ٹی ٹی پی میں مکران سے شامل ہونے والا گروہ کون ہے؟

ویب ڈیسک

پاکستان میں دہشت گردی کے سائے پھر منڈلانے لگے ہیں، بنوں کینٹ کا واقعہ ہو یا دو روز قبل پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والا خودکش دھماکہ، یہ تمام واقعات اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ امن دشمن عناصر ایک بار پھر منظم کارروائیوں کے لیے متحرک ہو رہے ہیں

اسلام آباد میں ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی لیکن اس بار ایک اور نئی بات بھی سامنے آئی، جو بلوچستان کے علاقے مکران کے ایک عسکریت پسند گروہ کے ٹی ٹی پی سے بیعت کرنے کے متعلق تھی

سوال یہ ہے کہ مکران میں ٹی ٹی پی کے ساتھ شامل ہونے والے لوگ کون ہیں اور مکران میں ان کی کارروائیوں کے کیا اثرات پڑ سکتے ہیں؟

کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی کے مطابق بلوچستان کے مکران ڈویژن سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے ٹی ٹی پی کے امیر ابو منصور عاصم مفتی نور ولی کے ہاتھ پر ہجرت و جہاد کی بیعت کی ہے

ٹی ٹی پی نے مکران کے حوالے سے بیعت کرنے والوں کے بارے میں جاری بیان میں کہا گیا ”مزار بلوچ کی قیادت میں بیعت کرنے والی یہ جماعت مثبت ماضی کی حامل ہے“

اس سلسلے میں پاکستان میں سکیورٹی امور کے ماہر اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا کا کہنا ہے ”یہ غیر معروف لوگ ہیں۔ جن لوگوں کا ٹی ٹی پی نے ذکر کیا ہے وہ پہلے کسی سرگرمی میں ملوث نہیں رہے ہیں۔ اگرچہ پہلے بھی طالبان کا سپورٹ نیٹ ورک تھا لیکن یہ ان سے باقاعدہ وابستہ نہیں رہے“

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار بھی ان کے غیر معروف ہونے کی بات سے متفق ہیں، وہ کہتے ہیں ”مکران میں مذہبی لوگ اور رہنما ہیں لیکن کسی مذہبی جماعت نے مکران سے کسی انتخاب میں اب تک کامیابی حاصل نہیں کی۔ اکا دکا مذہبی رحجانات کے حامل افراد انفرادی طور پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں لیکن کسی مذہبی تنظیم کو یہاں سے کوئی کامیابی نہیں ملی“

شہزادہ ذوالفقار نے کہا ”آگے چل کر یہ لوگ مکران میں یا کسی اور علاقے میں اگر کوئی کارروائی کرتے ہیں تو اس سے پتا چل جائے گا کہ یہ کتنا مؤثر گروہ ہے، لیکن تاحال یہ کوئی منظم گروہ نہیں، شاید کچھ انفرادی لوگ ہوں گے، جو اپنا ونگ بنانا چاہتے ہیں“

واضح رہے کہ بلوچستان میں بدامنی کے جو واقعات پیش آتے رہے ہیں، ان میں سے بعض کی ذمہ داری دیگر شدت پسند تنظیموں کی طرح تحریک طالبان پاکستان بھی قبول کرتی رہی ہے، لیکن تحریک طالبان پاکستان جن کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی، وہ کوئٹہ یا بلوچستان کے پشتون علاقوں تک محدود تھیں

اگرچہ تحریک طالبان کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ مکران ڈویژن سے قبل رخشان ڈویژن میں نوشکی سے بھی ایک گروہ نے ان سے بیعت کی تھی، لیکن نوشکی یا اس سے متصل کسی اور علاقے سے ٹی ٹی پی کی جانب سے کسی واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی

تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے ”مکران میں مذہبی عسکریت پسندی کے حوالے سے کوئی معروف گروہ نہیں رہا تاہم کچھ ایسے لوگ ضرور تھے جو پرائیویٹ اسکولوں کے خلاف تھے۔ اس کے علاوہ مذہبی شدت پسندی کے حوالے سے ایرانی شہریت رکھنے والے بعض لوگ مکران آتے رہے ہیں، جن میں ملا عمر نامی ایک شخص بھی تھا، جو اپنے بیٹوں کے ساتھ کچھ عرصہ قبل ضلع کیچ میں مارا گیا“

عامر رانا کا کہنا ہے کہ پہلے مکران میں ایسی بڑی کوئی پیش رفت نہیں تھی

انہوں نے بتایا ”پنجگور میں کچھ گروہ تھے، جو طالبان کی حمایت کرتے تھے اور انہوں نے ان کے حق میں کچھ چیزیں کی بھی تھیں۔ طالبان کے ساتھ شامل ہونے والے وہی لوگ ہو سکتے ہیں“

ان کا کہنا تھا ”اس علاقے میں ایران میں کارروائی کرنے والی شدت پسند تنظیم جیش العدل کے لوگوں کے بارے میں امکان تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ جا سکتے ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک ایسا نہیں کیا اور وہ آزادانہ طور پر کارروائیاں کر رہے ہیں“

بلوچستان میں جتنی بھی کالعدم بلوچ شدت پسند تنظیمیں ہیں وہ سیکولر پس منظر رکھنے والی تنظیمیں ہیں، جو مکران کے مختلف علاقوں میں بعض مذہبی پس منظر رکھنے والے لوگوں کے خلاف کارروائیاں بھی کرتی رہی ہیں

اس تناظر میں ایک سوال پر عامر رانا کا کہنا تھا کہ مکران میں مسلح تنظیم بی ایل ایف) اور بی ایل اے بعض مذہبی پس منظر رکھنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کرتی رہی ہیں، جن کو یہ ڈیتھ اسکواڈ قرار دیتے رہے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ گروہ جس نے ٹی ٹی پی کے ساتھ اتحاد کیا ہے، وہ ڈیتھ اسکواڈ نہیں تو بلوچ عسکریت پسند اور ان کے درمیان تعاون کے امکانات ہو سکتے ہیں

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ایسا ہونے سے دنیا میں سیکولر اور مذہبی پس منظر رکھنے والے لوگوں کا یہ کوئی پہلا اتحاد نہیں ہوگا بلکہ اس سے قبل ایران اور دنیا کے دیگر حصوں میں نظریاتی اختلاف رکھنے والے گروہوں کے درمیان تعاون رہا ہے

وہ کہتے ہیں ’اگرچہ ان کے درمیان نظریاتی اختلاف ہے لیکن ان کے درمیان اتحاد کے مواقع بڑھ سکتے ہیں۔ ایک علاقے میں جب دو متحارب گروہ ہوں تو کبھی نہ کبھی ان کی آپریشن کوآرڈینیشن بڑھ جاتی ہے۔ اس کے امکانات ہیں اور اگر ایسا ہوا تو یہ خطرناک ہوگا۔‘

شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ اگر تحریک طالبان کا یہ دعویٰ درست ہے تو وہ یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ مکران جو کہ قوم پرستوں کا گڑھ ہے، وہاں بھی اس کا اثر ہے اور وہاں سے بھی لوگ اس میں شامل ہو رہے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ یہ گروہ کتنا مؤثر ہوگا، اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن اگر یہ منظم ہوا اور اس نے کوئی کارروائیاں کیں تو مکران پر اس کا اثر پڑے گا اور اس سے ان کا کام آسان ہو گا، جو پہلے سے وہاں اس نوعیت کی کارروائیاں کر رہے ہیں

وہ کہتے ہیں ’اگر واقعی یہ تربیت یافتہ لوگ ہیں اور اگر بلوچ مسلح تنظیموں اور ان کے درمیان کوئی تعاون ہوا تو وہ حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ صرف ایک گروہ ہے، جس کو طالبان نے میڈیا میں توجہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا ہے تاکہ حکومت کو پریشان کیا جاسکے تو اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا

مکران ڈویژن کی اہمیت کی بات کی جائے تو انتظامی لحاظ سے یہ بلوچستان کے تین اضلاع گوادر ،کیچ اور پنجگور پر مشتمل ہے۔ ان تینوں اضلاع کی طویل سرحد مغرب میں ایران سے لگتی ہے

مکران کا شمار بلوچستان کے ان علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں صرف مختلف بلوچ قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں

اس ڈویژن کا شمار بلوچستان کے ان علاقوں میں بھی ہوتا ہے جہاں تعلیم کی شرح بھی زیادہ ہے

اگرچہ مکران کے لوگوں کا تعلق بلوچستان کے مختلف قبائل سے ہے، لیکن وہاں قبائلی نظام اس طرح مضبوط نہیں، جس طرح قلات ڈویژن، سبی ڈویژن، نصیرآباد ڈویژن یا بلوچستان کے بعض دیگر علاقوں میں ہے

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک )کے اہم منصوبوں کا مرکز گوادر نہ صرف مکران ڈویژن کا حصہ ہے بلکہ گوادر پورٹ کو بلوچستان یا پاکستان کے دیگر علاقوں سے منسلک کرنے والے راستے بھی مکران کے مختلف علاقوں سے ہو کر گزرتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close