر سے اور اسکول سے چھپ کر فٹبال کھیلنے جاتا تو والدین سے بہت مار پڑتی تھی“
اسد ناصر نے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی اور پھر اسکول چھوڑ دیا
اسد نے بتایا ”مالی حالات ٹھیک نہیں تھے۔ والد صاحب نے کہا پڑھنے لکھنے میں کمزور ہو تو کوئی ہنر سیکھ لو۔ کچھ عرصہ والد کے ساتھ کھیتی باڑی کرتا رہا۔ اس دوران اگر فٹبال کھیلنے چلا جاتا تو والد صاحب بہت مارتے تھے“
اسد بتاتے ہیں ”میرے والد کہتے تھے کہ ’فٹبال کھیل کر کیا کرو گے؟ کوئی کام سیکھ لو، چار پیسے کما لو گے‘ لیکن مجھے ایک ہی شوق تھا کہ میں نے فٹبال کھیلنا ہے اور اس کھیل میں نام بنانا ہے۔ سب کہتے تھے کہ پاکستان میں تو صرف کرکٹ ہے، یہاں فٹبال کو کوئی نہیں پوچھتا“
انہوں نے بتایا ”والد کی مار سے تنگ آ کر میں اسلام آباد بھاگ آیا اور یہاں ویلڈنگ کا کام سیکھا۔ دو سال تک یہ کام کرتا رہا لیکن اس دوران فٹبال کھیلنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ پھر یہ کام بھی چھوڑ دیا اور واپس گاؤں چلا گیا“
اسد بتاتے ہیں ”ایک دن فٹبال کھیلتے ہوئے چوٹ لگ گئی۔ اس خوف سے گھر نہیں گیا کہ والد صاحب ماریں گے۔ گھر کے باہر گلی میں ان کے سونے کا انتظار کرتا رہا۔ ایک دن والد صاحب کو پتا چلا تو انہوں نے اتنا مارا کہ میرا سر پھٹ گیا“
بقول اسد ”والد بالکل تعاون نہیں کرتے تھے، مگر بڑے بھائی نے مجھے کہا کہ اگر کھیلنا چاہتے ہو تو کھیلو، میں تمہارے ساتھ ہوں“
ایک مرتبہ کھیتوں میں کام کرتے وقت اسد ناصر کا ہاتھ کٹ گیا، جس سے انہیں بہت تکلیف سہنی پڑی۔ اس بات کو یاد کرتے ہوئے اسد کہتے ہیں ”جو درد دل میں تھا، وہ برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ بار بار یہ خیال آ رہا تھا کہ کیا پتہ اب فٹبال کھیل پاؤں گا یا نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں کسی ٹیم میں سلیکشن کے دوران میڈیکل ٹیسٹ میں فیل ہو جاؤں مگر میرے استاد نے بتایا کہ ایسا نہیں ہوگا“
اسد بتاتے ہیں کہ وہ ایک دن ننگے پاوں فٹ بال کھیل رہے تھے۔ استاد نے کہا کہ جوتے کیوں نہیں پہنے؟ میں نے انہیں بتایا کہ ’میرے پاس جوتے خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں تو استاد نے مجھے نئے جوتے خرید کر دیے اور کہا کہ کھیلنا نہیں چھوڑنا۔ تمہارے والدین کو میں منا لوں گا اور تمہارے اخراجات بھی میرے ذمے ہیں‘
اب اسد پُرامید ہیں کہ وہ اس مرتبہ سٹریٹ چائلڈز کا فٹ بال ورلڈ کپ جیت کر آئیں گے ”ہم سب نے اور ہمارے کوچ نے بہت محنت کی ہے اور یقین ہے کہ ہم یہ مقابلہ جیت لیں گے“
اسد ناصر اب مستقبل کی طرف دیکھ رہے ہیں اور ان کے خوابوں کا سلسلہ تھما نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں ”ورلڈ کپ جیت کر جو پیسے ملیں گے ان سے والدین کو حج یا عمرہ کرواؤں گا۔ خواہش ہے کہ بہت سارے پیسے ملیں تو اپنے گاؤں میں فٹبال اکیڈمی کھولوں اور ان بچوں کو تربیت دوں جو فٹبال کھیلنا چاہ رہے ہیں مگر ان کے پاس وسائل نہیں ہیں“
اسٹریٹ چائلڈ فٹ بال ورلڈ کپ کیا ہے؟
اسٹریٹ چائلڈ فٹبال کے ورلڈ کپ کا سلسلہ 2010ع میں جنوبی افریقہ سے شروع ہوا۔ فیفا ورلڈ کپ سے قبل ہونے والے ان مقابلوں کا اہتمام غیر سرکاری فلاحی ادارے کرتے ہیں اور ان کا مقصد دنیا بھر میں بے گھر مزدور بچوں کے حوالے سے شعور اور آگاہی پیدا کرنا ہے
چوتھا اسٹریٹ چائلڈ فٹبال ورلڈ کپ آٹھ اکتوبر سے 15 اکتوبر کے درمیان قطر میں کھیلا جائے گا۔ اس ٹورنامنٹ میں لڑکیوں اور لڑکوں کے علیحدہ علیحدہ مقابلے ہوں گے اور پاکستان سمیت چوبیس ممالک کی اٹھائیس ٹیمیں حصہ لیں گی، تاہم پاکستان کی لڑکیوں کی ٹیم اس میں شامل نہیں ہے
اس سے قبل جنوبی افریقہ میں کھیلے گئے ورلڈکپ میں پاکستان کی ٹیم شامل نہیں تھی۔ 2014ع میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں کھیلے گئے دوسرے ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم پہلی مرتبہ شامل ہوئی اور تیسری پوزیشن اپنے نام کی
2018ع میں روس کے شہر ماسکو میں کھیلے گئے تیسرے ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم فائنل تک پہنچی اور فائنل میچ میں اسے ازبکستان کی ٹیم سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔