صوبہ پنجاب کے شہر شیخوپورہ کے علاقے میں چند روز قبل ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے ہر حساس دل کو تڑپا کر رکھ دیا اور ہر ذی شعور ذہن سوچنے پر مجبور ہو گیا۔۔ ایک ہی رات میں ایک شخص کے ہاتھوں آٹھ افراد کا کلہاڑے سے لرزہ خیز قتل۔۔۔ یہ واقعہ سچ میں پریشان کر دینے والا تھا
مُریدکے نارووال روڈ پر کوٹ عبداللہ نام کا ایک گاؤں واقع ہے۔ اس روڈ پر یہ گاؤں مریدکے اور نارووال سے تقریباً ایک ہی جتنے فاصلے پر ہے، اور دونوں شہروں سے اس کا فاصلہ لگ بھگ چالیس کلومیٹر کا ہے۔ اس کی آبادی سڑک کے دونوں اطرف 20 اور 80 فیصد کے تناسب سے منقسم ہے
جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب نو سے دس بجے کے درمیان لاہور کے علاقے شاہدرہ سے آنے والا ایک نوجوان بیگ کندھے سے لٹکائے اسی گاؤں کوٹ عبداللہ کے بس اسٹاپ پر اُترا اور گھر کی طرف روانہ ہوا
کچھ ہی دیر بعد جب وہ گھر سے نکلا تو اس نے کلہاڑی اور لوہے کی راڈ اپنے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی تھی
گلی میں جب اس پر گاؤں کے کچھ لوگوں کی نظر پڑی تو وہ سب گھبرا گئے اور انہوں نے فون پر ایک دوسرے کو اطلاع دینی شروع کر دی۔ کچھ لوگ اس نوجوان کے پیچھے لپک پڑے۔ اور اس نوجوان نے ان سے بچنے کے لیے گلیوں میں بھاگنا شروع کر دیا
اسی اثنا میں بجلی چلی گئی اور گاؤن میں ہر طرف اندھیرا پھیل گیا۔ گاؤں کی گلیاں شور اور خوف سے بھر گئیں۔ نوجوان اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر کہیں غائب ہونے میں کامیاب ہو گیا اور اُس کا تعاقب کرنے والے اپنے اپنے گھروں کو لوٹنا شروع ہو گئے۔۔ البتہ تمام لوگ ایک دوسرے کو محتاط رہنے کی تلقین کر رہے تھے
اس نوجوان نے اندھیرے میں چھپ کر لوگوں سے بچ کر اپنے پُرانے گاؤں کوٹ راجپوتاں کا رُخ کیا۔ راستے میں ایک نالہ ڈیک کی پُلی کو عبور کیا۔۔
یہیں سے وہ سیاہ رات خون کے رنگ میں رنگنا شروع ہوئی۔ اس نے کچھ ہی فاصلے پر کھیتوں میں سوئے ہوئے چچا بھتیجے پر وار کر کے ایک لمحے میں دونوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا
اس کے بعد نوجوان نے مقتولین کی جیبوں کو ٹٹولنا شروع کر دیا اور اسے جو کچھ ہاتھ لگا، اسے لے کر وہ آگے بڑھ گیا
اس نے جن کو قتل کیا تھا، ان کے پاس رائفل بھی تھی لیکن اُس کے حفاظتی استعمال کا اُنکیں موقع ہی نہ مل سکا۔ یہاں سے اس نے جائے وقوعہ سے محض آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں ہچڑ کا رخ کیا
لگ بھگ آٹھ سو گھروں اور ساڑھے تین ہزار سے چار ہزار نفوس پر مشتمل آبادی کے اس گاؤں میں جب وہ داخل ہوا تو تقریباً رات کے ساڑھے 12 بج رہے تھے۔ گاؤں مکمل طور پر خاموشی کی چادر میں ڈوبا ہوا تھا۔ گاؤں کے لوگوں کی بدقسمتی کہ کتے تک خاموش اور سوئے ہوئے تھے
یہاں نوجوان سوئے ہوئے چار لوگوں پر باری باری حملہ آور ہوا۔ چچا بھتیجا ایک حویلی میں سوئے ہوئے تھے، پہلے اُن پر دھاوا بولا۔ بعدازاں ساتھ ہی ایک شخص اور تھوڑے ہی فاصلے پر کھلے میں سوئے بیس سے بائیس سالہ نوجوان جو چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اور کچھ دِنوں میں اُس کے ہاتھوں میں مہندی سجنے والی تھی، کو موت کے گھاٹ اُتارا اور گاؤں سے نکل کر آگے پیٹرول پمپ پر جا پہنچا
گاؤں کا پٹرول پمپ بالکل ہی تنہا اور رش سے عاری تھا۔ یہاں بھی اس نے ایک نوجوان کو قتل کیا اور اس کی جیب سے چابیاں نکال کر الماری سے دِن بھر کا جمع شدہ کیش نکال کر واپس کوٹ عبداللہ کے پاس پہنچا
روڈ پر ایک اور پٹرول پمپ پر آ کر اس نے ٹائر شاپ پر سوئے نوجوان پر وار کیا۔ اُس وقت رات کے ڈھائی بج رہے تھے
اسی اثنا میں لاہور سے ڈیوٹی دے کر آنے والا ایک پولیس کا سپاہی ظفر اقبال اسٹاپ پر اُترا، اس نے پٹرول پمپ سے مختصر فاصلے پر ایک کریانہ اسٹور پر کھڑی موٹر سائیکل اُٹھائی اور اپنے گھر جانے سے پہلے پٹرول پمپ پر تیل ڈلوانے آیا تو اس کا سامنا بھی اس نوجوان سے ہو گیا
تمام صورتحال سے بے خبر ظفر اقبال نے اسے موٹر سائیکل میں پیٹرول ڈالنے کہا تو اس نے جواب دیا ’پیٹرول ختم ہو گیا ہے۔
اسی دوران جب ظفر اقبال نے اُس نوجوان کو غور سے دیکھا تو وہ پسینے میں ڈوبا ہوا تھا اور اس کے ہاتھ میں لوہے کی راڈ تھی
اس سے پہلے کہ ظفر کچھ سوچتا ، نوجوان نے اُس پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی لیکن اس نے موٹر سائیکل بھگا کر تھوڑے فاصلے پر پہنچ کر اُس کو للکارا اور اپنی پستول نکال کر نوجوان پر تان لی۔۔ مگر نوجوان پٹرول پمپ پر کھڑی ایک موٹر سائیکل کو اسٹارٹ کر کے بھاگ نکلا
تبھی ظفر اقبال نے ون فائیو پر کال کی۔ اس دوران اور لوگ بھی جمع ہو گئے اور اس نوجوان کا تعاقب شروع کر دیا۔ نوجوان کچھ ہی فاصلے پر ایک مدرسے میں گھس گیا۔ ظفر جب اپنی موٹر سائیکل پر یہاں پہنچا تو اس نے نوجوان کو قابو کرنے کی کوشش کی۔۔ یوں باقی لوگوں کی مدد سے وہ اسے قابو کرنے کامیاب ہو گیا، اتنی دیر میں پولیس بھی پہنچ گئی
یہ نوجوان آخر تھا کون؟
کوٹ عبداللہ کا یہ نوجوان فیض رسول بھٹی ہے اور اس کے والد کا نام اعجاز احمد عرف ججی تھا، جو چند ماہ قبل وفات پا چکے ہیں۔ فیض رسول کی چار بہنیں اور ایک بھائی ہے۔ اس کی بوڑھی ماں ایک نجی اسکول میں اور چند ایک گھروں میں کام کاج کرتی ہیں
فیض رسول بھٹی بی ایس سی تک تعلیم حاصل کر چکا ہے۔ اس نے میٹرک میں گاؤں کے اسکول میں پہلی پوزیشن لی تھی اور ایف ایس سی میں بھی ایک بہتر طالبِ علم کے طور پر جانا جاتا تھا
مذکورہ واقعے سے پہلے یہ گاؤں کے ایک اسکول میں پڑھاتا بھی رہا۔ اس کی ایک بہن شاہدرہ میں اسٹاف نرس ہے۔ اس کا خاندان لگ بھگ بیس سے پچیس برس پہلے کوٹ راجپوتاں سے کوٹ عبداللہ آ کر رہائش پذیر ہوا تھا
ان کے والد جوانی میں کبڈی کے کھلاڑی رہے، بعد میں روزی روٹی کے لیے چھوٹے موٹے کام کرنے کے علاوہ وین بھی چلاتے رہے، پھر نشے کے عادی ہو کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئے اور ایک روز مٹی کی چادر اوڑھ لی۔ فیض رسول بھٹی کے ایک چچا اور کزن کوٹ راجپوتاں میں رہتے ہیں
واقعے کا پس منظر کیا ہے؟
فیض رسول کے گاؤں کے رہائشی اور آٹھویں کلاس تک اس کے اُستاد رہنے والے زبیر بتاتے ہیں ”چار بجے کا وقت تھا۔ میں اس کے گھر گیا۔ فیض رسول کے بھائی نے بتایا کہ وہ اندر کمرے میں ہے۔ یہ اُس وقت ماں سے جھگڑ کر اسے زخمی کر چکا تھا۔ میں گیٹ پر کھڑا تھا۔ یہ پیچھے سے آیا اور لکڑی کا بڑا سا ٹکڑا میرے سر پر دے مارا۔ میں نیچے گر کر بے ہوش ہو گیا“
اس کے بعد کی کہانی میاں ارشد بیان کرتے ہیں۔ میاں ارشد کوٹ عبداللہ کے رہائشی ہیں اور اپنے علاقے میں سیاسی طور پر سرگرم رہتے ہیں
وہ بتاتے ہیں ”جس دِن اس نے ماں کو زخمی کیا، اُسی دِن اس نے ماں سمیت دو عورتوں اور چار مردوں کو بھی زخمی کیا ۔گاؤں کے لوگوں نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی تو یہ تھک کر اپنے گھر کے سامنے آ کر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ لوگوں نے اسے تھپڑ مارے اور پولیس کو اطلاع دی، مگر جب پولیس نہیں آئی تو کوٹ راجپوتاں میں مقیم چچا کو مطلع کیا، جو آ کر اسے اپنے ساتھ لے گیا“
میاں ارشد کے مطابق وہ اس سارے معاملے میں موقع پر موجود تھے۔ اس سارے واقعے کی تصدیق مقامی صحافی عاطف افتخار بھٹی بھی کرتے ہیں جبکہ اس واقعے پر باریک بینی سے کام کرنے والے شیخوپورہ کے صحافی وحید مغل بھی یہی کہانی سناتے ہیں
میاں ارشد، عاطف افتخار بھٹی اور وحید مغل کے مطابق: فیض رسول کوٹ راجپوتاں میں ایک رات گزار کر شاہدرہ میں اپنی بہن کے پاس پہنچا، اُن سے مارپیٹ کر کے ان کا پرس چھین لیا اور واپس گھر کے لیے بس اسٹینڈ کی جانب پہنچا مگر راستے میں اس نے رکشے والے پر بھی حملہ کر دیا۔ اس پر وہاں باقی رکشے والوں نے مل کر اُسے خوب مارا، جس کے بعد وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ اس واقعے کی وڈیو بھی موجود ہے
وحید مغل کے مطابق: یہاں جب اُسے ہوش آیا تو لوگوں نے ابتدائی طبی امداد کے بعد اُسے گھر کی طرف روانہ کر دیا۔ جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب وہ کوٹ عبداللہ بس اسٹاپ پر آیا اور گھر کا راستہ لیا
گاؤں کے مقامی لوگوں اور صحافیوں سمیت فیض رسول کے استاد ناصر مغل اور جہاں سے اس نے میٹرک کیا تھا، اُس نجی اسکول کے مالک پرویز اقبال نے جو کہانی سنائی، وہ کچھ یوں ہے: فیض رسول کے والد چند ماہ قبل فوت ہوئے۔ کچھ دِن قبل کسی نے فیض کو کہا کہ اس کے والد کی قبر کا ایک حصہ بیٹھ چکا ہے
یہ قبرستان پہنچا اور دیکھا کہ بارش کی وجہ سے قبر کی ایک سِل نیچے کو جھک گئی ہے۔ اس نے سِل تبدیل کی اور مبینہ طور پر والد کی قبر کو کھود دیا اور نماز جنازہ پڑھی۔ پھر اُس نے گھر آ کر یہ واقعہ ماں کو سنایا۔ واقعہ سنانے کے دوران ہی اچانک اس نے طیش میں آ کر ماں پر حملہ کر کے زخمی کر دیا۔ اس کے بعد زبیر نامی شخص آیا، جس کو اس نے گھر کے دروازے پر سر کے اُوپر ضرب لگا کر زخمی کر دیا
کیا فیض رسول بھٹی شروع سے ہی ایسا تھا؟
گاؤں کے لوگوں کی مجموعی رائے ہے کہ وہ لوگوں سے اتنا گھلتا ملتا نہیں تھا اور نہ ہی اس کا کوئی خاص دوست تھا
ناصر مغل، جو ایف ایس سی میں اس کو کیمسٹری پڑھاتے رہے، بتاتے ہیں ”وہ 2018 سے 2022 تک مجھ سے پڑھتا رہا۔ اس کی بہن بھی میری شاگرد تھی۔ اس کی کوئی شکایت کبھی نہ سنی۔ کھیلوں میں حصہ لیتا تھا۔ معاشی طور پر یہ خاندان کمزور تھا مگر متشدد روّیوں کا حامل نہیں تھا“
فیض رسول پرویز اقبال کے نجی اسکول میں وہ چند ماہ پڑھاتا بھی رہا ہے۔ اُن کے مطابق بھی ’کبھی کسی نے اس کی کوئی شکایت نہیں کی تھی۔‘
عاطف افتخار بھٹی کہتے ہیں ”میرے اسکول میں اس کے والد بچوں کی پک اینڈ ڈراپ وین کے ڈرائیور تھے، مگر بعد میں نشے میں پڑ گئے تو نوکری بھی جاتی رہی“
میاں ارشد کا کہنا ہے ”نشے کی وجہ سے ہی اس کے والد کی موت ہوئی“
صحافی وحید مغل کہتے ہیں ”میں نے گاؤں کے لوگوں اور پڑوسیوں سے معلومات لی مگر چند دِن پہلے تک سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔۔ بس اچانک ہی سب کچھ ہوا“