حال ہی میں ہنزہ کے سب ڈویژن گوجال کے گاؤں گلمت اور شیش کٹ کے رہائشیوں کے سامنے آنے والے بیانات کے مطابق انہیں چند ہفتوں سے زیر زمین سے آوازیں سنائی دے رہی ہیں اور کئی بار آوازوں کے ساتھ ہلکے جھٹکے بھی محسوس ہوتے ہیں
مقامی افراد کو ان آوازوں اور جھٹکوں کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے، لیکن وہ نہایت خوف کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سنہ 2010ع میں بھی جب عطا آباد جھیل بنی تو ان گاؤں والوں سے بات ہوئی تھی، جنہوں نے بتایا تھا کہ انہیں زیر زمین سے آوازیں آتی ہیں اور جھٹکے محسوس ہوتے ہیں
دنیا بھر میں ایک اصول ہے کہ قدرتی آفات کے آنے سے قبل قدرت کچھ اشارے دیتی ہے۔ اگر انسان ان اشاروں کو صحیح طور پر اور بروقت سمجھ لے تو انسانی جانوں کو بچاؤ کے طریقے اپنا کر بچایا جا سکتا ہے
سنہ 2004ع میں ایک دس سالہ لڑکی ٹِلی اسمتھ اپنے والدین کے ساتھ تھائی لینڈ کی سیر پر تھی۔ اس بچی نے دیکھا کہ سمندر کا پانی بہت پیچھے چلا گیا ہے اور پانی پر جھاگ ہے۔ اس نے فوراً اپنے والدین اور لوگوں کو متنبہ کیا کہ یہ اشارے سونامی کے ہوتے ہیں۔ ٹِلی کی اس وارننگ سے درجنوں سیاحوں کی جان بچ گئی
کچھ اسی قسم کے اشارے تو قدرت نے گلگت بلتستان کے علاقے ہنزہ میں عطا آباد جھیل بننے سے قبل بھی دیے تھے۔ عطا آباد جھیل کی کوریج کے لیے جب میں ہنزہ پہنچا تو ان اشاروں کے بارے میں حکام، سرکاری اداروں اور رہائشیوں نے بتایا
سنہ 2002ع میں استور میں زلزلے کے نتیجے میں ہنزہ کے گاؤں عطا آباد کی پہاڑی میں شگاف پڑ گئے تھے، جو دو سال میں آس پاس کی زرعی زمین اور پہاڑوں تک پھیل گئے
پھر 2005ع میں زلزلہ آیا اور یہ شگاف مزید پھیلے اور اس نے انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچایا۔ جیولوجیکل سروے آف پاکستان نے 2009ع میں سروے کیا اور متنبہ کیا کہ پہاڑی تودے کے گرنے کے باعث دریائے ہنزہ بلاک ہو سکتا ہے
عطاآباد تحصیل ہنزہ کا آخری گاؤں ہے، جس کے دو حصے ہیں، ایک عطا آباد بالا اور دوسرا عطا آباد پائن، جسے سرکٹ بھی کہتے ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق سنہ 2009ع میں حالت یہ ہو گئی تھی کہ کھیتوں کو پانی دو تو پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ پانی کہاں گیا۔۔ زمین ناہموار ہو گئی تھی، کھیت ایک جگہ سے اوپر ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ کا حصہ نیچے ہو گیا
کئی جگہوں پر تو ایسے تھا، جیسے سیڑھیاں بنی ہوں۔ عطا آباد بالا کے پہاڑوں پر جب دراڑیں بہت واضح ہو گئیں تو حکومت نے دسمبر 2009ع کے شروع میں جھیل والے حصے کو شدید خطرناک قرار دے کر وہاں کے رہائشیوں کو دوسری جانب منتقل ہونے کو کہا۔ چٹانیں سرکنے کا عمل جاری رہا اور دراڑیں مزید گہری اور بڑی ہوتی گئیں
چار جنوری کو عطا آباد بالا کے دائیں ہاتھ پر پہاڑ کا پورا حصہ سرکا نہیں بلکہ سیدھا دریائے ہنزہ میں آ گرا۔ عطا آباد کے سامنے سے دریائے ہنزہ کی چوڑائی کم ہے۔ پہاڑ جب نیچے دریا میں گرا تو اس کا ملبہ زمین سے ٹکرانے کے بعد دوبارہ ہوا میں اچھلا اور یہ ملبہ عطا آباد پائن پر جا گرا جو عطا آباد بالا سے نیچے تھا اور اس عمل کے نتیجے میں وہاں 19 ہلاکتیں ہوئیں
عطا آباد پائن وہی گاؤں ہے، جسے حکومت نے محفوظ قرار دیا تھا تاہم اب جھیل بن جانے کے بعد عطا آباد بالا اور عطاآباد پائن دونوں ایک ہو چکے ہیں۔ یہ ہی نہیں بلکہ رہائشیوں نے مجھے بتایا تھا کہ چار جنوری سے کچھ روز قبل پہاڑ سرک نہ بھی رہا ہو تو آوازیں آتی تھیں۔ آفت نے اشارے دیے اور ہم نے ان کو سمجھ کر بچاؤ کے طریقے اختیار کیے، جس کے باعث درجنوں زندگیاں بچ گئیں
عطا آباد جھیل کے باعث مٹی کا استحکام مزید بگڑ گیا ہے اور پودوں، چرند پرند کے حوالے سے ماحولیاتی نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ماحولیاتی اثرات کیا ہیں، اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب پہاڑی تودے کے باعث دریائے ہنزہ کا بہاؤ بند ہوا تو عطا آباد سے آگے ایک 100 کلومیٹر کا دریا خشک ہو گیا اور صدیوں سے جاری ماحولیاتی نظام تباہ ہو گیا
دوسری جانب اپ اسٹریم ماحولیاتی نظام زیر آب آ گیا۔ اگرچہ حالیہ دنوں میں عطا آباد جھیل میں کمی واقع ہوئی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ چند سالوں میں یہ جھیل خشک ہو جائے گی لیکن اگر اسی عرصے میں کسی وجہ سے خاص طور پر عطا آباد جھیل ہی میں پانی لینڈ سلائیڈ سے سپل وے کے اوپر سے نکلتا ہے تو ایک اندازے کے مطابق یہ پانی تربیلا ڈیم تک تباہی مچا دے گا
عطا آباد جھیل سے منسلک لینڈ سلائیڈ کی قدیم ترین کڑی سنہ 1858ع سے جڑتی ہے، جب سلمان آباد میں لینڈ سلائیڈ ہوئی تھی
سلمان آباد عطا آباد سے محض تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اس جگہ بھی لینڈ سلائیڈ کا پیٹرن ہو بہو عطا آباد جیسا ہی تھا، یعنی کہ لینڈ سلائیڈ تین سمتوں کی جانب گئی اور سامنے والے پہاڑ سے ٹکرا کر واپس آئی
شمالی علاقہ جات میں غیر منظم انسانی سرگرمیوں کے باعث ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ زلزلے، لینڈ سلائیڈ، گلیشیئر جھیلوں اور سیلابی ریلے سے متاثر ہوتا رہے گا
کیا گوجال کے گاؤں گلمت اور شیش کٹ میں قدرت اشارے دے رہی ہے کہ کچھ ہونے لگا ہے۔۔؟
حکومت کو چاہیے کہ جلد سے جلد اس بات کی تحقیق کرے اور اگر خدا ناخواستہ ایسا ہے تو انسانی جانیں بچانے کے لیے اقدامات کرے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو