ایک تھا یوسف مستی خان۔۔۔

امر گل

نظریاتی سیاست کی آبرو، معروف ترقی پسند و بلوچ قوم پرست سیاستدان اور رہنما یوسف مستی خان اب ہم میں نہیں رہے۔۔ طویل عرصے سے کینسر کے عارضے سے نبردآزما رہنے کے بعد وہ 29 ستمبر 2022 کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے

ایک شعلہ بیان لیکن مدلل مقرر اور بلوچ اور بلوچستان کے حوالے سے ہر فورم پر اپنا موقف دھڑلے سے بیان کرنے والے یوسف مستی خان ہمیشہ زیر عتاب رہے۔ ان پر آخری مقدمہ گوادر میں گذشتہ سال کیا گیا تھا، جس میں غداری کی دفعات شامل کی گئی تھیں

وہ اس قبیلہ درویشاں سے تعلق رکھتے تھے، جو اپنا آرام تج کر لوگوں کی آلام بھری زندگیوں کو بہتر بنانے کی جستجو میں زندگی گزار دیتے ہیں۔۔ اور جن کی مسکراہٹوں کے پھول غم زدوں کے آس پونچھ کر ہی کِھلتے ہیں

اب وہ مسکراہٹ نہیں رہی، اب وہ آنسو پونچھنے والے ہاتھ نہیں رہے۔۔ اب وہ دستِ شفقت نہیں رہا۔۔۔ چلچلاتی دھوپ ہے مگر اب وہ سائباں نہیں رہا۔۔

جگر کے سرطان کے عارضے میں مبتلا یوسف مستی خان کہتے تھے کہ میں ایک طرف اپنے جسمانی کینسر سے لڑ رہا ہوں تو دوسری طرف معاشرے میں پھیلے کینسر کے خلاف جدوجہد سے باز نہیں آئوں گا ۔ ان پر اس خطرناک بیماری کے باوجود گوادر میں جانے پر پابندی لگائی گئی اور ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بنا کر ان کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے کراچی کے قدیمی مقامی باشندوں کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کرنے پر ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کے خلاف سخت مزاحمت کی اور ہر طرح سے ملک ریاض کا راستہ روکا۔ انہوں نے انتہائی نامساعد حالات اور بیماری کے باجود آخری سانس تک جدوجہد جاری رکھی اور کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوئے ۔ ان کو انقلابی نعروں کے ساتھ ان کے آبائی قبرستان میوہ شاہ کراچی میں اپنے پر دادا مستی خان کے پہلو میں دفن کیا گیا

پیدائش اور ابتدائی تعلیم

یوسف مستی خان 16 جولائی 1948 کو کراچی کے واجہ اکبر مستی خان کے معروف کاروباری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق مشہور بلوچ قبیلے گورگیج سے تھا۔ اس قبیلے کو بلوچ تاریخ کی ایک نامور شخصیت، قومی ہیرو اور بلوچی زبان کے شاعر ’بالاچ‘ کی وجہ سے بہت شہرت اور عروج حاصل رہا

یوسف مستی خان نے آٹھویں جماعت تک تعلیم برن ہال اسکول ایبٹ آباد سے حاصل کی۔ اس کے بعد وہ تین سال کراچی گرائمر اسکول میں رہے اور بعد میں سینٹ پیٹرک اسکول میں بھی تعلیم حاصل کی

انہوں نے گریجویشن 1968 میں نیشنل کالج کراچی سے کیا

تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی ’پاکستان برما شیلز‘ میں بحیثیت مینیجر ملازمت اختیار کی

بھٹو کے دور میں جب دو صوبوں میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومتوں کو ختم کیا گیا اور پارٹی پر پابندی لگا کر بلوچستان پر فوج کشی کی گئی تو یوسف مستی خان ملازمت چھوڑ کر سیاست کے میدان میں سرگرم ہو گئے۔ حکومت نے ان کو اپنے چاچا عبدالستار مستی خان کے ساتھ بلوچ مزاحمت کاروں کی مدد کرنے کے الزام میں گرفتار کر کے قلی کیمپ میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا

سیاسی جدوجہد

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن

مستی خان نے 1960ع کی دہائی میں ایک طالب علم کی حیثیت سے سیاست کا آغاز کیا جب وہ سندھ آرٹس کالج کراچی میں زیر تعلیم تھے۔ وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) میں شامل ہوئے اور بلوچ قوم پرست بن گئے۔ مستی خان نے بلوچ مارکسی رہنما لال بخش رند کے ساتھ کام کیا، جنہوں نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو ترقی پسند سیاسی تحریک میں تبدیل کیا

نیشنل عوامی پارٹی

یوسف مستی خان نے لیاری میں رہتے ہوئے، لال بخش رند کے ساتھ نیشنل عوامی پارٹی (NAP) میں شمولیت اختیار کی اور لیاری کی بہت سی مثبت روایات کا مشاہدہ کیا، جیسے سیکڑوں کم مراعات یافتہ بچوں کے لیے گلیوں میں شام کے اسکولوں کا آغاز۔ نیشنل عوامی پارٹی نے لیاری میں سیاسی بیداری، بلوچ ادب اور ثقافت کے فروغ میں مدد کی۔ بلوچستان میں رہتے ہوئے مستی خان نیشنل عوامی پارٹی (NAP) کی زیر زمین سرگرمیوں میں حصہ لیا کرتے تھے۔

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی

جب شیرباز خان مزاری نے 1975ع میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) کے قیام کا اعلان کیا تو مستی خان نے این ڈی پی کی مرکزی کمیٹی کے رکن کے طور پر شمولیت اختیار کی اور بعد میں، این ڈی پی (کراچی) کے صدر منتخب ہوئے۔ مستی خان نے ضیاء کی حکومت کی مخالفت کے لیے 6 فروری 1981ء کو تشکیل دی گئی تحریک برائے بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کے نام سے کثیر الجماعتی اتحاد میں بھی متحرک رہے۔ بعد ازاں مستی خان نے پاکستان نیشنل پارٹی ( پی این پ) (1983ء) میں اس کی مرکزی کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اور بعد میں پی این پی (کراچی) کے صدر بن گئے۔

نیشنل ورکرز پارٹی

1989ء میں، غوث بخش بزنجو کی وفات کے بعد، مستی خان کی قیادت میں، پاکستان نیشنل پارٹی نے عوامی جمہوری پارٹی میں ضم ہو کر نیشنل ورکرز پارٹی (پاکستان) بنائی۔ مستی خان نے نیشنل ورکرز پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دیں

ورکرز پارٹی پاکستان

کمیونسٹ مزدور کسان پارٹی اور نیشنل ورکرز پارٹی 2010ء میں ضم ہو کر ورکرز پارٹی پاکستان بنی۔ مستی خان نے ورکرز پارٹی پاکستان کے نائب صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ سندھ پروگریسو کمیٹی (ایس پی سی) کا حصہ تھے، جس میں ورکرز پارٹی، لیبر پارٹی، عوامی پارٹی اور دیگر بائیں بازو اور قوم پرست جماعتیں شامل تھیں۔ وہ سندھ بچاؤ تحریک کا بھی حصہ تھے

عوامی ورکرز پارٹی

2012ء میں جب عوامی ورکرز پارٹی کی تشکیل ہوئی تو مستی خان اس کی مرکزی کمیٹی کے رکن تھے۔ 2016ء میں، مستی خان کو پارٹی کا سینئر نائب صدر منتخب کیا گیا۔

یکم دسمبر 2018ء کو پارٹی کے دوسرے صدر فانوس گجر کی موت کے بعد، مستی خان کا اے ڈبلیو پی کے تیسرے صدر کے طور پر اعلان کیا گیا۔ تب سے وہ پارٹی کے وفاقی صدر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ اے ڈبلیو پی کے صدر کے طور پر، وہ زمینوں پر قبضے، زمینی اصلاحات کے مسئلے، ہاؤسنگ بحران، خواتین کے حقوق، طلبا کے حقوق، جبری مسائل، اقلیتی لڑکیوں کی مذہب کی تبدیلی، لاپتہ افراد کے مسائل پر آواز بلند کرتے رہے

انہیں دسمبر 2021ء میں ‘گوادر کو حق دو’ کے زیر اہتمام ایک احتجاجی مظاہرے میں گوادر کے لوگوں کے لیے انتہائی بنیادی انسانی حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے گرفتار کر کے غداری کا الزام لگایا گیا تھا۔ گوادر، بلوچستان میں تحریک چلانے سے قبل مارچ 2021ء میں سندھ لٹریچر فیسٹیول میں ان کا سیشن منسوخ کر دیا گیا تھا۔

اے ڈبلیو پی کی تیسری مرکزی کانگریس میں، وہ 12-13 مارچ، 2022ء کو لاہور میں دوبارہ صدر منتخب ہوئے۔

سندھ انڈیجینس رائٹس الائنس

مستی خان سندھ انڈیجینس رائٹس الائنس کے سربراہ بھی تھے، جو ریاست اور بحریہ ٹائون کے گٹھ جوڑ کے ذریعے ملیر کی زمینوں پر قبضے کے خلاف 2015ء میں تشکیل دیا گیا تھا

مستی خان نے کراچی میں مقیم بلوچ حقوق کی تنظیم بلوچ متحدہ محاذ (بی ایم ایم) کے مرکزی رہنما کے طور پر بھی خدمات انجام دیں

مستی خان کو جون، 2022ء میں اسلام آباد میں قائم بائیں بازو کی جھکاؤ رکھنے والی جماعتوں کے اتحاد یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے پہلے کنوینر کے طور پر منتخب کیا گیا

یوسف مستی خان نے 2002 کے عام انتخابات میں سندھ نیشنل الائنس کے پلیٹ فارم سے ملیر سے قومی نشست پر الیکشن میں حصہ لیا۔ وہ کراچی کے بلوچوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے اور ان کے حقوق کے تحفظ اور حصولی کی خاطر ہمیشہ کوشاں رہے

انہوں نے 1986 میں انور بھائی جان کی قیادت میں بلوچ اتحاد کے قیام میں اہم کردار ادا کیا اور زندگی کے آخری سالوں میں بلوچ متحدہ محاذ بنایا

مستی خاندان

واشنگٹن میں مقیم مستی خان کے فرد احمر مستی خان بتاتے ہیں کہ ہمارے خاندان کا بنیادی تعلق ایران کے علاقے باہو قلات چاہ بہار سے رہا ہے۔ ہم گورگیج قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں

احمر مستی خان کا کہنا ہے ’ہماری فیملی تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل ایران سے کراچی منتقل ہوئی تھی۔ یہ چار بھائی تھے اور غریب طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ جنہوں نے ابتدائی طور پر کراچی میں مزدوری کا کام کیا تھا۔

’پھر 1885 کے دوران ہماری فیملی کراچی سے آسٹریلیا چلی گئی اور وہاں پرتھ میں رہائش اختیار کی۔ تین سال وہاں پر کام کرنے کے بعد یہ لوگ پھر دوبارہ کراچی آ گئے۔‘

احمر کہتے ہیں کہ اس کے بعد اس وقت ہندوستان کے علاقے آسام میں کوئلہ کا کاروبار ہوتا تھا۔ تو ہمارے لوگ وہاں چلے گئے۔ کافی عرصے تک کام کیا اور جب یہاں پر کام ختم ہوگیا تو انہوں نے برما کا رخ کیا

انہوں نے بتایا کہ برما میں قسمت ان پر مہربان ہوگئی۔ کیوں کہ اس وقت انگریز وہاں ریلوے لائن بچھا رہے تھے۔ انہوں نے اس کے لیے پتھر لانے کا کاروبار شروع کیا، جس کے باعث یہ برما کے سرمایہ دار طبقے میں دوسرے درجے پر چلے گئے

’ہماری فیملی نے برما میں کچھ ریئل اسٹیٹ کا کاروبار بھی کیا اور وہ پیسہ پتھر کے کاروبار میں لگا دیا۔ اس طرح وہ بلوچ قوم کے سرمایہ داروں میں شمار ہونے لگے۔‘

انہوں نے بتایا کہ یوسف مستی خان کے والد کا نام اکبر مستی خان اور دادا کا نام بھی یوسف تھا۔ دادا جو برما سے لندن چلے گئے۔ وہاں بیمار ہوئے اور 1921 میں ان کی وہیں پر وفات ہوئی۔ اس وقت بابر کی عمر بہت کم تھی

مختلف آراء

کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی اور مصنف عزیز سنگھور یوسف مستی خان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کا خلا کبھی پر نہیں ہو سکتا۔ یوسف مستی خان کے جانے سے بلوچ اور دیگر اقوام بھی قیادت سے محروم ہو گئی ہیں

عزیز سنگھور کہتے ہیں ’پوری زندگی مظلوم بلوچ عوام اور بلوچستان کی سیاست ان کا محور رہا۔ وہ میر غوث بخش بزنجو، سردار عطاءاللہ مینگل، نواب خیر بخش مری کے ہم عصر تھے اور اس دور کے آخری رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ ‘

ان کا کہنا ہے ’لیاری گینگ وار کا مسئلہ ہو یا کراچی میں قدیم بلوچ آبادی کی زمینیں ہتھیانے کی کوشش ہو۔ اس دوران ہمیں سب سے زیادہ متحرک اور جدوجہد کرتے یوسف مستی خان نظر آتے تھے۔‘

’جب بحریہ ٹاؤن والا مسئلہ ہوا۔ (6 جون 2021 کو مقامی دیہاتوں کو مسمار کرنے کے خلاف بحریہ ٹاؤن کے مرکزی گیٹ پر احتجاج ہوا تھا) ان کی جدوجہد سے بہت سے مسائل بھی حل ہوئے اور ان کو مراعات بھی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے ٹھکرا دیا تھا‘

ان کے بقول: ایک متمول خاندان اور قدآور رہنما ہونے کے باوجود یوسف عام ورکرز کے ساتھ ان جیسے بن جاتے تھے۔ جو ان کی ایک خاص خوبی تھی

عزیز سنگھور کے مطابق: گذشتہ سال دسمبر میں انہوں نے حق دو تحریک گوادر کے دھرنےسے خطاب کیا، تو 9 دسمبر کو ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر کے ان کو گرفتار کیا گیا، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا انداز خطابت اور موقف کتنا سخت رہا تھا

’جب یوسف مستی خان نے بلوچ متحدہ محاذ کے نام سے اتحاد بنایا تو خان آف قلات سلیمان داؤد نے ان کی قیادت پر ایک پیغام جاری کرتے ہوئے بلوچ قوم سے ان کا ساتھ دینے کی اپیل کی تھی۔‘

عزیز سنگھور کہتے ہیں یوسف مستی خان نے ’بلوچ وسائل ریکوڈک، سیندک پر عدالتوں سے بھی رجوع کیا۔ سیاسی موقف ہمیشہ صاف اور واضح رکھا۔ میں نے ان جیسا اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے والا شخص نہیں دیکھا۔‘

’یوسف مستی خان کتاب دوست اور ادب سے دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کے گھر میں بھی کتابیں ہوتی تھی۔ میں نے ان کو اپنی کتاب ’سلگتا بلوچستان‘ کی تقریب رونمائی میں بہ حیثیت مہمان خاص دعوت دی تھی۔ لیکن انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے پہلے مولانا ہدایت الرحمان نے گوادر آنے کا کہا ہے۔ اس لیے میں وہاں جارہا ہوں۔‘

خان آف قلات میر سلیمان احمد زئی نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا ”یوسف مستی خان جیسے انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے نڈر، بے باک، پاک صاف لیڈر اس دنیا میں کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔ یوسف مستی خان نے کبھی بھی ظالم قوتوں کے سامنے نہ کبھی سرنڈر کیا اور نہ ہی اپنے ذاتی مفادات کے حق میں مظلوموں کی آواز سے دستبردار ہوئے۔“

”وہ ہمیشہ ایک مضبوط چٹان کی طرح بلوچوں اور دوسرے مظلوموں کی آواز بنے رہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا میں آج ہر کوئی پاکستانی مظالم کا مارا ہوا مظلوم ان کی رحلت پر اشک بار اور غمگین ہے“

بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ترجمان نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں کہا ”اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلوچ قوم آج اپنے ایک مخلص لیڈر کو کھو چکی ہے اور بالخصوص کراچی کے لوگ ایک انمول اور نایاب شخص کے دستِ شفقت و الفت سے محروم ہو چکے ہیں۔ محترم جناب یوسف مستی خان کسی تعریف و توصیف کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ بذاتِ خود اپنے آپ میں ایک انجمن تھے اور ہر محاذ پہ ان کا یہی کہنا تھا کہ میرا خواب ہے کہ میں بلوچ کو ہر طرح سے متحد و متفق و سیاسی حوالے سے منظم دیکھوں۔ آپ نے بلوچ قوم کے ہر دکھ و درد کو اپنے اوپر لیا اور ہر قہر و ظلم و ستم پر ایک غمخوار و محسن قائد کی طرح ہر ممکن صورت میں ساتھ دیا“

ترجمان کا کہنا تھا کہ جہاں تک ان کے سیاسی زندگی کی بات کی ہے تو ان کو کراچی کی سیاست کا سرپرست کہنا غلط نہیں ہوگا اور نہ صرف کراچی کی سیاست بلکہ آپ کا مقصد ظلم و ستم کے خلاف ہر ممکن صورت میں جدوجہد کرنا آپ کا منزل مقصود تھا اور آپ کی زندگی اسی طرح ظلم و ستم کے خلاف تحریکیں چلانے میں گزری لیکن آپ کبھی بھی نہ جھکے نہ بکے اور نہ کسی مراعات کے لئے آپ نے اپنے مقصد کو چھوڑا۔ محترم جناب یوسف مستی خان ہی وہ شخص ہیں کہ جنہوں نے ہمیشہ سے کراچی کی سیاست کو بحال رکھا اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک اسی جدوجہد کو جاری رکھا اور اپنے موذی مرض کی حالت میں بھی آپ نے بلوچ قوم کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑا۔ آپ نے نہ صرف اس قوم کا اس حالت میں بھی ساتھ دیا بلکہ ان کو یہ بھی پیغام دیا کہ ایک لیڈر کو کس طرح کی زندگی بسر کرنی چاہیے۔ غرض کہ یوسف مستی خان نے حقیقی لیڈر ہونے کا اور بلوچ ہونے کا پورا پورا حق ادا کیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close