ایرانی حکومت کا احتجاج پر کریک ڈاؤن: طلبہ اور ورکرز کی مزاحمت

ویب ڈیسک

ایرانی پولیس کی حراست میں مہسا امینی نامی بائیس سالہ لڑکی کی موت سے پیدا ہونے والی بدامنی پر قابو پانے کی کوششیں بڑھاتے ہوئے ایرانی سیکیورٹی فورسز نے کئی کرد شہروں میں حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا ہے، جو کہ سوشل میڈیا پوسٹس اور وڈیوز سے بھی ظاہر ہے

ایران میں طلبہ اور انڈسٹری ورکرز نے حکومتی کریک ڈاؤن، جس میں درجنوں ہلاک اور سینکڑوں گرفتار ہوئے ہیں، کے باوجود مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف گزشتہ روز بھی احتجاج جاری رکھتے ہوئے دھرنے دیے

سوشل میڈیا پر جاری وڈیوز کے مطابق گذشتہ چند دنوں میں دارالحکومت تہران کے مختلف علاقوں میں احتجاج دیکھنے میں آئے، جن میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل تھی، جنہوں نے حکومت کے خلاف نعرے بازی کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا

کردوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم ’ہینگا‘ نے حکام پر الزام لگایا ہے کہ انتظامیہ نے شمال مغربی شہر سننداج میں احتجاج کو روکنے کے لیے بھاری اسلحے (’شیلنگ‘ اور ’مشین گن سے فائر‘) کا استعمال کیا ہے

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان کے دعووں کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکیں کیونکہ ملک بھر انٹرنیٹ کی سروس متاثر ہے

ہینگا کے مطابق مہسا امینی کے آبائی شہر سقیز میں بھی فائرنگ سنائی دی گئی ہے

ایران میں احتجاج کی لہر کا آغاز تین ہفتے پہلے ہوا، جب بائیس سالہ کرد لڑکی مہسا امینی کی زیر حراست ہلاکت ہوئی۔ مہسا امینی کو ایران کی ’اخلاقی پولیس‘ نے گرفتار کیا تھا جو کہ خواتین کے لباس بشمول ضروری اسکارف پر نظر رکھتی ہے

مہسا امینی کی 16 ستمبر کو ہوئی موت کے بعد سے ایران بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، جو 1979 کے انقلاب کے بعد سے اس کے لیے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے

ناروے کے شہر اوسلو میں موجود غیر سرکاری گروپ ’ایران ہیومن رائٹس‘ نے شمالی علاقے مہد آباد کی شمالی گیلان یونیورسٹی اور لڑکیوں کے ہائی اسکول کی تصاویر جاری کیں، جن میں لڑکیاں احتجاجاً اپنا سکارف اتارے دھرنا دیے بیٹھی ہیں

اس گروپ نے وڈیو بھی جاری کی ہے، جس میں تہران پولی ٹیکنک کے باہر بڑی تعداد میں طلبہ موجود دکھائی دیتے ہیں جو کہ ایران میں ’غربت اور کرپشن‘ اور ’ظلم‘ کے خلاف نعرہ بازی کرتے دکھائی دے رہے ہیں

فٹبالر علی دائی کا پاسپورٹ ضبط

دریں اثنا ایرانی حکام نے مہسا امینی کی موت پر مظاہروں کی حمایت کرنے پر ایران کے فٹبال اسٹار علی دائی کا پاسپورٹ ضبط کرنے کے بعد انہیں واپس کر دیا، جس کی تصدیق ملک کے فٹبال لیجنڈ نے پیر کے روز کی

علی دائی نے مظاہروں کے آغاز کے بعد میڈیا سے اپنے پہلے تبصرے میں کہا ”بیرون ملک سے واپسی پر، میرا پاسپورٹ تہران کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر میرے اہل خانہ اور دیگر لوگوں کی موجودگی میں پولیس نے ضبط کر لیا“

واضح رہے کہ 27 ستمبر کو علی دائی، جسے شہریار کا نام دیا جاتا ہے، نے حکام پر زور دیا تھا کہ ”تشدد اور گرفتاریوں کا سہارا لینے کے بجائے ایرانی عوام کے مسائل حل کریں“

علی دائی فٹبال کی تاریخ میں مردوں کے بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ گول کرنے والے کھلاڑی تھے۔ ستمبر 2021 میں یہ اعزاز پرتگالی کرسٹیانو رونالڈو نے حاصل کر لیا تھا۔ وہ پہلے ایرانی کھلاڑی بھی ہیں جو بائرن میونخ اور پھر ہرتھا برلن میں شامل ہونے سے پہلے جرمن کلب آرمینیا بیلفیلڈ کے ساتھ یورپ میں کھیل چکے ہیں

ٹویٹر میں ہرتھا نے اتوار کے روز افسوس کا اظہار کیا کہ ان کے سابقہ باون سالہ اسٹار ​​​​کھلاڑی، ملک چھوڑنے کی مجاز نہیں ہے، صرف اس لیے کہ انہوں نے خواتین کے حقوق کے حق میں بات کی“

علی دائی کے بھائی محمد نے اتوار کو ایرانی اسپورٹس پورٹل ورزش3 کو بتایا ”علی نے اپنی پوری زندگی ایران کا پرچم بلند کرنے کے لیے وقف کر دی، وہ ملک اور اپنے لوگوں سے محبت کرتے ہیں اور ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ علی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بدقسمتی ہے“

مختلف ایرانی کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ اداکاروں اور فلم سازوں نے احتجاجی تحریک کی حمایت کرتے ہوئے حکام سے کہا کہ وہ مظاہرین کے مطالبات سنیں

مہسا امینی کے خاندان کو دھمکیاں

مہسا امینی کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں اور انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ وہ مظاہروں میں شامل نہ ہوں

عراق کے کردستان کے علاقے میں ان کے کزن عرفان مرتزئی نے کہا کہ ‘ہمارے خاندان پر ایرانی کے حکام کی جانب سے بہت زیادہ دباؤ ہے، اس لیے ہم ایران سے باہر انسانی حقوق کی تنظیموں یا چینلز سے بات نہیں کرتے اور نہ ہی بیرونی دنیا میں کسی کو ان کے انتقال کے بارے میں مطلع کرتے ہیں’

انہوں نے کہا کہ ان کے خاندان کے افراد کو ملنے والی دھمکیوں نے ان کی حفاظت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے ‘وہ ایران کے تشدد کی زد میں ہیں’

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کے عہدیداروں نے ہمیں انسٹاگرام کے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے دھمکیاں دیں اور ایران میں اہل خانہ سے کہا ہے کہ اگر وہ احتجاج میں شامل ہوئے تو انہیں قتل کیا جا سکتا ہے،خود مجھے فون پر بہت سی دھمکیاں مل رہی ہیں کہ اگر وہ مجھے شہر میں دیکھیں گے تو اغوا کر کے قتل کر دیں گے’

ورکرز کی ہڑتال

ایسے میں کہ جب میں یونیورسٹی کے طلبا نے درجنوں یونیورسٹیوں کی ہڑتال کے ساتھ احتجاج میں اہم کردار ادا کیا، سوشل میڈیا پر رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ آبادان اور کنگن آئل ریفائنریوں اور بوشہر پیٹرو کیمیکل پروجیکٹ کے کارکنان نے بھی اس میں شرکت کی

اس ضمن میں تیل کی وزارت کے ترجمان نے رائٹرز کی فون کال کا فوری طور پر جواب نہیں دیا

تیل کے شعبے میں کام کرنے والوں اور بازار کے تاجروں کے بڑے پیمانے پر مظاہروں اور ہڑتالوں نے چار دہائیاں قبل ایرانی انقلاب میں مذہبی علما کو اقتدار تک پہنچانے میں مدد کی تھی

اس طرح ایک مرتبہ پھر مزدور اور ورکرز کے احتجاج بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ ایران سے باہر مقیم ایرانی میڈیا کی جانب سے جاری وڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فیکٹری ورکرز جنوب مغربی علاقے کے پیٹروکیمیکل پلانٹ کے باہر ٹائر جلا رہے ہیں اور اسی طرح اور ریفائنریز میں بھی ہڑتالوں کی اطلاعات ہیں

تجزیہ کاروں کے مطابق احتجاجوں کی مختلف نوعیت، جن میں گلیوں میں احتجاج سے لے کر طلبہ اور اب ورکرز کی ہڑتالوں سے مزاحمت کے انفرادی اعمال نظر آتے ہیں اور ان کی وجہ سے حکومت کے لیے ان احتجاجوں کو ختم کرنا مشکل ہوتا دکھائی دے رہا ہے

نومبر 2019 میں توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر ایران کے 83 سالہ رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کے خلاف احتجاج شروع ہوئے تھے، جن پر حکومت کڑا کریک ڈاؤن کیا تھا مگر موجودہ احتجاج ایرانی حکام کے لیے اس سے بڑا چیلنج دکھائی دیتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close