ایران: سرکاری چینل خبروں کی نشریات کے دوران ہیک، یونیورسٹی آمد پر ایرانی صدر کے خلاف ’چلے جاؤ‘ کے نعرے

ویب ڈیسک

ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے کو ہفتے کے روز ہیک کر لیا گیا اور براہِ راست نیوز بلیٹن روک کر رہبر اعلیٰ کے خلاف پیغامات نشر کیے گئے

اسکرین پر ایک ماسک دکھایا گیا اور اس کے بعد رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کی تصویر کے گرد آگ کے شعلے نظر آئے

ہیکرز کے اس گروہ نے اپنا تعارف ’عدالتِ علی‘ کے نام سے کرایا

ادہر ایران میں مہسا امینی کی موت کے بعد احتجاجی مظاہروں کی ایک نئی لہر میں سکیورٹی فورسز سے جھڑپوں میں کم از کم تین مظاہرین ہلاک ہوئے ہیں

واضح کہ مہسا امینی کو تہران کی ’اخلاقی پولیس‘ کی حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، بائیس سالہ ایرانی کرد خاتون کو حراست میں لیے جانے کے تین روز بعد 16 ستمبر کو ان کی وفات ہوئی۔ جس کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کو سلسلہ شروع ہوا، جو تاحال جاری ہے

ہفتے کو ٹی وی بلیٹن مقامی وقت کے مطابق قریب چھ بجے ہیک ہوا۔ اس دوران ایرانی رہبر اعلیٰ کی تصویر کے ساتھ ان کے چہرے پر بندوق کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ مہسا امینی اور تین دیگر خواتین کی تصاویر دکھائی گئیں، جو حالیہ مظاہروں میں ہلاک ہوئی ہیں

ایک موقع پر لکھا تھا کہ ’آپ ہمارے ساتھ اس میں شامل ہوں اور آواز اٹھائیں‘ جبکہ ایک دوسرے پیغام میں لکھا تھا کہ ’ہمارے نوجوانوں کا خون آپ کے ہاتھوں سہ بہہ رہا ہے۔‘

آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف اس نوعیت کی بغاوت تاریخی اعتبار سے کم ہی دیکھی گئی ہے۔ وہ ایران کے طاقتور حکمران ہیں مگر مہسا امینی کی موت کے بعد لوگ کھلے عام ان کی مخالفت میں سامنے آئے ہیں

ہفتے کو سوشل میڈیا پر ایسی وڈیوز بھی سامنے آئیں جن میں تہران کی ایک یونیورسٹی کی طالبات صدر ابراہیم رئیسی کے دورے کے دوران ’چلے جاؤ‘ کے نعرے لگا رہی ہیں

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صدر ابراہیم رئیسی نے تہران میں الزہرا یونیورسٹی کے کیمپس کے دورے کے موقع پر مہسا امینی کی ہلاکت پر احتجاج کی مذمت کی تھی، جس پر طالبات نے نعرے لگانا شروع کر دیے۔
ایرانی صدر نے اساتذہ اور طلبہ سے خطاب میں ایک نظم بھی پڑھی، جس میں ’فسادیوں‘ کو مکھیوں سے تشبیہہ دی گئی تھی

چوتھے ہفتے میں داخل
سماجی حقوق کی ویب سائٹ ’1500تصویر‘ کی جانب سے ٹوئٹر پر پوسٹ کی جانے والی وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبات ’رئیسی چلے جاؤ‘ اور ’ملا چلے جاؤ‘ کے نعرے لگا رہی ہیں

انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ مظاہروں کا آغاز 17 ستمبر کو ہوا اور اس کے بعد سے 150 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں

جبکہ دارالحکومت سمیت ملک کے مختلف حصوں میں جاری احتجاج کے حوالے سے ایک سماجی گروپ کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں اب تک 185 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، سینکڑوں زخمی ہوئے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں گرفتار کیے گئے ہیں

انسانی حقوق کی تنظیم ھہ نگاؤ کا کہنا ہے کہ ہفتے کو سنندج اور سقز میں احتجاج کے موقع پر سکیورٹی اہلکاروں نے ایک شخص کو گولی ماری جبکہ آنسو گیس کا استعمال کیا گیا

سنندج کردستان صوبے کا دارالحکومت ہے۔ وہاں ایک گاڑی میں بیٹھے ایک شخص کو سکیورٹی اہلکاروں نے اس وقت گولی مار دی، جب اس نے احتجاج کے طور پر ہارن بجایا تھا۔
اسی طرح سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ایک نوجوان عورت زمین پر بے ہوش پڑی ہے اور لوگ اس کی مدد کے لیے اردگرد جمع ہیں۔ اس کے بارے میں خیال ہے یہ مشہد شہر ہے اور خاتون کو گولی ماری گئی ہے

ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق سنندج میں ایک پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ انقلابیوں کے خلاف ایک گروہ نے ایک مرد کو ہلاک کر دیا ہے

ھہ نگاؤ نے ایک اور ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں ایک زخمی شخص دوسرے کی مدد کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے ایک احتجاج کرنے والے کے پیٹ میں گولی ماری ہے، جس سے وہ ہلاک ہو ہو گیا ہے

اسی طرح کئی دیگر ٹوئٹر اکاؤنٹس کی جانب سے بھی شمال مغربی کردش شہروں میں فائرنگ کے واقعات کی اطلاع دی گئی ہے

احتجاج میں شامل ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ وہ موت یا گرفتاری سے قطعاً خوفزدہ نہیں۔
’وہ ہمیں مار سکتے ہیں، گرفتار کر سکتے ہیں مگر اب ہم مزید خاموش نہیں رہیں گے۔ ہمارے ہم جماعت جیل میں ہیں۔ ہم کیسے چُپ رہ سکتے ہیں۔‘

کریک ڈاؤن کی تصاویر کو پھیلنے اور اکٹھا ہونے کی منصوبہ بندی روکنے کے لیے انٹرنیٹ پر پابندی کے باوجود احتجاج کرنے والے نئے طریقے استعمال کرتے ہوئے اپنے پیغامات ایک دوسرے تک پہنچا رہے ہیں

تہران کی مدرس ہائی وے پر لگے بینر پر لکھا گیا ہے ’ہم مزید ڈرنے والے نہیں، ہم لڑیں گے۔‘

متعدد شہروں میں مظاہرین کے حق میں دکانیں بند ہیں۔ تہران کے بازاروں میں مظاہرین نے پولیس کی چیک پوسٹوں پر آگ لگائی اور سکیورٹی اہلکاروں کو وہاں سے بھگا دیا

تہران کے بازار پہنچنے والے مظاہرین ایرانی رہنماؤں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں کیونکہ انھیں تاجروں کی بھی حمایت حاصل ہوئی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close