برطانیہ کی قومی آرکائیوز کی دستاویزات کے مطابق 1980ع کی دہائی میں خون کے مرض ’ہیموفیلیا‘ کے شکار ڈیڑھ سو سے زیادہ برطانوی بچے ایچ آئی وی وائرس سے متاثر ہوئے تھے
متاثرہ خاندانوں میں سے چند خاندان عوامی انکوائری میں اس متعلق ثبوت دے رہے ہیں، جسے برطانیہ کے ادارہ صحت نیشنل ہیلتھ سروسز کی تاریخ میں ایک ’بدترین تباہی‘ قرار دیا گیا تھا
یہ آج سے لگ بھگ چھتیس سال پہلے کی بات ہے، جب 1986 میں اکتوبر کے اواخر میں لنڈا کو بتایا گیا کہ اُن کا بیٹا ایچ آئی وی وائرس سے متاثر ہو گیا ہے۔ یہ دن لنڈا کبھی نہیں بھولیں گی
لنڈا کو اپنے سولہ سالہ بیٹے مائیکل کے ساتھ برمنگھم کے چلڈرن ہسپتال میں ماہر ڈاکٹر کے کمرے میں بلایا گیا تھا
ان کے بیٹے کو بچپن میں خون کی بیماری ہیموفیلیا کی تشخیص کی گئی تھی، جو ایک جینیاتی مرض ہے اور خون کو مناسب طریقے سے جمنے سے روکتا ہے
لنڈا کا خیال تھا کہ ڈاکٹروں نے اس لیے ملاقات کے لیے بلایا ہے تاکہ ان کے بیٹے کو علاج اور دیکھ بھال کے لیے شہر کے مرکزی کوئین الزبتھ ہسپتال منتقل کیا جا سکے
وہ کہتی ہیں ”یہ عام بات تھی۔۔ اس لیے میرے شوہر (مائیکل کے سوتیلے والد) باہر گاڑی میں ہی بیٹھے رہے۔۔ پھر اچانک ڈاکٹر نے کہا مائیکل ایچ آئی وی وائرس متاثرہ ہے اور وہ اتنے نارمل انداز میں بات کر رہے تھے، جیسے کوئی عام سے بات ہو۔۔ جبکہ یہ سُن کر میرے پیٹ میں شدید درد اٹھا تھا“
لنڈا بتاتی ہیں ”ہم واپس گاڑی میں آئے اور میں نے اس بارے میں اپنے شوہر کو بتایا اور اس کے بعد ہم تمام راستہ بالکل خاموش تھے۔ ہم نے کوئی بات نہیں کی، ہم شدید صدمے میں تھے“
واضح رہے کہ یہ برطانیہ میں ایڈز کے بحران کے اوائل کا وقت تھا، کیونکہ کچھ ماہ پہلے ہی حکومت کی جانب سے اس مرض کی آگاہی کے لیے چلائی جانے والی ٹی وی مہم ’لاعلمی میں مت مریں‘ نے اس مرض کے متعلق گھر گھر آگاہی پہنچا دی تھی
لیکن اس بیماری کے متعلق معاشرے میں منفی رویہ بہت زیادہ پایا جاتا تھا۔ سنہ 1985ع میں ہیمپشائر کے ایک پرائمری اسکول میں ایک نو سالہ طالب علم، جو کہ ہیموفیلیا مرض کا شکار تھا، اس کے ایڈز اینٹی باڈیز کا ٹیسٹ مثبت آ جانے کے بعد درجنوں والدین نے وہاں سے اپنے بچے ہٹا لیے تھے
یہی وہ منفی معاشرتی رویہ تھا، جس کی وجہ سے مائیکل اس متعلق اپنے دوستوں اور خاندان کو نہیں بتانا چاہتا تھ
اس کی ماں لنڈا کہتی ہیں ”اس طرح اس نے اس مرض کا مقابلہ کیا اور اس کے بارے میں کسی کو نہیں بتایا۔۔ اس نے کبھی اپنے دوستوں یا کسی کو کچھ نہیں بتایا کیونکہ وہ عام زندگی جینا چاہتا تھا“
سنہ 1970ع سے 1991ع کے درمیان برطانیہ میں تقریباً ساڑھے بارہ سو افراد، جو خون کے مرض کا شکار تھے، فیکٹر ایٹ دوا لینے کے بعد ایچ آئی وی سے متاثر ہوئے تھے۔ یہ ایک نیا طریقہ علاج تھا، جس میں ان کے خون میں، خون جمانے والی پروٹین کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی تھی
ان میں یہ ایک سو پچھتر بچے بھی شامل تھے، جنہیں نیشنل ہیلتھ سروس کی جانب سے ہسپتالوں، اسکولوں اور ہیموفیلیا مرض کے علاج کے کلینکس پر یہ دوا دی گئی تھی
جبکہ دسیوں ہزاروں افراد یا تو اسی علاج کے ذریعے یا خون منتقلی کے دوران ہیپاٹائٹس سی کے مرض کا شکار ہوئے، جو جگر کی خرابی یا کینسر کا باعث بن سکتا ہے
اس سے قبل کہ ایچ آئی وی کے علاج میں زندگی بچانے والی دوا دستیاب ہوتی، جتنے افراد ایچ آئی وی وائرس سے متاثر ہوئے تھے، ان میں سے نصف اس بیماری کے باعث ہلاک ہو گئے
یہ وہ دور تھا ، جب برطانیہ خون کی بیماریوں کے لیے علاج اور ادویات میں خود کفیل نہیں تھا، اس لیے فیکٹر ایٹ نامی دوا (پروٹین) امریکہ سے منگوائی جاتی تھی
اس کی ہر کھیپ ہزاروں خون عطیہ کرنے والے افراد سے حاصل کردہ خون سے تیار کی جاتی۔ اگر ان میں سے ایک بھی خون عطیہ کرنے والا شخص ایچ آئی وی متاثرہ ہوتا تو یہ وائرس اس کھیپ میں تیار کردہ تمام دوا میں شامل ہو جاتا اور اسے استعمال کرنے والے تمام افراد کو متاثر کر سکتا تھا
امریکہ میں دوا ساز کمپنیاں خون عطیہ کرنے والے افراد کو معاوضہ ادا کرتی تھیں اور بعض اوقات ان میں جیل کے قیدی اور منشیات استعمال کرنے والے افراد بھی شامل ہوتے تھے
لنڈا کو یاد ہے کہ ایڈز کے بارے میں پہلی بار 1984ع میں برمنگھم چلڈرن ہسپتال میں ایک پریزنٹیشن میں بتایا گیا تھا اور بعض علامات پر توجہ دینے کی تنبیہ کی گئی تھی
لیکن وہ کہتی ہیں ”خاندان کو میرے بیٹے کی صحت سے متعلق خطرات سے کبھی بھی پوری طرح آگاہ نہیں کیا گیا تھا – ایک موقع پر، مجھے ایک نرس نے کہا تھا کہ میں فکر نہ کروں کیونکہ ‘مائیکل ٹھیک تھا’۔“
اس تمام عرصے کے دوران ان کے بیٹے کو مسلسل وہ ہی امریکی دوا دی گئی تھی
اپنی نوعمری کے اواخر میں، مائیکل کو رات کے وقت پسینہ آنے، گلا خراب ہونے سے بخار اور فلو جیسے صحت کے مسائل ہونے لگے تھے
لیکن اس نے زندگی کو بھرپور انداز میں گزارنا جاری رکھا، وہ سفر کے لیے جاتا، موسیقی سنتا اور ویسٹ برومویچ البیون فٹبال کلب کی حمایت کرتا تھا
لنڈا بتاتی ہیں ”اس دن ویمبلی میں اس ٹیم کا ایک بڑا میچ تھا، لیکن وہ نہایت زیادہ کمزور ہو چکا تھا۔۔ لہٰذا ہم نے اپنی کار کو پوری طرح سجایا اور وہ اس میں اپنے دوستوں سے ملا تھا، اسے اس سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ کیسا محسوس کر رہا تھا اگر وہ وہاں جا سکتا تھا تو وہ ضرور جائے گا“
بعدازاں اس کا قوت مدافعت کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور مزید کمزور ہونے لگا تھا۔ مائیکل کا وزن کم ہو گیا تھا اور اسے تھکاوٹ اور یادداشت کی کمی کا سامنا تھا
اسے برمنگھم کے ہارٹ لینڈز ہسپتال منتقل کر دیا گیا، جہاں لنڈا نے کیئر ہوم میں باورچی کے طور پر اپنی ملازمت چھوڑ کر اپنے بیٹے کی زندگی کے آخری چند مہینوں میں اس کی دیکھ بھال کی
لنڈا کہتی ہے ”اس نے مجھ سے کہا کہ ’آپ کبھی دادی نہیں بن سکیں گی’ اور میں نے اس سے کہا تم اس بارے میں پریشان نہ ہو۔ اس وقت مجھے یہی سمجھ آیا“
مائیکل کو گردن توڑ بخار اور نمونیا ہو گیا تھا، یہ دونوں بیماریاں اسے ایچ آئی وی وائرس کی وجہ سے ہوئی تھیں جس کا وہ بچپن میں شکار ہو گیا تھا
26 مئی 1996 کو وہ اپنی چھبیسویں سالگرہ سے ٹھیک ایک ہفتہ قبل جان کی بازی ہار گیا
تقریباً تین دہائیوں بعد، لنڈا اس طریقہ علاج سے ہونے والی تباہی کے بارے میں طویل عرصے سے جاری عوامی تحقیقات میں ثبوت فراہم کر رہی ہے۔ وہ ایسے والدین میں سے ایک ہیں، جن کے بچے 1970 اور 80 کی دہائی میں ایچ آئی وی وائرس سے متاثر ہوئے تھے
لنڈا کہتی ہیں ”مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے مجھے یہ کرنا ہے کیونکہ میں اس معاملے کی تہہ تک جانے میں مدد کرنا چاہتی ہوں۔ ہم سب جاننا چاہتے ہیں کہ ایسا کرنے کی اجازت کیوں دی گئی اور پھر مسلسل ایسا کرنے دیا گیا“