بلوچستان کی خواتین کو تحصیلدار اور نائب تحصیلدار بننے کا حق دلوانے والی بلوچ خاتون

ویب ڈیسک

صوبہ بلوچستان میں ایک خاتون کی کاوشوں کی بدولت صوبے میں خواتین کے تحصیلدار اور نائب تحصیلدار بننے کی راہ میں رکاوٹ دور ہو گئی ہے

خیال رہے کہ بلوچستان میں خواتین کو طویل عرصے سے تحصیلدار اور نائب تحصیلدار کے عہدوں کے لیے درخواست دینے کا اہل نہیں سمجھا جاتا تھا، پھر ایک خاتون نے اس امتیازی سلوک کو چیلنج کیا اور ان کی کاوشوں سے اب ہائی کورٹ نے ان عہدوں کے لیے دیے اشتہار کو امتیازی قرار دیتے ہوئے حکام کو نئے اشتہار دینے کی ہدایت کی ہے، جس میں تمام امیدواروں کو صنفی امتیاز کے بغیر امیدواروں کو انتخاب لڑنے کی اجازت دی گئی ہے

یہ خاتون کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی وکیل نرگس سمالانی ہیں

وہ شادی شدہ ہیں اور سنہ 2009 میں شادی کے وقت وہ اسکول کی طالبہ تھی

پاکستان میں شادی کے بعد اکثر خواتین تعلیم کا سلسلہ ترک کر دیتی ہیں لیکن شادی نرگس ایڈووکیٹ کی تعلیم اور پھر اعلیٰ تعلیم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنی

نرگس سمالانی نے دوران تعلیم شادی ہو جانے کے باوجود نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کی، بلکہ اپنے شوہر کے ساتھ مل کر ایل ایل بی کے علاوہ وکالت بھی شروع کی

وہ بتاتی ہیں ”میں نے ایف ایس سی اور بی ایس سی کرنے کے بعد یونیورسٹی آف بلوچستان سے کیمسٹری میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد بھی تعلیم کا سلسلہ ترک نہیں کیا بلکہ یونیورسٹی آف بلوچستان سے ہی بی ایڈ اور ایم ایڈ کی ڈگریاں بھی حاصل کیں“

اتنی ساری ڈگریوں کے بعد انہوں نے شوہر کے ساتھ ایل ایل بی کرنے کا فیصلہ کیا اور دونوں نے نہ صرف ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی بلکہ پریکٹس بھی شروع کی اور اب وہ ایک معروف وکیل ہیں

بلوچستان کی خواتین کو تحصیلدار اور نائب تحصیلدار بننے کا حق دلوانے کے حوالے سے نرگس سمالانی نے بتایا ”تحصیلداروں اور نائب تحصیلداروں کی آسامیوں کے لیے خواتین کو اہل قرار دیا جانا بلوچستان میں خواتین کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے، کیونکہ اس سے انتظامی آسامیوں پر خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا“

نرگس سمالانی کا کہنا ہے ”یہ بات میرے لیے باعثِ حیرت تھی کہ بلوچستان میں تحصیلداروں اور نائب تحصیلداروں کی آسامیوں کے لیے صرف مرد امیدوار اہل تھے جبکہ دیگر صوبوں میں ایسی کوئی پابندی نہیں تھی“

اسی حیرت اور سوال نے ایڈووکیٹ نرگس سمالانی کو بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تحصیلدار اور نائب تحصیلدروں کی آسامیوں کے لیے خواتین کو اہل قرار دینے کے لیے قانونی جنگ لڑنے پر ابھارا

نرگس سمالانی بتاتی ہیں ”میں ایک روز اپنے دفتر میں بیٹھی تھی تو میری نظر اخبار میں ایک اشتہار پر پڑی جو کہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن کی جانب سے تحصیلداروں اور نائب تحصیلداروں کی آسامیوں کے لیے دیا گیا تھا۔ جب میں نے اس اشتہار میں یہ دیکھا کہ صرف مرد امیدوار ان کے لیے اہل ہیں تو میری حیرانگی کی انتہا نہ رہی۔ میں نے سوچا کہ خواتین جب اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور سیکریٹریز بن سکتی ہیں تو پھر تحصیلدار اور نائب تحصیلدار میں ایسی کونسی بات ہے کہ وہ اس کے لیے اہل نہیں ہو سکتیں“

انہوں نے کہا ”یہ تو صریحاً جنسی امتیاز کی بنیاد پر ایک شرط تھی، جس کی آئین اور قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے“

ان کا کہنا تھا ”میں تو تحصیلدار اور نائب تحصیلدار کی آسامیوں کے لیے امیدوار نہیں بننا چاہتی ہوں بلکہ وکالت کے پیشے کو ہی جاری رکھوں گی لیکن میں یہ چاہتی تھی کہ بلوچستان میں خواتین بھی تحصیلدار اور نائب تحصیلدار کی آسامیوں کے لیے اہل ہوں“

اس اشتہار کو دیکھنے کے بعد نرگس سمالانی نے سب سے پہلے تمام صوبوں میں تحصیلداروں اور نائب تحصیلداروں کی آسامیوں کے لیے اہلیت کا موازنہ کرنے کے لیے تحقیق کی۔ اس حوالے سے انہوں نے مختلف کیسز کا مطالعہ کیا اور دوسرے صوبوں کے قواعد وضوابط کا بھی جائزہ لیا

ایڈووکیٹ نرگس بتاتی ہیں ”یہ بات میرے سامنے آئی کہ سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں خواتین کے لیے تحصیلدار اور نائب تحصیلدار کی آسامیوں کے لیے درخواست دینے پر نہ صرف کوئی پابندی نہیں بلکہ پنجاب تو ایک قدم آگے ہے کیونکہ وہاں تو ٹرانسجینڈرز بھی اگر تحصیلدار اور نائب تحصیلدار بننا چاہیں تو وہ بھی ان کے لیے درخواست دے سکتے ہیں“

نرگس کے مطابق ”سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ خیبرپختونخوا، جہاں طالبان کے اثرات زیادہ ہیں وہاں خواتین ان آسامیوں کے لیے اہل ہیں تو پھر وہ بلوچستان میں کیوں اہل نہیں ہو سکتی ہیں“

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ آسامیاں بورڈ آف ریونیو کی ہیں، اس لیے انہوں نے سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو کو ایک درخواست دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ صرف مرد امیدواروں کو اہل قرار دینے کی امتیازی شرط کو ختم کر کے ان آسامیوں کو دوبارہ مشتہر کرایا جائے

نرگس کا کہنا تھا کہ ان کی اس درخواست پر بورڈ آف ریونیو نے اس امتیازی شرط کو ختم کرنے کے لیے اقدام نہیں کیا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری

انہوں نے بتایا کہ چونکہ خواتین کو اہل نہ قرار دیا جانا ایک امتیازی شرط ہے جس کی آئین اور قانون میں کوئی گنجائش نہیں اس لیے انھوں نے اس کے خلاف آئین کے شق 199 کے تحت بلوچستان ہائی کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کی

ان کا کہنا تھا کہ اس آئینی درخواست میں یہ استدعا کی گئی کہ ایسے قواعد و ضوابط، جو کہ خواتین کو تحصیلدار اور نائب تحصیلدار کی آسامیوں کے لیے نا اہل قرار دیں، کو غیر آئینی اور غیرقانونی قرار دیا جائے

درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی تھی کہ متعلقہ حکام کو یہ ہدایت کی جائے کہ وہ ان آسامیوں پر خواتین کے لیے کوٹہ مختص کریں اور خواتین کو اس بات کی بھی اجازت دی جائے کہ وہ مقابلے کے امتحان میں حصہ لیں

ایڈووکیٹ نرگس کے مطابق: عدالت سے یہ بھی درخواست کی گئی کہ سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو کو یہ ہدایت کی جائے کہ وہ ان آسامیوں کو دوبارہ مشتہر کرے اور خواتین سمیت تمام خواہشمند امیدواروں سے درخواستیں طلب کی جائیں

بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس ہاشم خان کاکڑ اور جسٹس گل حسن خان ترین پر مشتمل بینچ نے اس آئینی درخواست کی سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ایسی شرط، جس کے تحت صرف مرد امیدواروں کو اہل قرار دیا گیا ہو اور خواتین کو روک دیا گیا ہوز غیر آئینی اور غیر قانونی ہے

عدالت نے یہ حکم دیا کہ متعلقہ حکام خواتین امیدواروں کے لیے پانچ فیصد کوٹہ مقرر کریں اور مخصوص کوٹے کے علاوہ خواتین امیدوار اوپن میرٹ کی نشستوں پر بھی حصہ لینے کے لیے اہل ہوں گی

ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے کہا کہ خواتین کے لیے مختص آسامیوں کے لیے اگر اہل خواتین امیدوار دستیاب نہ ہوں تو ان کو مستقبل میں خواتین سے ہی پر کیا جائے

عدالت نے تحصیلداروں اور نائب تحصیلداروں کی آسامیوں کو دوبارہ مشتہر کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بلاامتیاز تمام دلچسپی رکھنے والے امیدواروں سے درخواستیں طلب کی جائیں

ہائی کورٹ کے بینچ نے موجودہ قوانین میں پائے جانے والے ہر قسم کے امتیازات کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو حکم دیا کہ وہ خواتین کی حیثیت سے متعلق کمیشن کے دفتر کو مستحکم کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے

نرگس سمالانی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے ”بلاشبہ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ بلوچستان میں خواتین کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ جہاں اس فیصلے سے خواتین کے خلاف امتیازی قوانین کے خاتمے میں مدد ملے گی، وہیں اب بلوچستان میں جو بھی انتظامی آسامی ہیں، ان پر خواتین کی تعداد بڑھتی جائے گی“

تاہم ان کا کہنا تھا کہ جب تک خواتین کی حیثیت سے متعلق بلوچستان میں کمیشن نہیں بنتا اور پرانے رولز اور ریگولیشن کو تبدیل نہیں کیا جاتا تو اس وقت تک خواتین کے لیے رکاوٹیں رہیں گی

نرگس نے بتایا کہ 1996سے پاکستان جنسی امتیاز کے خاتمے کے لیے انٹرنیشنل کنوینشن پر دستخط کنندہ ہے اور اس کنوینشن کے تحت باقی صوبوں میں خواتین کی حیثیت پر کمیشن تو بن گیا ہے لیکن بلوچستان میں یہ قائم نہیں کیا گیا

ان کا کہنا تھا ”اگر یہ کمیشن قائم ہوتا تو وہ کمیشن خود امتیازی قوانین کو ختم کر سکتا تھا اور مجھے ہائی کورٹ میں اس آئینی درخواست کو دائر کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close