جب کوئی شخص ٹوئٹر خریدنے کے لیے چالیس بلین ڈالر کی پیشکش کر سکتا ہو۔۔ امیر، امیر تر ہو رہے ہیں، تو ایسے میں فلسفیوں کا ایک گروپ سمجھتا ہے کہ دنیا کے نظام کے ساتھ ہی مسئلہ ہے۔ اس کا ایک حل ’لِمِٹیرینزم‘ کے نظریے کو سمجھا جا رہا ہے۔
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ آپ زیادہ امیر نہیں ہو سکتے۔ لیکن دنیا میں بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات کو دیکھتے ہوئے لوگوں کو یہ بات غلط دکھائی دینے لگی ہے۔ بعض لوگ واقعی بہت ہی زیادہ امیر ہیں
ایسے ماہرین معاشیات، فلسفیوں اور رہنماؤں کی ایک طویل فہرست ہے جو کئی صدیوں کے دوران دولت کی تقسیمِ نو کے معاملے پر اپنے نظریات پیش کر چکے ہیں۔ معاشی مساوات اور اشتراک کے معاملے پر پورے کے پورے سیاسی نظام وضع ہو چکے ہیں
’اکنامک لِمِٹیرینزم‘ یا معاشی حد بندی ہے کیا؟
اکنامک لِمِٹیرینزم یا معاشی حد بندی کا تصور یہ ہے کہ کسی کو بھی بہت زیادہ امیر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تصور بہت زیادہ امیر لوگوں کی وجہ سے نقصانات اور خطرات پر بحث کرتا ہے۔ عدم مساوات کے سوال پر بحث کرتے ہوئے یہ غربت کے مسائل اور غریبوں کی حالت بہتر کرنے کے معاملے کو نظر انداز کر دیتا ہے اور صرف بہت زیادہ ملکیت پر توجہ مرکوز کرتا ہے
کوئی فردِ واحد زیادہ سے زیادہ کتنی دولت جمع کر سکتا ہے، یہ حد لگانا کوئی سزا تصور نہیں کیا جاتا۔ خیال یہ ہے کہ سماجی بہتری کے ذریعے معاشی نظام اور عوام میں ایک مثبت تبدیلی کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس کے علاوہ ’ضرورت سے زیادہ دولت‘ زندگی میں ایک حد سے زیادہ بہتری کا سبب نہیں بنتی۔ زیادہ تر معاملات میں چند ملین ڈالر کافی ہوتے ہیں
لِمِٹیرینزم سوشلزم یا کمیونزم نہیں ہے۔ یہ دولت جمع کرنے، پرائیویٹ جائیداد کی ملکیت یا کسی حد تک سماجی عدم مساوات کو رد نہیں کرتا۔ تاہم اس کا تصور یہ ضرور ہے کہ بہت زیادہ ہونا بھی غیر ضروری ہے
ابھی تک اس نظریے کا حامی ’بہت زیادہ‘ کی اعداد کی شکل میں کوئی حد مقرر نہیں کر سکے۔ لہٰذا ایسا کوئی ایک نکتہ نہیں ہے، جہاں پہنچنے پر کہا جا سکے کہ یہ دولت ضرورت سے زائد ہے، مثلاﹰ دس ملین ڈالر یا ڈیڑھ سو ملین یا پھر دو بلین ڈالر!
لِمِٹیرینزم نظریے کی جڑیں
انگرِڈ روبینز Ingrid Robeyns نامی ایک ماہرِ تعلیم کا خاص طور پر معاشی حد بندی یا اکنامک لِمِٹیرینزم کے نظریے میں اہم کردار ہے۔
ان کا تعلق بیلجیم سے ہے اور وہ نیدرلینڈز کی اوتریشٹ یونیورسٹی سے منسلک ہیں ، وہاں شعبہ فلسفہ میں پڑھاتی ہیں۔ وہ محققہ ہیں اور سماجی مساوات، سیاسی فلسفہ اور اخلاقیات ان کی خاص مہارتیں ہیں
انہوں نے پہلی مرتبہ اکنامک لِمِٹیرینزم یا سماجی حد بندی کا نظریہ 2012ع میں ایک کانفرنس میں پیش کیا تھا۔ لیکن اس نظریے پر ان کا اولین اکیڈمک پیپر چھپنے میں کچھ برس لگ گئے
اس کے بعد سے وہ مسلسل اس معاملے پر مباحثوں میں شریک ہو رہی ہیں، ریسرچ پیپرز شائع کرا رہی ہیں اور ایک کتاب لکھنے میں بھی مصروف ہیں۔ ان کے اس تصور پر دنیا بھر سے مختلف طرح کے ردعمل سامنے آ رہے ہیں
انگرڈ روبینز نے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو سے اپنی ایک تازہ گفتگو میں کہا ”یورپ میں، میرا تجربہ یہ ہے کہ عوام لِمِٹیرینزم سے منسلک بہت سے دلائل سے متفق ہیں۔ لیکن امریکہ میں یہ ایک ایسا خیال ہے جو بڑے پیمانے پر ہونے والے مباحثوں سے بہت دور ہے‘‘
روبینز کہتی ہیں ”روایتی امریکی سماج کا ایک حصہ ’امریکن ڈریم‘ ہے، یعنی یہ تصور کہ ہر ایک کے پاس بہت زیادہ امیر بننے کا امکان موجود ہے، لیکن اگر کوئی بہت زیادہ محنت کرے تو۔۔‘‘
کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اکنامک لِمِٹیرینزم کا کچھ زیادہ استعمال نہیں ہو رہا، لہٰذا کمپنیوں کو بھی اس تصور کا پابند بنایا جانا چاہیے
تاہم اس نظریے پر تنقید کرنے والے کچھ فلسفی اور ماہرین معاشیات دولت کو محدود کرنے کے خیال کے ہی مخالف ہیں۔ وہ کمائے جانے والی یا ورثے میں ملنے والی دولت پر کوئی بھی اخلاقی حد مقرر کرنے کے خلاف ہیں
ان کا خیال ہے کہ ”اصل میں یہ دولتمند ہونے کا ہی امکان ہی ہے، جس کی وجہ سے کاروباری حضرات خطرات مول لیتے ہیں، نئی چیزیں ایجاد ہوتی ہیں اور تبدیلی کا عمل آگے بڑھتا ہے“
ساتھ ہی ان کی دلیل ہے کہ دولت کو محدود کر دینے سے سیاسی عدم مساوات کم نہیں ہوگی۔ دولت مندی کو ماپنا ویسے بھی ناممکن ہے، اس لیے ایک ترقی پسند ٹیکس نظام مساوات کا ہدف حاصل کرنے کا ایک بہتر راستہ ہے
ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں ، جہاں امیر، امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ فوربز میگزین کی طرف سے 2022ع میں جاری کی گئی ارب پتی افراد کی فہرست کے مطابق ایسے افراد کی تعداد 2,668 بنتی ہے، جو مجموعی طور پر 12.7 ٹریلین ڈالر کے مالک ہیں۔ گو گزشتہ برس کے مقابلے میں یہ تعداد نسبتاﹰ کم ہے، جس کی وجہ عالمی بحران ہیں، پھر بھی ایک ہزار ارب پتی ایسے ہیں، جن کی دولت اس سے ایک برس کے مقابلے میں بڑھی
کیا دولت پر حد واقعی لگائی جا سکتی ہے؟
انگرڈ روبینز کی نظر میں دنیا کے حقیقی مسائل ان کے اس تصور پر عمل درآمد سے حل کیے جا سکتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بہت زیادہ امیر ہونے کی بین الاقوامی تعریف پر متفق ہونا قریب قریب ناممکن ہے۔ دوسری بات اگر ایک خاص رقم پر متفق ہو بھی جایا جائے، تو کسی کے پاس موجود ضرورت سے زائد رقم کو کیسے حاصل کیا جائے گا؟
روبینز کی دلیل البتہ یہ ہے کہ فلسفیوں کا کام سوال اٹھانا ہے نہ کہ ہیرے، جواہرات یا پرائیویٹ جیٹ ضبط کرنا۔۔
وہ کہتی ہیں ”آئیڈیاز تاریخ کو تبدیل کر سکتے ہیں، کچھ کام کرتے ہیں اور کچھ نہیں۔‘‘
ممکن ہے ان کے تصورات کہیں غیر معروف ہو سکتے ہیں، لیکن یہ کم از کم عدم مساوات کے بارے میں لوگوں میں سوچ تو بیدار کر رہے ہیں
انگرڈ روبینز کے بقول ”میرا کام بطور فلسفی اور اسکالر اس طرح کے دلائل کو پیش کرنا ہے، مگر یہ عوام اور معیشت، سیاست اور مذہبی رہنماؤں کا کام ہے کہ ان کے حوالے سے اقدامات کریں اور اس طرح کی دنیا کو ایک حقیقت بنائیں۔“