خلائی کچرا اور ’ٹریفک جام‘ : کیا خلا میں سٹیلائٹس کا ٹکراؤ ایک معمول بن جائے گا؟

ویب ڈیسک

اسپیس مشن اور سٹیلائٹ خلا میں بھیجنے میں تیزی آ رہی ہے، جس سے جہاں یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ خلا میں سٹیلائٹس کا ٹکراؤ ایک معمول بن سکتا ہے تو وہیں زمین کے گرد مدار میں خلائی کچرا بھی ایک سنگین صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق زمین کے مدار میں تقریباً بارہ ہزار ٹن ماس کے اجسام گردش میں ہیں

گزشتہ ماہ روس اور بھارت کے چاند مشنز عالمی خلائی خبروں میں چھائے رہے۔ روس کا چاند مشن ناکامی سے دوچار ہوا جبکہ بھارت چندریان تھری کی کامیاب لیڈنگ اور دو ہفتے کی تحقیق کے بعد پراگیان لینڈر کو سلیپنگ موڈ پر ڈال چکا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ دو ہفتے بعد جب چاند کے اس حصے پر سورج طلوع ہوگا تو لینڈر فعال ہو کر مزید دو ہفتے تحقیق کر سکے گا

چندریان تھری کی کامیابی کے بعد چند دن کے وقفے کے ساتھ بھارت نے کامیابی کے ساتھ اپنا سولر مشن ’ادیتیا‘ بھی لانچ کیا ہے۔ ان مشنز کے ساتھ بھارت ایک بڑی خلائی طاقت بن کر ابھرا ہے اور دنیا بھر میں پرائیویٹ اسپیس کمپنیوں سے متعلق بھارت کی پالیسی کو سراہا جا رہا ہے، جنہوں نے حالیہ دونوں مشنز کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے

لیکن عالمی خلائی دوڑ پر نظر رکھنے والے ماہرین شدید تشویش کا شکار بھی ہیں۔ یورپی اسپیس ایجنسی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق فی الوقت ایک ملین سے زائد اجسام زمین کے گرد مدار میں گردش کر رہے ہیں۔ جبکہ ملی میٹر سائز کے چھوٹے ٹکڑوں کی تعداد ایک سو تیس ملین ہے، جنہیں سائنسی اصطلاح میں خلائی کچرا یا ’اسپیس ڈیبریز‘ کہا جاتا ہے

ایک اور مستند اعداد و شمار کے مطابق زمین کے مدار میں تقریباً بارہ ہزار ٹن ماس کے اجسام گردش میں ہیں، جو آئفل ٹاور کے کل وزن سے بھی کہیں زیادہ ماس ہے۔ خلائی کچرے کی تعداد اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عالمی خلائی مرکز اور دیگر انسان بردار خلائی مشنز کو کسی ممکنہ ٹکراؤ سے بچنے کے لیے وقتاً فوقتاً اپنا مدار کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑتی ہیں

یاد رہے کہ خلا میں دو سٹیلائٹس کے درمیان ٹکراؤ کا پہلا واقعہ 2009ع میں پیش آیا تھا، جب امریکہ کا اریڈیم سٹیلائٹ روس کے کوسموس سٹیلائٹ سے حادثاتی طور پر ٹکرا گیا تھا، جس کے نتیجے میں دونوں سٹیلائٹ تباہ ہو گئے تھے۔ اس حادثے کے بعد ناسا نے اسپیس ڈیبریز کے دو بادل خلا میں ڈیٹیکٹ کیے تھے، جن میں چھوٹے بڑے سائز کی پانچ سو ڈیبریز شامل تھیں

اس کے بعد 2013ع کے اوائل میں روس کا ایک سٹیلائٹ چین کے سٹیلائٹ کے ٹکڑوں کے ساتھ ٹکرا کر تباہ ہوا۔ چین نے اپنے اس ناکارہ سٹیلائٹ کو چھ سال پہلے خلا میں راکٹ سے تباہ کیا تھا

واضح رہے کہ خلائی میں بڑھتے ہوئے خلائی کچرے سے پیدا شدہ سنگین صورتحال کا تصور نیا نہیں ہے۔ اسے سب سے پہلے 1978ء میں ’کولیشن فریکوئینسی آف آرٹیفیشل سٹیلائٹس اینڈ اسپیس ڈیبریز‘ کے نام سے ایک تحقیقی مقالے میں پیش کیا گیا تھا۔ اس تحقیق کے مصنف ڈونلڈ کیسلر اور بورٹن کور پالیس تھے

تحقیق کے مطابق خلا میں بھیجے جانے والے سٹیلائٹس کا ٹکراؤ ایک چَین ری ایکشن کی طرح ہے۔ یہ زمین کی فضا میں ہونے والے دو طیاروں کے ٹکراؤ جیسا نہیں ہے، جن کے ٹکڑے کشش ثقل کے باعث زمین پر آ گرتے ہیں، بلکہ اسپیس کرافٹس، راکٹ یا سٹیلائٹس کے تمام چھوٹے بڑے سائز کے ٹکڑے خلا میں مسلسل گردش میں ہیں۔ یہ ٹکڑے آپس میں ٹکرا کر مزید چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں یا پھر زمین کے ماحول کی حدت سے جل کر ختم ہو جاتے ہیں

اس تحقیق کے مطابق مستقبل میں خلائی دوڑ میں تیزی سے پیش رفت کے ساتھ ایک وقت ایسا بھی آئے گا، جب زمین کے گرد مدار خلائی کچرے سے مکمل طور پر ڈھک جائے گا اور سٹیلائٹس کا آپس میں ٹکراؤ ایک معمول بن جائے گا۔ ماہرین اس صورتحال کو ’کیسلر کیسکیڈ سنڈروم‘ کا نام دیتے ہیں

جان ایل کریسیڈیس، ایسی متعدد فیڈرل ایجنسیز کے ساتھ کام کرتے ہیں، جو خلائی کچرے کو مانیٹر کر رہی ہیں، وہ بتاتے ہیں ”زیادہ خلائی کچرا سٹیلائٹس اور راکٹس کا ہے، جنہیں خلائی مشن بھیجنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ سب سے زیادہ کچرا ناکارہ ہوجانے والے سٹیلائٹس کو زمین سے راکٹ فائر کر کے تباہ کر نے سے پھیلا ہے“

ان کے مطابق 2007ع میں جب چین نے اپنے ایک موسمی سٹیلائٹ کو راکٹ فائر کر کے تباہ کیا تو خلائی کچرے میں 25 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ کراسیڈ س مزید کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں اسپیس ایکس اور دیگر پرائیویٹ کمپنیوں کے سٹیلائٹس اور خلائی مشنز میں تیزی سے اضافے کے ساتھ ان اسپیس ڈیبریز کو مانیٹر کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے

کریسیڈیس کے مطابق یہ ڈیبریز تقریباً سترہ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کے گرد مدار میں مسلسل گردش میں ہیں

وہ کہتے ہیں ”سادہ انداز میں اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر دو کاریں ایک ہی سمت میں سترہ ہزار میل گی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ رہی ہوں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اگر یہ دو مخالف سمت سے کسی ’ٹی بون انٹرسیکشن‘ پر اسی رفتار کے ساتھ آپس میں ٹکرا جائیں تو یقیناً یہ ایک بد ترین حادثہ ہوگا“

زمین کے مدار کے گرد خلائی کچرے کی ایک دبیز تہہ بن جانے کی صورتحال پر ’گریویٹی‘ اور ’پلینٹس مانگا‘ نامی فلمیں بھی بنائی جا چکی ہیں، جن میں دکھایا گیا کہ خلا میں محفوظ سفر خلائی کچرے کے باعث ممکن نہیں رہا

جان ایل کریسیڈیس کہتے ہیں ”حالیہ چند برسوں میں دنیا بھر میں خلائی مشن میں تیزی آئی ہے۔ بھارت، یو اے ای، چین کے بعد آسٹریلیا نے بھی چاند پر مشن بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ اس بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ اگر خلائی کچرے کے سدباب کے لیے فوری کوششیں نہیں کی گئیں تو جلد ہی ’کیسلر کیسکیڈ سنڈروم‘ کا سامنا ہو سکتا ہے“

ماہرین کے مطابق یہ زمین پر گلوبل وارمنگ سے پیدا شدہ صورتحال کی طرح ہے، جس سے ہونے والی تبدیلیوں کو ریورس کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں ہوگا، لیکن احتیاطی تدابیر اور مدار کی صفائی صورتحال کی سنگینی کو کم ضرور کر سکتے ہیں

زمین کے گرد مدار کی صفائی کے لیے یورپی اسپیس ایجنسی 2026ع تک سوئس اسٹارٹ اپ کی مدد سے ’کلیئر اسپیس‘ کے نام سے ایک سٹیلائٹ بھیجنے کی پلاننگ کر رہی ہے۔ اس مشن کا مقصد بڑے سائز کی خطرناک ڈیبریز کو پکڑ کر انہیں زمین کے گرد مدار سے باہر نکالنا ہے۔ اگرچہ چھوٹے سائز کے ٹکڑے پھر بھی مسائل کا سبب بنے رہیں گے

دوسری جانب بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ جس طرح دنیا بھر میں خلائی مشن اور سٹیلائٹس بھیجنے میں تیزی آئی ہے، قوی امید ہے کہ 2026ع میں لانچ تک خلا میں اتنا زیادہ کچرا ہو کہ یہ سٹیلائٹ خود اس کی زد میں آ سکتا ہے۔ کئی ماہرین کے خیال میں زمین کے گرد مدار کی صفائی فوری طور پر شروع کی جانی چاہیے۔ ماہرین اس حوالے سے خلا میں سب سے زیادہ کچرا پھیلانے کے زمہ دار ممالک روس اور چین پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close