
سندھ کے ساحلی ضلع سجاول میں واقع کھارو چھان کے گاؤں عبداللہ میر بحر میں ایک غیر معمولی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ زمین پر نمک کی تہہ، سمندر کے بڑھتے قدموں کی آہٹ اور خالی گھروں میں بھٹکتے آوارہ کتے، جیسے تہذیب کی قبر پر پہرہ دے رہے ہوں۔
حبیب ﷲ کھٹی، جن کی عمر 54 برس ہے، اس گاؤں کے ان چند رہائشیوں میں سے ہیں جو اب بھی یہاں موجود ہیں۔ وہ جلد ہی اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ کراچی منتقل ہونے والے ہیں۔ جانے سے پہلے وہ اپنی مرحوم والدہ کی قبر کو الوداع کہنے آتے ہیں۔ ان کے قدموں کے نیچے زمین کا دل چٹختنے لگتا ہے، نمک کی سفید پرت جیسے زخم کی پرانی پٹّی ہو، جو اب پھر سے رسنے لگی ہو۔
یہ وہ لمحہ تھا جب دریا کا بیٹا اپنے گاؤں کو الوداع کر رہا تھا، اپنی جڑوں سے کٹ رہا تھا اور اپنی آخری شناخت چھوڑنے جا رہا تھا۔
یہ وہ زمین تھی جہاں کبھی سندھ کا عظیم دریا سمندر سے گلے ملتا تھا، جہاں مٹی زرخیز تھی، پانی میٹھا اور زندگی سادہ۔ مگر اب، سمندر نے اپنا مزاج بدل لیا ہے۔ وہ دندناتا روز بروز آگے بڑھ رہا ہے، کاشتکاروں کے شیریں خوابوں کو کھارا کر رہا ہے، ماہی گیروں کے جال خالی چھوڑتا ہے، اور دیواروں کو چاٹتا ہوا گھروں تک آن پہنچا ہے۔
”کھارا پانی ہمیں چاروں طرف سے گھیر چکا ہے،“ حبیب اللہ کہتے ہیں۔ کبھی مچھلیاں ان کے روزگار کا ذریعہ تھیں، لیکن جب مچھلیاں نایاب ہو گئیں تو انہوں نے درزی کا کام شروع کیا۔ تاہم جب گاؤں کے 150 میں سے صرف چار گھرانے باقی رہ گئے، تو یہ کام بھی جاری نہ رہ سکا۔
کبھی یہاں 40 سے زائد بستیاں تھیں، اب سمندر نے انہیں نگل لیا۔ سرکاری آدم شماری کے مطابق 1981 میں 26 ہزار کی آبادی آج صرف 11 ہزار رہ گئی ہے۔ حبیب ﷲ بھی اب اپنے خاندان کے ہمراہ قریبی شہر کراچی منتقل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں جہاں پہلے ہی انڈس ڈیلٹا سمیت کئی علاقوں سے معاش کی تلاش میں آئے لوگوں نے بسیرا کر رکھا ہے۔
جناح انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق بیس برس میں بارہ لاکھ انسانوں کو اپنے گھر چھوڑنے پڑے۔ صرف انسان نہیں، ان کی کہانیاں، ان کے تہوار، ان کے لوک گیت، سب بہہ گئے۔
یہ مسئلہ صرف کھارو چھان تک محدود نہیں۔ پاکستان فشر فوک فورم کے مطابق انڈس ڈیلٹا کے متعدد دیہات اور قصبوں سے ہزاروں لوگ نقلِ مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ مارچ 2025 میں جناح انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، پچھلے بیس برسوں میں ڈیلٹا کے علاقوں سے 12 لاکھ سے زائد افراد بے دخل ہو چکے ہیں۔
ڈیلٹا سکڑ رہا ہے، سمندر پھیل رہا ہے
ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر (WWF) کے ماہر تحفظ ماحول محمد علی انجم کے مطابق، ”ڈیلٹا نہ صرف سکڑ رہا ہے بلکہ سمندری پانی سے ڈوب بھی رہا ہے۔“
1950 کی دہائی میں دریائے سندھ سے ڈیلٹا کی طرف بہنے والے پانی میں 80 فیصد کمی واقع ہو چکی ہے۔ اس کمی کی بڑی وجوہات میں نہری نظام، پن بجلی کے منصوبے، اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث گلیشیئرز کا پگھلاؤ شامل ہیں۔ 1990 سے اب تک پانی میں نمکیات کی مقدار میں 70 فیصد اضافہ ہو چکا ہے، جس سے زمین ناقابلِ کاشت اور ماہی گیری شدید متاثر ہوئی ہے۔ یوں اس کا فائدہ ہائیڈل پاور والوں کو ہوا، قیمت ڈیلٹا نے اپنی مٹی سے چکائی، جو اب نمک بن چکی ہے اور سانس سے، جو اب دم بہ دم گُھٹی جا رہی ہے۔
ایک سرکاری تحقیق (2019) کے مطابق ڈیلٹا کا 16 فیصد زرخیز رقبہ سمندری پانی کی وجہ سے ناقابلِ استعمال ہو چکا ہے۔
زمین پر اب نمک جم چکا ہے۔ جھینگے مر چکے ہیں۔ کھیت بنجر ہیں اور پینے کا پانی میلوں دور سے کشتیوں میں لایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ گدھوں پر پانی ڈھونے لگے ہیں، جیسے قرونِ وسطیٰ لوٹ آئی ہو۔
زراعت اور معیشت کو شدید دھچکا
ڈیلٹا ہمیشہ سے سندھ کی معیشت اور خوراک کے تحفظ کا مرکز رہا ہے۔ یہ علاقہ نہ صرف مینگرووز کا قدرتی مسکن ہے بلکہ ہزاروں ماہی گیروں، کسانوں، اور چھوٹے کاروباری افراد کی زندگی کا انحصار بھی اسی پر ہے۔
فاطمہ مجید، جو ماحولیاتی کارکن ہیں اور جن کے دادا کھارو چھان سے کراچی ہجرت کر چکے تھے، کہتی ہیں، ”ہم نے صرف زمین نہیں کھوئی، ہم نے اپنی ثقافت بھی کھو دی ہے۔ یہاں صرف گھر نہیں، زندگی کا ایک پورا طرز، ایک پوری تہذیب ختم ہو رہی ہے۔ خواتین جو نسلوں سے جال بُنتی تھیں اور مچھلیاں پیک کرتی تھیں، اب شہروں میں نوکری کی تلاش میں پریشان حال ہیں۔“
حکومتی اقدامات اور درپیش چیلنجز
سندھ حکومت نے مینگرووز کی بحالی کے منصوبے شروع کیے ہیں کیونکہ یہ درخت سمندری پانی کے خلاف قدرتی دفاعی دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وفاقی حکومت اور اقوام متحدہ نے بھی 2021 میں ’لیونگ انڈس انیشی ایٹو‘ کے تحت انڈس ریور بیسن کی بحالی کا منصوبہ شروع کیا، جس میں ڈیلٹا کی بحالی اور زمین کی نمکیات میں کمی شامل ہے۔
تاہم زمین پر قبضے، رہائشی منصوبے، اور ترقیاتی دباؤ ان کوششوں کو کمزور کر رہے ہیں۔ جن علاقوں میں مینگرووز لگائے جا رہے ہیں، انہی علاقوں میں رہائشی اسکیمیں انہیں کاٹ بھی رہی ہیں۔
جغرافیائی کشیدگی: ایک اور خطرہ
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر منسوخ کر دیا ہے۔ بھارت نے بالائی علاقوں میں ڈیم تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے، جس سے پاکستان کے لیے دریا کے پانی کی فراہمی مزید محدود ہو سکتی ہے۔ پاکستان نے اسے ’جنگی اقدام‘ قرار دیا ہے۔
یوں تاریخ بھی بے وفا نکلی۔ انگریزوں نے دریا کا قدرتی بہاؤ بدل کر نہریں بنائیں، پاکستان نے ڈیم در ڈیم بنائے، اور اب انڈیا سندھ طاس معاہدہ منسوخ کر کے آخری سانسوں پر لٹکے ڈیلٹا کی گردن پر آخری وار کر رہا ہے۔ پاکستان اسے ’جنگی اقدام‘ کہتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ تو برسوں سے جاری ہے، خاموش، مگر تباہ کن۔۔ اور اس کا خمیازہ انڈس ڈیلٹا کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
یہ معاملہ صرف ماحولیات کا نہیں، بلکہ علاقائی سلامتی اور زرعی معیشت کا بھی ہے، لیکن سندھو ڈیلٹا کی سب سے بڑی بدقسمتی شاید وہ جاہلانہ تصور ہے، جو سمندر میں دریا کا پانی گرنے کو پانی کا زیاں قرار دیتا ہے۔
مقامی باشندوں کا مستقبل؟
”کون اپنی زمین خوشی سے چھوڑتا ہے؟ انسان صرف تب اپنا وطن چھوڑتا ہے جب کوئی اور راستہ باقی نہ بچے۔“ حاجی کرم سوال کرتے ہیں، جن کا گھر سمندر کی بلند ہوتی سطح کے باعث ڈوب چکا ہے۔ انہوں نے سمندر سے دور نیا گھر بنایا ہے اور امید رکھتے ہیں کہ دیگر لوگ بھی ایسا کریں گے۔
لیکن یہ حل عارضی ہے۔ جب پورا ایک ماحولیاتی نظام تباہ ہو جائے، تو صرف مکان بنانا کافی نہیں ہوتا، نظام کو بچانا ضروری ہوتا ہے۔
انڈس ڈیلٹا، جو کبھی زندگی کا مرکز تھا، اب موت کے کنارے پر کھڑا ہے۔ ماہی گیروں کی بستیاں، کسانوں کے کھیت، اور زمین کی زرخیزی، سب کچھ وقت کے ساتھ معدوم ہو رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی، حکومتی ناکامی اور علاقائی کشیدگی نے مل کر ایک ایسا بحران پیدا کیا ہے، جس کے اثرات صرف سجاول یا کھارو چھان تک محدود نہیں رہیں گے۔
ڈیلٹا کی موت، درحقیقت، آنے والی نسلوں کے لیے ایک انتباہ ہے کہ اگر اب بھی ہم نے قدرتی وسائل کا تحفظ نہ کیا تو نہ زمین بچے گی، نہ دریا، اور نہ ہی ہم۔
امر گل
رپورٹ کا ماخذ: اے ایف پی