ہمالیہ پر مہم جوئی، اب پہلے سے کہيں زیادہ خطرناک کیوں ہے؟

ویب ڈیسک

نیپال میں ہمالیہ کی چوٹیوں کو سر کرنے کی کوشش میں 1950ء سے 2021 ء کے درمیان 1042 اموات ریکارڈ کی جا چکی ہیں۔ موسمياتی تبدیلیوں اور ناتجربہ کار کوہ پیماؤں کی بھیڑ سے ہمالیہ پر مہم جوئی اور بھی پُرخطر ہو گئی ہے

حال ہی میں مہم جوئی کے دوران ہلاک ہونے والی امریکی کوہ پیما ہلیری نیلسن کی موت سے پتا چلتا ہے کہ ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ کتنا خطرناک ہے۔ وہاں کے گائیڈز اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خطرات بڑھ رہے ہیں اور ایسے میں زیادہ سے زیادہ لوگ اونچائی پر سنسنی کی تلاش میں رہتے ہیں

واضح رہے کہ انچاس سالہ نیلسن اپنے ساتھیوں کے ہمراہ 8163 میٹر دنیا کے آٹھویں بلند ترین پہاڑ مناسلو کو سر کرنے کی کوشش کے دوران گر کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں۔ بدھ کے روز اس امریکی کوہ پیما کی لاش تلاش کر لی گئی تھی

نیپال ہمالیہ کی سب سے مشہور چوٹیوں کا مسکن ہے۔ اس جنوب ایشیائی ملک میں ہمالیہ کی چوٹیوں پر 1950ء سے 2021 ء کے درمیان 1042 اموات ریکارڈ کی گئیں، جن میں سے 405 رواں صدی میں واقع ہوئی ہیں۔ اب تک یہاں ہونے والی ایک تہائی ہلاکتیں برفانی تودے گرنے کی وجہ سے ہوئيں جبکہ اتنی ہی تعداد میں مہم جو ان چوٹیوں سے گر کر ہلاک ہوئے ہیں۔ بہت سے مہم جوؤں کی موت بیماری یا آکسیجن کی کمی کے وجہ سے بھی ہوئی

سب سے زیادہ ہلاکت خیز چوٹی 8091 میٹر بلند اناپورنا ماسف ہے، جس پر 1950ء کی دہائی سے اب تک 365 مہمات میں 72 اموات ہو چکی ہیں۔ دھولاگیری اور کنچن جنگا نامی دو چوٹیوں پر اموات کی شرح دس فیصد سے زیادہ ہے۔ ڈھلوانی راستوں اور برفانی تودے گرنے کے خطرے نے پاکستان کے ’کے ٹو‘ کو ‘وحشی پہاڑ‘ کا نام دیا ہے ،جہاں سن 1947 اب تک کم از کم 70 ہلاکتیں ہو چکی ہیں

سب سے زیادہ اموات دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پر ہوتی ہیں، جہاں 1950ء سے2021 ءکے درمیان 300 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ لیکن یہاں مہم جوئی کے لیے آنے والوں کی بہت زیادہ تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے اموات کی شرح نسبتاً کم ہے

سن 2019ع میں کی جانے والی ایک تحقیق میں خبردار کیا گیا تھا کہ ہمالیہ کے گلیشیئرز صدی کے آغاز سے قبل کے مقابلے میں دوگنا تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اس سال کاربن ڈیٹنگ کا استعمال کرتے ہوئے ایک اور مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ایورسٹ کی چوٹی کے قریب برف کی اوپری تہ تقریباً دو ہزار سال پرانی تھی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ گلیشیئرز اس وقت سے 80 گنا زیادہ تیزی سے سکڑ رہا تھا

اگرچہ ہمالیہ میں آب و ہوا کی تبدیلی اور کوہ پیمائی کے خطرات کو دیکھتے ہوئے وسیع پیمانے پر کوئی تحقیق نہیں کی گئی ہے، لیکن کوہ پیماؤں نے وہاں موجود برفانی ڈھلوانوں پر پانی کے بہاؤ اور برفانی جھیلوں کی تشکیل کی اطلاعات دی ہیں

دنیا کی چودہ بلند ترین چوٹیوں کو دو بار سر کرنے والے انتہائی تجربہ کار سینتالیس سالہ نیپالی کوہ پیما سانو شیرپا کا کہنا ہے ”پتلی برف اور ننگی چٹانوں پر کوہ پیمائی کے لیے مخصوص برفانی جوتے پہننا خاص طور پر خطرناک ہو سکتا ہے۔ برف کی تہہ بہت پتلی ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ آنے والی چند نسلوں میں یہ برفانی پہاڑ محض چٹانیں بن جائیں گے۔‘‘

گلیشیئروں کی غیر متوقع صورتحال میں برفانی تودے گرنے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ کوہ پیمائی کے دوران اموات کا ایک بڑا سبب ہر سال نیپال، پاکستان اور تبت کا رخ کرنے والے سینکڑوں ایسے ناتجربہ کار افراد بھی ہیں، جو مناسب تیاری نا ہونے کے باجود جوق در جوق ہمالیہ کی ان چوٹیوں کا رخ کرتے ہیں

تیزی سے بدلتی کوہ پیمائی کی صنعت
کوہ پیمائی کی صنعت کی تیز رفتار ترقی نے کاروبار کے ليے کمپنیوں کے درمیان سخت مقابلے کی فضا قائم کر دی ہے، جس سے یہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ کچھ حفاظتی انتظامات پر سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ نیپال نے اس سال مانسلو چوٹی کے لیے مہم جوئی کے 404 پرمٹ جاری کیے، جو معمول سے دوگنا ہیں۔ پاکستان نے کے ٹو کے لیے کوہ پیمائی کے تقریباً 200 اجازت نامے جاری کیے۔ یہ تعداد بھی معمول سے دوگنا ہے

2019ع میں ایورسٹ پر بڑے پیمانے پر ٹریفک جام نے کوہ پیما ٹیموں کو منجمد کر دینے والے درجہ حرارت میں گھنٹوں انتظار کرنے پر مجبور کیا، جس سے آکسیجن کی مقدار میں کمی واقع ہوئی، جو بیماری اور تھکاوٹ کا باعث بن سکتی ہے۔ اس سال ہونے والی گیارہ اموات میں سے کم از کم چار کی وجہ مہم جو ٹیموں کی بھیڑ کو قرار دیا گیا تھا

بڑھتے ہوئے خطرات کی وجہ سے بہت سی ٹور کمپنیاں اب خطرے کی تشخیص کے ليے ریموٹ سینسنگ کے ليے ڈرون کا استعمال کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کوہ پیماؤں سے متعلق اہم اعداد و شمار کی براہ راست نگرانی کرتی ہیں اور کچھ کوہ پیما جی پی ایس ٹریکر پہنتے ہیں۔ مہم جوئی کی منتظم کمپنیاں زیادہ آکسیجن ذخیرہ کرتی ہیں اور موسم کی رپورٹوں کے معیار میں بہت بہتری آئی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close