ایک تصویر ایک کہانی(5)

گل حسن کلمتی

دوستو آج کی کہانی ھیرانند لیپر(جذامی/کوڑ)اسپتال منگھو پیر کی ھے. سوچتا ھوں کیا لوگ تھے،جنہوں نے اپنی پوری زندگی انسانی خدمت میں گذار دی،ایسی خدمت جس میں ھر مذھب اور فرقے کے لوگوں کی بلا تفریق خدمت کی،یہ 1890 کی بات ھے جب سادو ھیرانند نے اپنے بھائی نول راء سے منگھو پیر کے گرم چشموں کے قریب زمین خریدی۔اس سے پہلے 1888میں دونوں بھائیوں نے سولجر بازار میں”یونین اکیڈمی “قائم کی،بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے "ھیرانند اکیڈمی”رکھا،ان کا تعلق برھمو سماج سے تھا،دونوں بھائیوں نے سماجی کاموں کے علاوہ ادب میں بھی نام پیدا کیا ،ھیرانند اکیڈمی بھی ایک ادبی اور ثقافتی اکیڈمی تھی۔یہ حیدرآباد مکھی شوقیرام آڈوانی کے بیٹے تھے۔نول راء کلرک سے ترقی کرتے ڈپٹی کلکٹر بنے،سماجی کاموں کے لئے "سندھ سبھا”نام تنظیم بنائی۔منگھو پیر کی زمین انہوں نے”سادو ھیرانند ٹرسٹ "بنا کر ٹرسٹ کے حوالےکی۔جذامی مریضوں کے لئے کوئی اسپتال نہ تھا تو انہوں نے جذامی اسپتال بنانے کا بیڑا اٹھایا اور کام شروع کیا،اسی دوران 1893 میں دونوں بھائی دیانت کر گئے-

1896میں اسپتال مکمل ھوا،مرکزی عمارت کے سوا دور دورچھ بڑے بڑے وارڈ بھی بنائے گئے،مرکزی عمارت جنگشاھی کے پتھر سے بنائی گئی ۔یہ آج بھی صحیح حالت میں ھے کچھ عرصہ پہلے سٹی حکومت کے دور میں اس کے مرکزی دروازے کے سامنے قبضہ کر کے گھر بنائے گئے پورا راستہ بند کر کے اس پر بھی قبضہ کیا گیا،یہ عمارت اور باقی تمام عمارتیں اس طرع ڈیزائن کی گئی ہیں کہ آگے  دروازے کے علاوہ پچھواڑے میں بھی دروازے رکھے گئے ہیں،یہ چاروں طرف سے کھلے اور ھوا دار ہیں۔مرکزی عمارت کے ساتھ "موچی خانہ”بھی ھے،آپ سوچ رھے ھونگے،شاید میں نے باورچی خانے کے بجائے غلطی سے "موچی خانہ” لکھا ھے،موچی خانہ اس لئے ھے،کیونکہ جذامی مریضوں کے مخصوص جوتے ھوتے ھیں،ان کی مرمت اور پالش کے لئے موچی خانہ بنایا گیا تھا،ایک بات اور جذامی مریضوں کے مخصوص جوتوں کے ایک "شو ورکشاپ”بھی تھا،جہاں سے مریضوں کو مفت جوتے فراہم کئے جاتے تھے ،یہ سب ھیرانند ٹرسٹ کے طرف سے تھا۔اب اس ورکشاپ کو رھائش کے لئے استعمال کیا جا رھا ھے،اس اسپتال کے بہت سے حصوں پر ملازمیں نے قبضہ کیا ھے اور کرائے پر چڑھا دئے ہیں۔بہت سےحصوں پر قبضے کرائے گئے ہیں،اس اسپتال کا ایک بلاک جھانگیر کوٹھاری کے جانب سے بنا کر دیا گیا ھے،جو اب بند ھے،اسپتال کے ساتھ ایک بلڈنگ مختلف سماج سدارک کے جانب بنایا گیا،بورڈ پر سب کے نام  دئیے گئے ہیں ،اس خوبصورت عمارت پر اس دور میں 13 ھزار خرچہ آیا تھا-

 

میں اس کہانی کو مختصر کرنے کی کوشش کرونگا،کیونکہ کہ تفصیلات طویل ھیں ،جب یہ سلسلہ کتابی صورت میں چھپے گا تو تمام تفصیلات دونگا۔ ھیرانند جذامی اسپتال کی الگ دنیا تھی،صوفی سندھ کی جھلک یہاں دیکھنے میں آتی ھے۔ایک بات بتاتا چلوں راما پیر کا قدیمی مندر بھی یہاں پر ھے،جب یہ زمین لی گئی تو مندر بھی اس میں آگئی تھی،جب یہ اسپتال بنایا گیا تو یہاں پر مندر مسجد اور ایک گرجا گھر بنایا گیا تھا ،جو اب بھی موجود ہیں،پرانی پتھر والی مسجد کی جگہ اب نیا جامع مسجد بنایا گیا ھے۔راما پیر کے قدیمی مندر کے ساتھ دو کمرے ہیں جو مندر کا حصہ ہیں اب وھاں ایک ھندو فیملی رھتی ھے،مندر اب بھی موجود ہے, ساتھ پتھر کی پرانی خوبصورت عمارت ھے،جس پر 1906 لکھا ھوا ھے،ساتھ ایک نیم کا پرانا درخت ھے،اسپتال ایک ملازم نے اس ایک طرف قبضہ کرکے نرسری بنائی ھے لگتا ھے یہ شخص کچھ سالوں کے بعد پوری عمارت پر قبضہ کر لیگا،کیونکہ اس کو سرکاری آشیرواد حاصل ھے۔اس کےسوا ایک اور مندرمھادیو مندر بھی ہے جس کی اب بابو لال دیکھ بحال کر رھا ھے ۔ بابری مسجد کے واقعے کے بعد پرانے پتھر کے مندر کو مسمار کرکے پتھر ھمارے مسلمان بھائی اٹھا کر لیے گئے اپنے گھروں میں استعمال کئے،انھی گھروں میں وہ نماز بھی پڑھتے ھونگے۔گرجا گھر موجود ہے,-
یہاں پر پتھر کا بنا ھوا ایک بھنڈارا بھی ھے جو اب خستہ حالت میں ھے،جس میں مریضوں کے مفت کھانا دیا جاتا تھا،اس بھنڈارا کے سامنے دو بڑھے پتھر کے چھپرے/چوکنڈی بنے ھوئے تھے،مریض ان کے نیچے بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے ۔ان خوبصورت چھپروں کو مسمار کرکے پتھر اٹھا کر لئے گئے۔یہ سب کچھ سرکار سرپرستی میں ھوتا رھا ھے۔کیونکہ اس ٹرسٹ کے اور اس دھرتی وارثوں کو مقدس بٹوارہ کے نام پر اپنا دیس چھوڑنا پڑا۔
یہ پورا علاقہ نیم اور پیپل کے درختوں سے بھرا پڑا تھا،درختوں کاٹ کر بیچھے گئے ،کچھ ابھی باقی ہیں۔ان کا قتل عام بھی بہت جلد ہوگا،کیونکہ کہ کفر کی ساری نشانیاں مٹانے ہیں-
1960 میں اس آباد دنیا کو کراچی میونسپلٹی کے حوالے کیا گیا اس کے بعد اس کی بربادی شروع ھوئی جو آج تک جاری ھے۔ایک پتھر کا بنا ہوا درمشالا بھی اس اسپتال کے ساتھ تھا،جس کا احوال کسی اور دفعہ۔
میں نے دورے کے دوران ایک چترالی مریض سے پوچھا ،”جن لوگوں نے یہ بنایا وہ ھندو تھے،ھر مذھب کی لوگوں کا بنا تفریق مفت علاج،مفت کھانا مفت رھائش،دی جاتی تھی اور آج ایک سؤ 21 سال ھوئے ھیں آج تک یہ صدقہ جاری ھے،کیا اس کے بنانے والے دوزخ میں جاینگے "؟اس مریض نے بنا سوچے جواب دیا”نہیں صاحب یہ کیسے دوزخ میں جائینگے”۔
کراچی میونسپلٹی کے قبضے کے بعد اس نام کا تبدیل کر کے "کے۔ایم۔سی جذامی اسپتال منگھو پیر "رکھا گیا۔یہ تاریخ کے ساتھ بلات کار ہے۔ضرورت اس بات کی ھے،اس پر تمام قبضے ختم کئے جائیں،اس کو قومی ورثہ قرار دیکر محفوظ کیا جائے ،اس کا پرانا نام دوبارہ بحال کیا جائے ۔یہ سب ھم سب کی تاریخ ھے،آئیں اس کو تاریک ھونے بچائیں۔

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close