آزاد کشمیر کے علاقے وادیِ نیلم کے بعض علاقوں میں لوگوں کو ٹائیفائیڈ کی ایک نئی قسم کا سامنا ہے، جو اس سے قبل اس علاقے میں موجود نہیں تھی
دو ہفتے قبل اس مرض کے سامنے آنے کے بعد اس کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ان کی تعداد پانچ سو سے اوپر ہے، جن میں سے پچاس کے لگ بھگ مریض ابھی مقامی سرکاری ہسپتال میں داخل ہیں
ڈاکٹروں کے مطابق ٹائیفائیڈ کی اس قسم کی علامات عام ٹائیفائیڈ جیسی ہی ہیں، تاہم اس کے علاج کے لیے ہسپتالوں میں دستیاب وہ ادویات موثر ثابت نہیں ہو رہیں، جو اس سے پہلے ٹائیفائیڈ کے مریضوں کو دی جاتی تھیں
گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال اٹھ مقام میں پانچ سو کے لگ بھگ ایسے مریض پہنچے ہیں، جن میں ٹائیفائیڈ بخار کی علامات موجود تھی
ہسپتال میں تعینات چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر معاذ خطیب نے بتایا کہ صرف ان کے پاس ایسے لگ بھگ ساڑھے تین سو مریض آئے اور ان میں زیادہ تعداد دس سال سے کم عمر بچوں کی ہے
ان کا کہنا تھا ’ہم نے علامتی تشخیص کی بنیاد پر ان مریضوں کا علاج شروع کیا مگر تین چار دن بعد بھی ان میں سے وہ علامات ختم نہیں ہو رہی تھیں تو ہم نے ان کے خون کے کلچر ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ کیا‘
ڈاکٹر معاذ کے مطابق ’اب تک جن مریضوں کے کلچر ٹیسٹ ہوئے ہیں ان میں سے زیادہ تر کی رپورٹ مثبت آئی ہیں۔ ان مریضوں میں ستر فیصد تک تعداد دس سال سے کم عمر بچوں کی ہے‘
ڈاکٹر ٹائیفائیڈ کی اس قسم کو ایکسٹینسولی ڈرگ رزسسٹنٹ یا ایکس ڈی آر قرار دے رہے ہیں، جس میں مرض کا جرثومہ عام مدافعتی ادویات کے مقابلے میں مزاحمت دکھاتا ہے اور مریض ان ادویات کے استعمال سے ٹھیک نہیں ہوتا
اس جرثومے کے مقابلے کے لیے مخصوص ہائی اینٹی بائیوٹک ادویات کی ضرورت ہے، جو مہنگی ہونے کے ساتھ ساتھ سرکاری ہسپتالوں میں دستیاب نہیں
ڈاکٹرز کے مطابق اس مرض کے شکار مریض کو روزانہ تین انجیکشن چاہییں اور ایک انجیکشن کی قیمت بارہ سو روپے ہے۔ صحت کارڈ کے حامل مریضوں کو بھی ایک محدود حد تک ہی مفت ادویات ملتی ہیں، باقی انہیں بازار سے خریدنا پڑ رہی ہیں
ہسپتال میں موجود بعض مریضوں کے ورثا کو شکایت ہے کہ ہسپتال میں ٹیسٹ کی سہولت موجود نہیں
بعض مریضوں کے ٹیسٹ مظفرآباد کے عباس انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سے کروائے جا رہے ہیں اور زیاد تر مریض نجی لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کروا رہے ہیں، جنہیں وہاں ڈھائی ہزار روپے فی ٹیسٹ فیس ادا کرنا پڑتی ہے اور رپورٹ کے لیے بھی کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ہے
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر عبدالمتین بتاتے ہیں ’عام ٹائیفائیڈ کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ کی سہولت ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں موجود ہے تاہم موجود صورت حال میں بلڈ کلچر ٹیسٹ کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ بلڈ کلچر ٹیسٹ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے چند ہی سرکاری ہسپتالوں میں ہوتے ہیں۔ اس ٹیسٹ کے لیے علیحدہ سے مشینری کے علاوہ ماہر پتھالوجسٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ ضلع نیلم میں پتھالوجسٹ موجود ہے اور نہ ہی اس طرح کی مشینری۔‘
ڈاکٹر متین کے مطابق ’پہلے تو مہینے میں ایک آدھ بار بلڈ کلچر ٹیسٹ کی ضرورت پڑتی تھی اس لیے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ اب ضرورت پڑ رہی ہے تو یقیناً ہسپتالوں ڈاکٹر اور ٹیسٹ کی سہولت مہیا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔‘
یہ مرض وادی نیلم تک پہنچا کیسے؟
ڈی ایچ او ڈاکٹر عبدالمتین کہتے ہیں ’دو ہفتے قبل تک آزاد کشمیر میں ٹائیفائڈ کی اس قسم کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا تھا۔ کیونکہ اس پیمانے پر کبھی ٹیسٹ کیے ہی نہیں گئے۔ البتہ یہ کیسز سامنے آنے کے بعد ہم ان کی وجوہات جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں ’2017 میں سندھ کے شہر حیدرآباد میں اس طرح کے کیسز سامنے آئے تھے اور پھر پاکستان کے کچھ دیگر علاقوں میں یہ مرض پھیلا۔ عالمی سطح پر بھی اب لوگوں کو ٹائیفائیڈ کی اس قسم کا سامنا ہے تاہم پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں یہ وبا پہلی مرتبہ پھیل رہی ہے‘
ان کے مطابق ’اٹھ مقام کے جس قصبے میں یہ مرض پھیلا ہے وہاں پینے کا پانی زیادہ تر چشموں سے حاصل کیا جاتا ہے اور تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان چشموں کا پانی آلودہ ہے۔‘
انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ حالیہ سیلاب کے دوران ان چشموں کی آلودگی میں اضافہ ہوا ہے یا پھر باہر سے آنے والی آلودہ خوراک، سبزیاں وغیرہ کھانے سے یہ مرض پھیلا ہے
ڈاکٹر متین کے بقول ’شہریوں میں اس مرض کے بارے آگہی پیدا کرنے کے لیے مہم کے علاوہ نو ماہ سے پندرہ سال کے بچوں کو ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کی ویکسین لگانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے‘
’بڑی عمر کے لوگوں کے لیے ویکسین مارکیٹ میں دستیاب ہے اگر ضرورت ہو تو وہ بھی ویکسن استعمال کر سکتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں ’یہ بیماری عموماً انسانی فضلے کے ذریعے پھیلتی ہے اس لیے شہریوں میں یہ آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے فضلے کو مناسب انداز میں ٹھکانے لگائیں۔ اپنے ہاتھوں کو بار بار دھوئیں اور پینے کا فلٹر شدہ یا ابلا ہوا پانی ہی استعمال کریں۔‘