لاہور تھا، شدید گرمیاں تھیں، وقت دوپہر کا اور نہر کی سڑک تھی
گاڑی ان دنوں میرے پاس سوزوکی مارگلہ ہوتی تھی۔ ایک دم انجن گرم ہونے کی سوئی پہ نظر گئی تو اپنے دھوئیں اڑ گئے
وہ جتنا اوپر جا سکتی تھی، تقریباً پہنچی ہوئی تھی
جیل روڈ انڈر پاس کے آگے والا علاقہ تھا شاید۔ گاڑی سائیڈ پر روکی، میلا کپڑا اٹھایا، ریڈی ایٹر پہ رکھا اور بچنے کی کوشش کرتے ہوئے اسے کھولنے لگا
وہ جو پھٹ کے کھلا ہے، اس کی دہشت اور پریشر سے جو میں پیچھے جا کے گرا ہوں، اس کے بعد زندگی بھر کا ایک سبق مل گیا
یا تو گاڑی ٹھیک کرنا خود سیکھ لو، تب اسے ہاتھ لگاؤ، یا پھر صحرا میں بھی کھڑے ہو تو انگلیاں توڑنے کی بجائے مستری کا انتظار کرو
یہ بھی سیکھا کہ اس طرح کی اچانک خرابی اور پھر بربادی سے بچنے کے لیے کن چیزوں کو مستقل بنیاد پر چیک کرنا ضروری ہوتا ہے
پانی
گاڑی پرانی ہے تو روزانہ، ورنہ ہفتے میں ایک بار ریڈی ایٹر کا ڈھکن کھول کے گاڑی کا پانی یا کولنٹ ضرور چیک کریں
کم ہے تو پورا کر لیں۔ ویسے بغیر کسی وجہ کے گاڑی کا پانی کم ہوتا نہیں۔ مسلسل کم ہو رہا ہے تو گاڑی مستری کو چیک کروا لیں
بعض اوقات ریڈی ایٹر کا ڈھکن بدلنے سے کام چل جاتا ہے، ورنہ عموماً کوئی پائپ سخت ہو کے لیکج کا شکار ہوتا ہے
زنگ سے بھی کوئی پائپ یا پرزہ متاثر ہو سکتا ہے۔ اس کا بہترین حل پرزہ بدلوانا ہے
انجن آئل
جب تک آپ کو خود انجن آئل کے گریڈز کا نہیں پتہ، انجن آئل کسی اچھی دکان سے نہیں لے رہے، تب تک جتنا مرضی اچھا آئل ڈلوائیں اسے تین ہزار کلومیٹر کے بعد بدلوا لیا کریں
پانچ ہزار یا دس ہزار کلومیٹر پر تیل بدلنا اس وقت بہتر ہے، جب آپ گاڑی کی دیکھ بھال کمپنی سے کروا رہے ہوں اور کمپنی کوئی تیل ڈالے تو اس کے بارے میں خود آپ کو بتائے کہ یہ اتنے کلومیٹر چل جائے گا
ٹویوٹا موٹرز کے کار فٹنس ایکسپرٹ عمران انصاری کے مطابق: ’نئی گاڑی جو پچاس ہزار کلومیٹر سے کم چلی ہو، اس میں انجن آئل پانچ ہزار کلومیٹر پر بدلتے ہیں لیکن بعد میں گاڑی کا مائلیج زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ وقفہ چار ہزار اور پھر تین ہزار کلومیٹر پر آ جاتا ہے۔‘
ٹائر کی اسٹپنی
گاڑی میں جو ڈکی ہوتی ہے، کبھی اس پر پڑا ہوا میٹ ہٹائیں تو نیچے ایک پانچواں ٹائر بھی ہوتا ہے، اسے اسٹپنی کہتے ہیں
ہم لوگ اس کی شکل اس وقت دیکھتے ہیں، جب گاڑی بیچ سڑک پر اچانک لڑکھڑاتی ہے اور کونے میں اسے لگا کے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اگلا یا پچھلا ٹائر پنکچر ہو چکا ہے
اس وقت اکثر اسٹپنی میں بھی ہوا نہیں ہوتی۔ عام ٹائر کی طرح اسٹپنی کی عمر بھی تین سال سے زیادہ نہیں ہوتی
ان تین سالوں میں بھی اگر ایک مہینے بعد اس کی ہوا چیک کروا لیں تو ایمرجنسی کے دن کافی بچت ہو جائے گی، چاہے وہ دن تین سال میں ایک ہی مرتبہ کیوں نہ آئے
اگر ایوریج کی بات کریں تو ہر تیس دن میں گاڑی کے ٹائروں سے تقریباً دو پاؤنڈ ہوا کم ہوتی ہے
تین مہینے ہوا چیک نہ کروانے کا مطلب ہے کہ جس ٹائر کو تیس کا پریشر چاہیے، اسے آپ چوبیس پر چلا رہے ہیں
پیٹرول کا تو کباڑا ہوگا ہی، ٹائر بھی جلدی کھایا جائے گا
دونوں چیزوں سے بچنے کے لیے ہر پندرہ دن بعد گاڑی کا ٹائر پریشر پورا کروانے کی عادت ڈالیے
پچھلے ٹائر آگے اور اگلے پیچھے
یہ چیز ہم میں سے اکثر لوگ اگنور کرتے ہیں کہ اتنا لانجھا کون کرے، وقت کس کے پاس ہے؟
ماہرین کے مطابق ٹائروں کی پوزیشن بدلنے سے ایک تو ٹائر زیادہ عرصے تک چلتا ہے، دوسرے اس کی روڈ گرپ بہتر رہتی ہے اور تیسرے یہ کہ روڈ نوائز بھی کم رہتا ہے
اس کا ضمنی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اسی بہانے ٹائروں کی الائنمنٹ اور کیمرنگ بھی ہو جاتی ہے
ملتان کے ایک کار فٹنس ایکسپرٹ عمران انصاری کے مطابق ہر پانچ ہزار کلومیٹر بعد جب کہ مقامی ٹائروں کی دکانوں والے پانچ سے دس ہزار کلومیٹر بعد ٹائروں کی پوزیشن بدلوانا تجویز کرتے ہیں
گاڑی کے وائپر
جس دن اچانک بارش پڑ جائے تب ہمیں یاد آتا ہے کہ گاڑی کے وائپر بھی بدلوانے تھے
پاکستان میں یہ بہت بڑی سہولت ہے کہ کسی بھی عام جگہ پر اچانک وائپر ہاتھ میں لیے کوئی بھی بچہ نمودار ہو جاتا ہے اور کھڑے کھڑے انہیں بدل بھی دیتا ہے
ڈیلر شپ سے لگوائے گئے وائپر آٹھ سے بارہ مہینے بعد تبدیل کروائے جا سکتے ہیں اور سڑک کنارے اگر آپ نے کسی سے وائپر لگوائے ہیں تو بہتر ہے کہ چار پانچ مہینے بعد انہیں بدلوا لیں، چاہے بارش ایک بھی نہ ہوئی ہو
بارش کے علاوہ گرمی، سردی، دھوپ — یہ ساری چیزیں وائپر کے ربڑ کو ایکسپائر ہونے کی طرف لے جاتی ہیں
چیک انجن لائٹ
پرانی گاڑیوں میں پھر بھی چیک انجن کی بتی جل جائے تو اتنا مسئلہ نہیں ہوتا تھا، بعض اوقات وہ جل شل کے خود ہی بجھ بھی جاتی تھی، نئی گاڑیوں میں چیک انجن بتی کا مطلب سنجیدہ مسئلہ ہے
نئی گاڑیوں میں الیکٹرونک اور ڈجیٹل سسٹم بے تحاشا ہیں
چیک انجن کی لائٹ اچانک جل جانے کا مطلب یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں ایسی چھوٹی گڑبڑ موجود ہے، جو وقت کے ساتھ کسی بڑے نقصان میں تبدیل ہو سکتی ہے
کسی تصدیق شدہ کار ورکشاپ جائیں، مسئلے کو وقتی حل کروائیں ورنہ اچھے خاصے نقصان کے لیے تیار رہیں
ایئر فلٹر
عام طور پہ جب ہم لوگ گاڑی کا تیل بدلوانے جاتے ہیں تو ساتھ ہی ایئر فلٹر بھی تبدیل کرواتے ہیں
کوئی بھی سرٹیفائیڈ کار ورکشاپ آپ کو ہر دس ہزار کلومیٹر بعد ایئر فلٹر تبدیل کرنے کا مشورہ دیتی ہے
اس تجویز کے ساتھ لیکن شرط یہ بھی ہوتی ہے کہ ہر دوسرے تیسرے دن ایئر فلٹر نکال کے جھاڑ لیا جائے اور لمبے سفر سے واپسی پہ بالخصوص اسے نکال کر پریشر والی ہوا سے صاف کروا لیا جائے
کون ہے جو دوسرے تیسرے دن ایئر فلٹر صاف کرتا ہے؟ اپنا مشورہ یہی ہے کہ سکون سے ہر آئل چینج پہ فلٹر تبدیل کروا لیں
یہ گاڑی کا پھیپھڑا ہوتا ہے اور اس کا ڈائریکٹ تعلق گاڑی کی فیول ایوریج سے بھی ہے
ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ کسی بھی عام دکان سے فلٹر بدلوا رہے ہیں تو اس کے ایک نمبر یا دو نمبر یا تین نمبر ہونے کے بارے میں آپ کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے
بہتر یہی ہے کہ دس ہزار کا رسک مت لیں اور تین ہزار کلومیٹر پہ تیل کے ساتھ ایئر فلٹر بھی بدلوا لیں
کار پلگ
بین الاقوامی طور پہ تیس سے نوے ہزار کلومیٹر تک کا عرصہ گاڑی کے پلگ بدلوانے کے لیے تجویز کیا جاتا ہے لیکن پاکستان کے موسمی حالات اور پرزوں کی صحت دیکھتے ہوئے انہیں آپ ہر دس سے بیس ہزار کلومیٹر کے درمیان تبدیل کرنے پہ غور کیجیے
پلگ بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ان میں سے اریڈیم زیادہ مہنگے ہیں لیکن چلتے بھی زیادہ ہیں۔ دوسرے نارمل ہیں، جو جلد ختم ہو جاتے ہیں
بیٹری کا پانی
جب انجن آئل بدلوانے جائیں تو بیٹری کا پانی لازمی چیک کروا لیجیے۔ اس کا بھی عام طور پہ ہم لوگوں کو اس وقت پتہ چلتا ہے جب گاڑی اسٹارٹ نہیں ہو رہی ہوتی
باقی آج کل ڈرائے بیٹری کا زمانہ ہے۔ وہ ڈلوائیں اور دو سال بے غم گزاریں
گئیر آئل، بریک آئل
انجن آئل کے علاوہ بھی گاڑی میں کچھ چیزیں تیل پر چل رہی ہوتی ہیں، جن میں سرفہرست گاڑی کا ٹرانسمیشن اور بریک سسٹم ہے
ان دو تین چھوٹی بوتلوں کو ہم لوگ اگنور کر جاتے ہیں۔ اگر یہ آئل ختم ہو جائیں تو ہونے والا نقصان خدانخواستہ کافی بڑا ہو سکتا ہے
انجن آئل تبدیلی کے وقت ان پر بھی ایک نظر ڈالنا ضروری ہے
نوٹ: یہ تمام معلومات پاکستان میں چلنے والی عام گاڑیوں کے حساب سے دی گئی ہیں۔ ہر گاڑی اونر مینوئل کے ساتھ آتی ہے۔ حتمی معلومات کے لیے اس مینوئل سے رجوع کیجیے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو