یہ بھارت کے لیے گذشتہ ہفتے ایک بڑی خبر تھی، جب ایپل نے آئی فون 14 بھارت میں تیار کروانے کے منصوبے کا اعلان کیا
ایپل کے اس اعلان کو اپنی مصنوعات کی مینوفیکچرنگ چین سے باہر منتقل کرنے کی حکمت عملی کے اہم سنگ میل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے
اس طرح بہت جلد، آئی فون 14 کی پروڈکشن کا پانچ فیصد حصہ اسی سال بھارت منتقل ہو جائے گا
انوسٹمنٹ بینک جے پی مورگن کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سنہ 2025ع تک ایک چوتھائی آئی فون بھارت میں تیار ہو رہے ہوں گے
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایپل کمپنی کے آئی فون 2017ع سے بھارتی ریاست تمل ناڈو میں بھی تیار ہو رہے ہیں
تاہم اپنے تازہ ترین ماڈل ’آئی فون 14‘ کو بھارت میں بنانے کا فیصلہ اس تناظر میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے، کہ جب چین اور امریکہ کے مابین تجارتی تناؤ ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے
اس فیصلے کی اہمیت ایک اور وجہ سے بھی بڑھ جاتی ہے، جس کے تحت عالمی رسد کی فراہمی سے منسلک خطرات کو چین کی زیرو کووڈ پالیسی کے باعث کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے
چین ’پلس ون‘
کورونا وبا سے پیچھا چھڑانے کے لیے چین کی سخت پالیسی کی وجہ سے انڈسٹری اور وسیع سپلائی چَین کو مشکلات کا سامنا رہا
ایسے میں عالمی کمپنیاں اب ’پلس ون‘ حکمت عملی اپنا رہی ہیں یا پھر صرف چین میں سرمایہ کاری سے گریز کر رہی ہیں تاکہ اپنی مصنوعات کی فراہمی کے سلسلے کو ازسر نو مرتب کر سکیں
لاجسٹک کمپنی ’ڈی ایچ ایل‘ کے سپلائی چین بزنس چیف ایگزیکٹیو آفیسر آسکر ڈی بک کا کہنا ہے ”کمپنیاں اب مذید چِین کی پالیسی میں تبدیلی کا انتظار نہیں کرنا چاہتیں اور نہ ہی اپنی ضروریات کے لیے کسی ایک ملک پر انحصار کرنا چاہتی ہیں. وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہیں کہ ان کے پاس دو یا تین متبادل ہوں“
یہی وہ صورتحال ہے، جو، آسکر ڈی بک کے مطابق بھارت، ویتنام اور میکسیکو جیسے ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی
حال ہی میں آسکر ڈی بک نے بھارت کے معاشی دارالحکومت ممبئی میں ڈی ایچ ایل کی جانب سے پانچ سو ملین یورو کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے
ان کا کہنا تھا ”یہ اعلان بھارت میں مینوفیکچرنگ اور الیکٹرانکس جیسے شعبوں میں بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کی وجہ سے کیا گیا، جہاں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت ملک میں مصنوعات تیار کرنے کی خواہشمند کمپنیوں کو بدلے میں معاشی فوائد دینے کا وعدہ کر رہے ہیں“
اس پروڈکشن لنکڈ انسنٹو (پی ایل آئی) اسکیم کے تحت ویڈینٹا ریسورسز نامی کمپنی نے تائیوان کی فوکس کون کمپنی کے اشتراک سے انڈیا میں سیمی کنڈکٹر پلانٹ لگانے کے لیے بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا منصوبہ بنایا ہے
ویڈینٹا ریسورسز کے چیئرمین انیل اگروال نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ دنیا چین ’پلس ون‘ کی حکمت عملی اپنانا چاہتی ہے اور اس سے ’بھارت فائدے میں رہے گا۔‘
بھارت ایشیا کی تیسری بڑی معیشت کے طور پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے خود کو مینوفکچرنگ اور برآمدی مرکز کے طور پر پیش کرنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔ یہاں کی مقامی منڈی کافی بڑی ہے اور نسبتاً کم خرچے پر کام کرنے والے بھی دستیاب ہیں
تاہم ماہرین کے مطابق آزادانہ تجارت کی کوششوں میں بھارت نے اگر ایک قدم آگے کی جانب بڑھایا ہے تو ساتھ ہی تین قدم پیچھے کی جانب بھی لیے ہیں۔ ایک جانب جہاں معاہدے کرنے میں تیزی دکھائی جا رہی ہے، وہیں خود انحصاری کے نعرے بھی بلند کیے جا رہے ہیں اور تین ہزار مصنوعات پر ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے جن میں سے اکثریت مینوفکچرنگ کے عمل کے لیے ناگزیر ہیں
کئی بیرونی سرمایہ کار کمپنیاں برابری کے مواقع کی کمی اور بڑھتی ہوئی تحفظ پسندی کی شکایات بھی کرتی ہیں، جبکہ چھوٹے اور درمیانے درجے کی کمپنیاں، جو بھارتی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہیں، مقامی بیوروکریسی کو اب بھی ایک بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں کاروبار کے لیے زمین اور لائسنس حاصل کرنے کا عمل اب بھی سست روی اور مشکلات کا شکار ہے
آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر مہر شرما کہتے ہیں ”ایپل واقعی ایک ایسی کہانی ہے، جسے کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے، تاہم بھارت کو مینوفکچرنگ کا مرکز بنانے کے لیے سرمایہ کاری کا ایک بڑا ٹکٹ کافی نہیں بلکہ اس کے لیے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو سازگار ماحول اور سہارا فراہم کرنے کی ضرورت ہے“
مہر شرما کے خیال میں ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیا یہ تمام بیرونی سرمایہ کاری اتنے درجے کی ہوگی یا نہیں اور آیا یہ پائیدار بھی ہوگی یا نہیں
شرما کہتے ہیں ”سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز، جو بھارت میں اکثریت کو روزگار فراہم کرتی ہیں، کو نریندر مودی انتظامیہ کی معاشی سکیم میں اب تک شامل نہیں کیا گیا۔ ٹیکسٹائل کے علاوہ اس اسکیم میں ان انڈسٹریز کو شامل نہیں کیا گیا جو پلس ون حکمت عملی کے تحت برآمدات بڑھانے اور ہر سال ایک کروڑ سے زیادہ ضرورت مندوں کو روزگار فراہم کرنے میں مدد کر سکتی ہیں“
واضح رہے کہ عالمی بینک کی کاروباری آسانی کی فہرست میں تھائی لینڈ، ویتنام اور جنوبی کوریا بھارت سے کئی درجے اوپر ہیں۔ ویتنام نے 2030ع تک ایک ایسی راہداری تیار کرنے کا منصوبہ بھی بنا رکھا ہے، جس سے بڑے پیمانے پر مینوفکچرنگ آسان ہو جائے گی
ہنرچ فاونڈیشن کے ریسرچ فیلو ایلکس کیپری کے مطابق ان تمام مشکلات کے باوجود بھارت اس ’تاریخی موقعے‘ کا فائدہ اٹھانے کے لیے ماضی کے مقابلے میں نسبتا بہتر مقام پر کھڑا ہے۔