اور جب اسکاٹش قوم پرست طالب علم نے برطانوی تاریخ کی ’دلیرانہ چوری‘ کی واردات کی

ویب ڈیسک

برطانیہ کے ایک پولیس اہلکار نے جب ویسٹ منسٹر ایبی کے باہر موجود گاڑی میں بیٹھے ایک جوڑے کو گرمجوشی سے بغل گیر ہوتے ہوئے دیکھا تو ایک لمحے کے لیے بھی اس کے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا کہ وہ برطانوی تاریخ کی سب سے دلیرانہ ڈکیتی کی واردات کر رہے ہیں

گاڑی میں موجود شخص کا نام این ہیملٹن تھا، جن کی وفات حال ہی میں ستانوے برس کی عمر میں ہوئی ہے۔ سنہ 1950ع میں وہ گلاسگو یونیورسٹی کے پچیس سالہ طالب علم تھے، جو اسکاٹش قوم پرستی کا ایک دھماکے دار نمونہ پیش کرنے کے لیے پُرعزم تھے

پولیس اہلکار نے اُن کو اپنی ساتھی طالبہ ’کے میتھسن‘ کے ہمراہ کار میں سوار دیکھا تھا، جس کے بعد وہ ان سے یہ پوچھنے گئے کہ ’وہ کرسمس کی صبح سویرے ویسٹ منسٹر ایبی کے باہر گاڑی کیوں کھڑی کیے ہوئے ہیں؟‘

ایک دوسرے سے بغل گیر جوڑے نے وضاحت کی کہ وہ اسکاٹ لینڈ سے ابھی ابھی پہنچے ہیں اور اُن کو کسی ہوٹل میں کمرہ نہیں ملا۔ پولیس اہلکار نے ہمدردی دکھاتے ہوئے اُن سے گپ شپ کی اور پھر اُن کو اس مقام سے گاڑی ہٹانے کی ہدایت کی

اُن کی گاڑی کو دور جاتے دیکھنے والے پولیس اہلکار کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ گاڑی میں اسکاٹ لینڈ کی قدیم ترین علامت سمجھے جانے والے ’اسٹون آف ڈیسٹنی‘ (مقدر کا پتھر) کا ایک ٹوٹا ہوا ٹکڑا چھپا کر رکھا گیا تھا، جسے چھ صدیوں پہلے برطانوی بادشاہ ایڈورڈ اول نے قبضے میں لیا تھا

رات ہونے سے پہلے ہی این ہیملٹن اس پتھر کا ڈیڑھ سو کلو وزنی دوسرا ٹکڑا بھی چوری کر چکے تھے

یہ وہ پتھر تھا، جس کو برسوں تک اسکاٹ لینڈ میں بادشاہوں کی تاج پوشی میں استعمال کیا جاتا رہا، جب تک آزادی کی جنگوں کے دوران اسے لوٹ کر بادشاہ ایڈورڈ اول کے تخت میں نصب نہیں کر دیا گیا

اس واردات کے کئی سال بعد این ہیملٹن نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’مقدر کا پتھر اسکاٹ لینڈ کی علامت ہے۔‘

انہوں نے انٹرویو میں انہوں نے اس چوری کو علامتی عمل قرار دیتے ہوئے کہا تھا ”اسکاٹ لینڈ پر ان گنت برطانوی حملوں میں سے ایک کے دوران وہ ہماری قوم کی اس علامت کو چرا کر لے گئے۔۔ اس کو واپس لانا بھی ایک علامتی عمل تھا“

چنانچہ کرسمس کی چھٹیوں میں یونیورسٹی کے چار طلبا دو پرانی فورڈ گاڑیوں میں لندن روانہ ہوئے۔ گروپ کے دیگر دو اراکین گیون ورنن اور ایلن اسٹورٹ تھے

ان کا منصوبہ تھا کہ این ہیملٹن کو ایبی بند ہونے سے پہلے ہی کسی تاریک کونے میں چھپا دیا جائے، جو بعد میں اندر سے دروازہ کھول دے گا۔ تاہم رات کو چوکیدار نے اُن کو دیکھ لیا اور باہر جانے پر مجبور کیا۔ انہوں نے بہانہ بنایا کہ وہ غلطی سے اندر پھنس گئے تھے اور چوکیدار نے ان کا یہ بہانہ مان لیا

اگلی رات انہوں نے ایک بار پھر کوشش کی۔ صبح چار بجے انہوں نے ایک گاڑی قریب ہی کھڑی کر دی اور دوسری گاڑی ویسٹ منسٹر ایبی کے عقب میں باہر تک لے گئے

کے میتھسن گاڑی میں ہی رہیں اور باقی تینوں دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے گئے۔ کے میتھسن نے بعد میں کہا کہ ان کو یقین تھا کہ ’دروازہ توڑنے کی کوشش میں جو شور ہوا وہ لندن کی دوسری حد تک سنا گیا ہوگا۔‘ دروازہ کھولنے کے بعد انہوں نے تخت کے نیچے موجود پتھر ہٹانے کی کوشش شروع کر دی

انہوں نے پتھر نکال کر زمین پر رکھا اور این نے اسے گھسیٹنے کے لیے اپنا کوٹ اتارا۔ سب نے کوٹ کا ایک بازو تھاما اور این نے پتھر سے منسلک زنجیر کو پکڑ لیا۔ لیکن جیسے ہی انہوں نے اس زنجیر کو کھینچا، پتھر ٹوٹ گیا اور اس کے دو ٹکڑے ہو گئے

این کے مطابق: انہوں نے پہلے چھوٹا ٹکڑا اٹھایا، جس کا وزن چالیس کلو تھا، اور بھاگ پڑے۔ کے نے ان کو دروازے سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا

وہ بتاتی ہیں ’اس وقت میں ہیبت زدہ ہو گئی، جب میں نے ایک پولیس اہلکار کو دیکھا۔ مجھے احساس ہوا کہ اگر این نے پتھر کے ساتھ سڑک پار کی تو پولیس والا اسے دیکھ لے گا۔۔ میں گاڑی جتنا قریب کر سکتی تھی، میں نے کر دی اور این نے پچھلی سیٹ پر پتھر رکھ کر اوپر کوٹ ڈال دیا‘

پولیس اہلکار کے آنے کے بعد ان دونوں کو روانہ ہونا پڑا تو گیون اور ایلن کو لگا کہ ان کو پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ دوسرا حصہ اٹھائے بغیر ہی فرار ہو گئے۔ ان کو علم نہیں تھا کہ این اب ایبی واپس آ رہا تھا۔ دوسری گاڑی کی چابی این کے کوٹ کی جیب سے گر گئی تھی، اس لیے ان کو تاریک چرچ میں اسے ڈھونڈنے واپس جانا پڑا

یہ محض خوش قسمتی تھی کہ ان کا پیر چابی پر پڑ گیا، جو دروازے کے پاس ہی گری ہوئی تھی۔ لیکن اب پتھر کے بڑے ٹکڑے کو گاڑی کی ڈگی تک پہنچانے کے لیے این اکیلے رہ چکے تھے

جب تک وہ ایبی سے نکلے، صبح ہو چکی تھی۔ ان کو گیون اور ایلن تھوڑی ہی دور سڑک پر چلتے ہوئے نظر آ گئے

انہوں نے پتھر کا بڑا ٹکڑا کینٹ میں روچسٹر کے قریب کھلے میدان میں دفن کر دیا۔ کے نے چھوٹا ٹکڑا اپنی ایک دوست کے گھر رکھوا دیا، جہاں یہ برمنگھم کے ایک گیراج میں موجود رہا

جب اس چوری کا پتہ چلا تو بین الاقوامی سطح پر سنسنی پھیل گئی اور اسکاٹ لینڈ اور برطانیہ کے درمیان سرحد کو چار سو سال میں پہلی بار بند کر دیا گیا۔ میٹرو پولیٹن پولیس نے درست اندازہ لگایا کہ چوری شدہ پتھر اسکاٹ لینڈ لے جایا گیا ہے۔ اس لیے اسکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیش کار اسکاٹ لینڈ بھجوائے گئے

این ہیملٹن کے مطابق ان کا ارادہ تھا کہ وہ پتھر کو اس وقت تک دفن رہنے دیں گے، جب تک ابتدائی شور شرابہ تھم نہیں جاتا۔ تاہم ان کو یہ پریشانی لاحق ہو گئی کہ چھ سو سال سے ایک ہی جگہ پر پڑے پتھر پر سردی کے کیا اثرات ہوں گے۔م

نئے سال کی شام وہ ایلن اور دو دیگر ساتھیوں کے ساتھ پتھر کے بڑے ٹکڑے کو نکالنے کے لیے کینٹ کی جانب روانہ ہوئے۔ جب وہ روچسٹر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ اس مقام پر مسافر کیمپنگ کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ان مسافروں کو قائل کیا اور ان کی مدد سے پتھر اپنی گاڑی تک منتقل بھی کر دیا

آخر کار وہ اسکاٹ لینڈ پہنچے، جہاں اس پتھر کو اسکاٹش کووننٹ ایسوسی ایشن کے اراکین کے حوالے کیا گیا، جو اسکاٹ لینڈ کی علیحدہ پارلیمان کی تحریک چلا رہے تھے

این ہیملٹن اس سے پیچھا چھڑا کر خوش تھے، کیوں کہ ان پر شبہ کیا جانے لگا تھا۔ تفتیش کاروں نے پتہ چلا لیا تھا کہ ہیملٹن نے چوری سے قبل گلاسگو لائبریری سے ’مقدر کے پتھر‘ سے متعلق ہر کتاب نکلوائی تھی

تاہم پتھر کا اہم حصہ اب ایک فیکٹری میں پھٹوں کے نیچے چھپا دیا گیا تھا۔ بعد میں اسے اسٹرلنگ میں ایک دور دراز چرچ منتقل کر دیا گیا۔ برمنگھم سے پتھر کا دوسرا ٹکڑا واپس لا کر، دونوں کو ایک ماہر کی مدد سے جوڑ دیا گیا

چند ماہ بعد اسکاٹس کووننٹ ایسوسی ایشن نے فیصلہ کیا کہ اب پتھر لوٹانے کا وقت آ چکا ہے، کیونکہ اس ڈکیتی کا مقصد حاصل کر لیا گیا تھا اور وہ مقصد تھا: خود مختار حکومت کے مقصد کی تشہیر!

انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس پتھر کو اس چرچ کے کھنڈرات کے پاس رکھ دیا جائے گا، جہاں 1320 میں اسکاٹ لیڈ کی آزادی کا مشہور اعلان ہوا تھا

11 اپریل 1951ع کو یہ پتھر لندن واپس لے جا کر ویسٹ منسٹر ایبی میں رکھ دیا گیا۔ دو سال بعد 1953ع میں بادشاہ ایڈورڈ اول کے تخت اور اس کے نیچے موجود مقدر کے پتھر کی اہمیت کئی گنا بڑھ چکی تھی، جب ملکہ الزبتھ کی تاج پوشی کی رسم ٹی وی پر دکھائی جا رہی تھی

چالیس سال بعد 1996ع میں اس وقت کے وزیر اعظم جان میجر اور ملکہ الزبتھ دوم نے مشترکہ فیصلہ کیا کہ یہ پتھر اسکاٹ لینڈ کو واپس کر دیا جائے۔ اب یہ پتھر ایڈن برگ کیسل میں موجود ہے

آئندہ برسوں میں اسے پرتھ سٹی ہال میوزیم میں ایک نمائش کا حصہ بھی بننا ہے۔ یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ یہ پتھر بادشاہ چارلس سوم کی تاجپوشی کے لیے ایک بار پھر ویسٹ منسٹر میں لوٹے گا

این ہیملٹن نے بعد میں وکالت کا پیشہ اپنایا۔ کے میتھسن ویسٹ ہائی لینڈ واپس چلی گئیں۔ وہ مقامی پرائمری اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ ان کا انتقال 2013ع میں ہوا۔ گیون ورنن نے الیکٹرک انجینیئرنگ کی اور پھر 1960ع میں کینیڈا چلے گئے۔ ان کا انتقال مارچ 2004ع میں ہوا۔ ایلن اسٹورٹ نے گلاسگو میں کامیاب کاروبار کیا۔ ان کا انتقال اٹھاسی سال کی عمر میں 2019ع میں ہوا

ان طلبا کو اس چوری پر کبھی سزا نہیں ہوئی۔ حکومت کا کہنا تھا کہ کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ این ہیملٹن نے کہا تھا کہ ’ہوم سیکرٹری نے ہاؤس آف کامنز میں بیان دیا تھا کہ یہ معلوم تھا کہ یہ کس نے کیا لیکن ان بیہودہ چوروں کو سزا دینا عوامی مفاد میں نہیں ہے‘

انہوں نے کہا ”اس جملے سے میں پوری زندگی محظوظ ہوا۔ اپنے ملک کے لیے خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر کچھ کرنا، میرے خیال میں، فخر کی بات ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close