بھارت میں داخلی سیاسی اور مذہبی تقسیم کے پھیلتے اثرات برطانیہ کیسے پہنچے؟

ویب ڈیسک

ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان حالیہ تشدد نے برطانیہ کے شہر لیسٹر کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس برطانوی شہر میں جنوبی ایشیائی باشندوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ مبصرین کے مطابق اس ساری صورتحال میں بھارتی سوشل میڈیا پر پھیلائی اشتعال انگیزی کی مہم نے کلیدی کردار ادا کیا

واضح رہے کہ اگست کے آخر میں انگلینڈ میں ایسٹرن مڈلینڈز کے علاقے لیسٹر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین پرتشدد واقعات کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ لیسٹر کو ہمیشہ برطانیہ کے سب سے زیادہ متنوع شہروں میں سے ایک ہونے کی حیثیت حاصل رہی ہے اور وہاں مختلف قومیتوں اور مذاہب کے افراد کا کامیاب سماجی انضمام کئی دہائیوں سے مثالی رہا ہے لیکن اس بار اس میں دراڑ پڑتی دکھائی دی

ماہرین کا کہنا ہے کہ لیسٹر میں جنوبی ایشیائی تارکین وطن کے درمیان اس تشدد نے یہ بات واضح کر دی کہ کس طرح بھارتی سوشل میڈیا اور اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے بھارت کی داخلی اور سماجی تقسیم پیدا کرنے والی سیاست اور سیاسی تناؤ لے اثرات کو بیرون ملک تک پہنچا دیا

لیسٹر میں کشیدگی کا آغاز 28 اگست کو دبئی میں منعقدہ کرکٹ کے ٹی ٹوئنٹی ایشیا کپ میں پاکستان کے خلاف بھارت کی فتح کے بعد ہوا تھا۔ لیسٹر شہر میں منائے جانے والے فتح کے جشن میں اس وقت بدنظمی شروع ہوئی، جب ہندو اور مسلم دونوں مقامی برادریوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے ہجوم سڑکوں پر نکل آئے اور ان کا آپس میں تصادم شروع ہو گیا۔ اس کے بعد مقامی پولیس حرکت میں آئی اور اس نے ایک درجن سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا

لیسٹر کی جنوبی ایشیائی ہندو اور مسلم برادریوں کے مابین کشیدگی اگلی صبح تک ختم نہیں ہوئی تھی۔ یہ کشیدگی دراصل کئی ہفتوں تک جاری رہی۔ سترہ ستمبر کی رات اس کشیدگی میں اضافہ اس وقت اضافہ ہوا، جب پولیس نے یہ اعلان کیا کہ اس نے ’غیر منصوبہ بند احتجاج‘ کرنے والے نوجوانوں کے بے قابو گروہوں کا سامنا کیا، جو جلد ہی تشدد میں تبدیل ہو گیا

اس دوران ہندوؤں کے گروہ گالی گلوچ کرتے مسلمانوں کے محلے سے ہوتے ہوئے ایک مسجد کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اس کے بعد لیسٹر میں قائم ایک ہندو مندر نے اطلاع دی کہ ہجوم کے کچھ حصوں نے مندر پر لگا جھنڈا اتار دیا ہے

لیسٹر کی سڑکوں پر بدامنی بھارت میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان طویل عرصے سے جاری تنازعات سے مطابقت رکھتی ہے، جو حالیہ برسوں میں مزید بڑھ گئی ہے کیونکہ نئی دہلی میں حکمران انتہا پسند ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ان پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، جن کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ بھارتی مسلم اقلیت کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوششوں کا نتیجہ ہیں

بھارتی سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز پوسٹس کی وجہ سے بھی مذہبی اختلافات پیدا ہو رہے ہیں۔ لیسٹر میں بدامنی کے ساتھ ہی بھارت میں سوشل میڈیا پر ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمان بچوں کو اغوا کرنے کی متعدد پوسٹس بھی گردش کر رہی تھیں۔ برطانیہ میں واٹس ایپ پر ہندو گروپوں نے بے بنیاد افواہیں پھیلائیں کہ لیسٹر کے زیادہ تر ہندو آبادی والے علاقوں میں مسلمانوں کے ہجوم املاک پر حملے کر رہے تھے۔ لیسٹر کے میئر پیٹر سولسبی نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ انہیں اس سے پہلے کبھی بھی اس سطح کی کشیدگی کا تجربہ نہیں ہوا تھا

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس ساری صورتحال کے پیچھے سوشل میڈیا کا کردار بہت اہم رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر بغیر تحقیق کے اپلوڈ ہونے والے مواد کے باعث مشرقی لیسٹر میں کشیدگی شدت اختیار کرتی گئی اور کرکٹ میچ سے شروع ہونے والی لڑائی مذہبی فساد کا سبب بن گئی

لیسٹر پولیس کے افسر راب نکسن کے مطابق ’اگست میں ہونے والی افراتفری میں سوشل میڈیا پر نشر ہونے والی غلط معلومات نے بھرپور کردار ادا کیا۔‘

لیسٹر کے میئر پیٹر سولز بائی نے اپنے بیان میں کہا کہ ’میں نے سوشل میڈیا پر استعمال ہونے والے الفاظ دیکھے جو بہت خراب تھے اور ان میں سے کچھ مواد بالکل جھوٹ پر مبنی تھا۔‘

سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہوں پر پولیس نے خود تحقیقات کر کے اس معاملے کو سُلجھایا کہ نوجوان لڑکی کو تین آدمیوں کی جانب سے اغوا کرنے کا معاملہ بالکل جھوٹ تھا اور ایسا کچھ نہیں ہوا تھا

خبررساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق یہ ایک ’سوشل میڈیا طوفان‘ تھا، جو ایک دوسرے براعظم میں بیٹھ کر اٹھایا گیا اور اس کے حقیقی اثرات برطانیہ کے شہر لیسٹر میں دیکھے گئے، جہاں پولیس نے تقریباً 50 گرفتاریاں کیں اور ایک کمیونٹی کے ٹکڑے ہو گئے

فیکٹ چیکنگ ویب سائٹ ’لاجیکلی‘ کے ترجمان، جنہوں نے ان سوشل میڈیا پوسٹس کا تجزیہ کیا، نے کہا: ’یہ ایک مضبوط مثال ہے کہ ٹوئٹر پر بنائے گئے ہیش ٹیگ کس طرح مشکوک اشتعال انگیز دعوؤں کا استعمال کرکے زمین پر کشیدگی کو بڑھاوا دے سکتے ہیں۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر اشتعال انگیز ٹویٹس، افواہیں اور جھوٹ بھارت سے پروان چڑھے، جو ’بے قابو سوشل میڈیا‘ کی اس طاقت کو ظاہر کرتے ہیں، جس سے غلط معلومات اور پورے براعظم میں بدامنی پھیلی

ماہرین کے مطابق اشتعال انگیز ٹویٹس، افواہیں اور جھوٹی معلومات زیادہ تر بھارت سے پھیلائی گئیں کیونکہ وہاں سے غلط معلومات شائع ہونے کا سلسلہ کافی مضبوط ہے

جنوبی ایشیا یکجہتی گروپ کے کیول بھارادیا کہتے ہیں کہ ’لیسٹر میں ہونے والے واقعات اچانک سے نہیں ہوئے، فیملی اور دوست ایک دوسرے کو غلط معلومات کئی برسوں سے بھیج رہے ہیں، یہ ٹرولنگ کرنے والی فوج کی جانب سے نہ رکنے والا سلسلہ ہے۔‘

لیسٹر میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے پیچھے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جو ہیش ٹیگز استعمال کیے گئے، ان میں سے آدھے سے زیادہ ٹویٹس بھارت میں موجود اکاؤنٹس کے ذریعے کیے گئے تھے

ان ہیش ٹیگز میں ہیش ٹیگ لیسٹر، ہیش ٹیگ ہندوز انڈر اٹیک، ہیش ٹیگ ہندوز انڈر اٹیک اِن یو کے سرفہرست تھے

’لاجیکلی‘ نے کہا کہ جغرافیائی کوآرڈینیٹ یا جیو ٹیگ کی گئی گمراہ کن اور بے بنیاد افواہوں کے ساتھ تقریباً 80 فیصد ٹویٹس کا تعلق بھارت سے تھا

ایک ترجمان نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا کہ ’برطانیہ کے ساتھ جیو ٹیگ کی گئی ٹویٹس کا تناسب انڈیا کے ساتھ جیو ٹیگ کی گئی ٹویٹس کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ تھا، جو بظاہر ایک مقامی واقعہ تھا۔‘

انہوں نے کہا: ’انڈیا میں ہائی پروفائل شخصیات کی شمولیت نے بحث کو جنم دیا، جو ایک اہم عنصر تھا۔‘

فیکٹ چیک نے اس بات کی تصدیق کی، جس کا لیسٹر کے متعدد رہائشیوں کو برسوں سے شبہ تھا کہ آن لائن غلط معلومات اور بدسلوکی، جس کا مقصد مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانا ہے، انڈیا میں موجود صارفین کی طرف سے آئیں جبکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم اس کی جانچ پڑتال کے لیے یا تو کچھ بھی نہیں کر رہے تھے یا جو کر رہے تھے وہ ناکافی تھا

لیسٹر میں ہونے والے واقعات کو، جلتی پر تیل ڈالنے کے ماہر بھارتی میڈیا میں بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا گیا

اس حوالے سے بھارتی میڈیا تھنک ٹینک فری اسپیچ کولیکیٹو کی شریک بانی گیتا سیشو کا کہنا ہے ”معروف بھارتی میڈیا ادارے بغیر کسی ثبوت کے بے بنیاد اشتعال انگیز خبریں نشر کر رہے تھے، جن کے مطابق مسلمانوں کے نام نہاد ’گینگ‘ ہندوؤں پر حملے کر رہے ہیں“

گیتا سیشو کا کہنا ہے نے ”لیسٹر میں تشدد کو جانبدار میڈیا نے رپورٹ کیا، جس میں بھارتی حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا تھا کہ وہ برطانیہ میں ان ہندوؤں کی حفاظت کے لیے ‘کارروائی‘ کرے، جن پر مبینہ طور پر ’حملہ‘ کیا گیا تھا“

جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارتی سوشل میڈیا پر لیسٹر میں ہونے والا تشدد داخلی سیاست کے بڑے پیمانے پر منقسم دائرے پر بھی چھایا رہا

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی مانیٹرنگ کی جانب سے ٹوئٹر تجزیے کے آلے برانڈ واچ کا استعمال کرتے ہوئے کی جانے والی ایک تحقیق میں انگریزی زبان میں کی گئی ایسی ہزاروں ٹویٹس کی نشاندہی کی گئی، جن میں لیسٹر کے واقعات کا ذکر بھارت میں ہندو مسلم کشیدگی کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ زیادہ تر ٹویٹس 17 سے 18 ستمبر تک کے اختتام ہفتہ پر لیسٹر میں کشیدگی کے عروج کے دوران اور اس کے بعد ہی کی گئی تھیں

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پالیسیوں کو بھارت کی مسلم اقلیت کی جانب سے ہندو مذہب کی سیاست قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری قرار دیا جاتا ہے

1989ء سے مودی کی انتہا پسند نظریات کی حامل جماعت بی جے پی کا نعرہ ‘ہندوتوا‘ رہا ہے، جو ہندو مذہب کو فروغ دینے والا ایک سیاسی نظریہ ہے

بھارتی صحافی اور مبصر سدھارتھ بھاٹیہ کا کہنا ہے کہ ہندوتوا پر مرکوز بھارتی سیاست تارکین وطن کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ہندوستانی تارکین وطن کی سیاست ہندوستان میں رائج سیاست کی عکاس ہوتی ہے۔ وہی پولرائزیشن، وہی دھڑے بندی، وہی سوشل میڈیا کی مہمات، وہی سیاسی اور سرکاری سرپرستی اور وہی تشدد۔۔

19 ستمبر کو برطانیہ میں بھارتی ہائی کمیشن نے لیسٹر میں تشدد کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا، جس میں صرف مبینہ طور پر ’ہندو مذہب کے احاطے اور علامتوں کی توڑ پھوڑ‘ کا ذکر کیا گیا تھا۔

ایک بھارتی سیاسی کارکن کویتا کرشنن کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سیاسی سرپرست راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے کئی سالوں سے دوسرے ممالک میں اسلاموفوبیا اور تشدد کو بھڑکانے کے لیے ایک عالمی نیٹ ورک تیار کیا ہے

کویتا کرشنن کہتی ہیں ”اس کے بعد بھارت میں مودی پراپیگنڈا میڈیا کے ساتھ ساتھ برطانیہ، امریکہ، روس اور دیگر جگہوں پر بھی انتہائی دائیں بازو کی نسل پرستانہ آوازوں کے ذریعے اس تشدد کو ہوا بھی دی جاتی رہی۔ یہ سب محض کوئی اتفاق نہیں ہے‘‘

بی جے پی 2014 میں بھارت میں برسراقتدار آئی اور 2019 میں ماضی کی نسبت زیادہ ووٹوں سے جیتی تھی، اس کی کامیابیوں کا سہرا اس کے ٹیکنالوجی سیل اور سوشل میڈیا کی صلاحیت کو جاتا ہے، جسے ہزاروں حامیوں کی مدد حاصل ہے، جنہیں وہ ڈجیٹل ’یودھا‘ یا جنگجو کہتے ہیں

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے ٹیکنالوجی سیل کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ سائبر رضاکار اکثر مذہبی اقلیتوں کو گالیاں دیتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کے بارے میں غلط معلومات پھیلاتے ہیں

ایک حالیہ رپورٹ میں دلتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ ایکویلٹی لیبز نے کہا ہے کہ فیسبک، ٹوئٹر، یوٹیوب اور ہزاروں وٹس ایپ اور ٹیلی گرام چیٹ گروپس کے ذریعے بیرون ملک مقیم بھارتی برادری میں ’قوم پرستانہ، اسلامو فوبک اور ذات پات سے متعلق غلط معلومات‘ پھیل رہی ہیں

ایکویلٹی لیبز سے وابستہ تھینموزی سوندارا راجن نے کہا: ’عالمی جنوبی ایشیائی باشندوں میں غلط معلومات کے سب سے بڑے نیٹ ورکس میں سے ایک ہندو قوم پرستی ہے، جس میں ذات پات اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف متعصبانہ اور اکثر خوفناک حملے ہوتے ہیں۔‘

سوندارا راجن نے صحافیوں کے لیے توہین آمیز اصطلاح ’پریسٹیٹیوٹ‘ اور بھارت میں مقبول اسلامو فوبک سازشی تھیوری ’لو جہاد‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’صرف ان ہولناک ہیش ٹیگ کے بارے میں ہی سوچیں، جو اب معمول بن چکے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’وٹس ایپ پر پھیلائے گئے بیانات سے آف لائن تشدد ہوتا ہے۔‘

بھارتی فیکٹ چیکنگ ویب سائٹ ’آلٹ نیوز‘ کے شریک بانی پراتک سنہا نے کہا: ’اگرچہ تارکین وطن نے طویل عرصے تک بھارت سے آنے والا مواد پڑھا اور واقعات پر تبصرہ کیا ہے، لیکن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے عروج کے ساتھ غلط معلومات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’ہم میں اب بہت زیادہ تفریق پیدا ہوچکی ہے اور یہ خاص طور پر ملک سے باہر مقیم بھارتیوں کے بارے میں سچ ہے، جو زمینی حقائق کی جانچ نہیں کر سکتے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خاص طور پر علاقائی زبانوں میں بہت سی نفرت انگیز تقاریر اور غلط معلومات پر قابو نہیں پایا جاتا۔‘

زیادہ تر شور میٹا، سابقہ فیسبک سے پیدا ہوتا ہے، جس نے 2019 میں سول سوسائٹی گروپوں کی تنقید کے بعد، بھارت میں اپنے پلیٹ فارمز پر نفرت انگیز تقریر اور تشدد پر اکسانے میں اپنے کردار کا آزادانہ جائزہ لینے کا کہا تھا

لیکن اس کے بعد میٹا نے کہا کہ ’وہ مکمل رپورٹ جاری نہیں کرے گی‘، تاہم انہوں نے بھارت کے لیے اپنی کانٹینٹ ماڈریشن اور لینگویج سپورٹ میں ’نمایاں اضافہ‘ کیا ہے

بھارت میں تقریباً دو کروڑ چالیس لاکھ صارفین رکھنے والے ٹوئٹر نے بھارتی عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ ایسی پوسٹس کو ہٹانے کے کچھ حکومتی احکامات کو کالعدم قرار دے، جن کے بارے میں نئی دہلی کا کہنا ہے کہ غلط معلومات پھیلائی گئی ہیں

گذشتہ ماہ بھارت کی سپریم کورٹ نے ایک غیر معمولی سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹیلی ویژن ’نفرت انگیز تقاریر کا سب سے بڑا ذریعہ‘ ہے اور حکومت ’خاموش گواہ کے طور پر کیوں کھڑی ہے۔‘

بھارتی حکومت نے اس الزام کا کوئی جواب نہیں دیا ہے

دوسری جانب پراتک سنہا نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بڑی مارکیٹوں میں نفرت انگیز تقریر اور غلط معلومات کو بڑے پیمانے پر چیک نہیں کیا جاتا۔‘

انہوں نے کہا: ’غلط معلومات بنیاد پرستی کی طرف لے جاتی ہیں، آپ کہیں بھی ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم اس کے نتائج پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close