برطانیہ میں والدین کے ہاتھوں دس ماہ کے بچے کا دردناک قتل، جس نے ججوں کو بھی رلا دیا!

ویب ڈیسک

برطانیہ میں ایک دس ماہ کے بچے کے والدین کو اس کے قتل کا مجرم قرار دیا گیا ہے، جسے انتالیس دن بعد اس کے والدین کی نگرانی میں واپس دیا گیا تھا

اسٹیفن بوڈن اور ان کی ساتھی شینن مارسڈن نے 2020ع میں کرسمس کے دن دس ماہ کے بچے فنلے بوڈن کو قتل کیا، جسے ایک سو تیس شدید زخم آئے تھے

رواں ہفتے ڈربی کراؤن کورٹ میں مقدمے کی سماعت کے بعد ایک جیوری نے چیسٹر فیلڈ، ڈربی شائر سے تعلق رکھنے والے جوڑے کو قتل کا مجرم پایا۔ انہیں 26 مئی کو سزا سنائی جائے گی

عدالت نے جوڑے کو اس ’ظالمانہ اور وحشیانہ‘ قتل کا ذمہ دار قرار دیا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ بچے کو بارہا تشدد کے بعد جلایا اور مارا گیا

فنلے کی ستاون جگہ سے ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور اس کے جسم پر اکہتر چوٹیں اور خراشیں تھیں۔ اس کے علاوہ اس کے بائیں ہاتھ پر دو جلنے کے نشان تھے، جن میں سے ایک کسی گرم چپٹی سطح سے اور دوسرا شاید سگریٹ کے شعلے سے جلایا گیا تھا

وہ ہالینڈ روڈ، اولڈ وِٹنگٹن میں خاندان کے بے ترتیب اور گندگی سے بھرے گھر میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد بے ہوش ہو گیا

پیرامیڈیکس کو کرسمس کے دن کے اوائل میں وہاں بلایا گیا اور فنلے کو ہسپتال لے جایا گیا، جہاں بعد میں اسے مردہ قرار دے دیا گیا

جب فیصلہ پڑھا گیا تو بچے کے قاتل والدین اسٹیفن بوڈن اور شینن مارسڈن نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا

لیکن جج جسٹس ٹپلز جیوری سے خطاب کرتے ہوئے اپنے آنسو ضبط کرنے کی ناکام کوشش کرتی رہیں

جب وہ رندھی ہوئی آواز میں بات کر رہی تھیں تو اس دوران کم از کم چار جیوری ممبران آبدیدہ ہوئے اور سب نے کیس کی تکلیف دہ نوعیت کی وجہ سے، تاحیات جیوری سروس میں دوبارہ حصہ لینے سے معذرت کر لی

فنلے کو فروری 2020ع میں پیدا ہونے کے فوراً بعد اس کے والدین سے لے لیا گیا تھا۔ لیکن اس سال کے آخر میں آٹھ ہفتے کے لیے عدالتی حکم کے تحت اسے والدین کو دیکھ بھال کے لیے واپس دیا گیا تھا اگرچہ سماجی کارکنوں نے چھ ماہ کی مدت کے لیے درخواست کی تھی

عدالت کو بتایا گیا کہ جوڑے نے حکام کو فنلے سے دور رکھنے کے لیے ایک دوسرے کی حفاظت اور سنگین تشدد کو چھپانے کے لیے مل کر کام کیا

اس میں ہیلتھ وزیٹر کی ملاقات کو منسوخ کرنا اور سماجی خدمات کو یہ بتانا شامل ہے کہ چونکہ وہ بغیر بتائے آئے ہیں اس لیے فنلے کو کووڈ ہو سکتا ہے اور انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی

فنلے کی موت جن حالات میں ہوئی، اس میں ایک بچے کے تحفظ کی صورتحال کا جائزہ لیا جا رہا ہے

ڈربی شائر کاؤنٹی کونسل کے ایک ترجمان نے کہا کہ وہ اس معاملے سے پوری طرح جڑی رہے گی تاہم جب تک یہ مکمل نہیں ہو جاتا اس پر مزید تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہوگا

عدالت کو بتایا گیا کہ تیس سالہ اسٹیفن بوڈن اور بائیس سالہ شینن مارسڈن باقاعدہ اور بھاری مقدار میں منشیات استعمال کرتے تھے، جنہوں نے اپنے بیٹے کی دیکھ بھال کے بجائے منشیات پر رقم خرچ کرنے کو ترجیح دی

عدالت کو بتایا گیا کہ ٹاکسیکولوجی ٹیسٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ فنلے کے خون میں بھنگ پائی گئی تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے اپنی موت سے چوبیس گھنٹے پہلے دھوئیں میں سانس لیا ہوگا

عدالت کو جوڑے کے موبائل فون سے بھیجے گئے ٹیکسٹ میسجز دکھائے گئے۔ 23 دسمبر 2020 سمومی جے کے نام سے محفوظ کیے گئے ایک پیغام میں، کہا گیا ”چھوٹے نے مجھے ساری رات جگائے رکھا“

پیغام میں مزید کہا گیا ”میں اسے دیواروں پر دے مارنا چاہتا ہوں۔ ہاہاہا“

فنلے کی موت کے بعد، بوڈن کو ہسپتال میں مارسڈن سے یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ وہ فنلے کی پش چیئر ’ای بے پر‘ بیچنے جا رہا ہے لیکن بعد میں پولیس کو بتایا کہ اس نے ایسا صرف ’موڈ کو ہلکا کرنے کی کوشش‘ میں کہا

پراسیکیوٹر میری پرائر کے سی نے کہا کہ بوڈن نے بعد میں ایک رشتہ دار کو بتایا کہ فنلے رو رہا تھا، اس لیے ’بقول اس کے اس نے اسے تھوڑا سا جھجھوڑا‘

لیکن اس نے 11 جنوری 2021 کو ہسپتال میں فنلے کی لاش کو دیکھ کر مارسڈن نے کہا ”اس کے باپ نے اسے مار ڈالا، میں نے اس کی حفاظت نہیں کی“

بوڈن نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے کتے نے ان کے بیٹے پر ’حملہ‘ کیا، جس سے پسلیاں ٹوٹی ہیں، جبکہ فنلے کے منہ کے اندر کا زخم ممکنہ طور پر ایک کھلونے کی وجہ سے لگا

پولیس کی تحقیقات کی قیادت کرنے والے انسپکٹر اسٹیفن شا کا کہنا ہے ”فنلے بوڈن کی موت وہاں ہوئی، جو اس کے لیے دنیا کی سب سے محفوظ جگہ ہونی چاہیے تھی۔۔ اس کا اپنا گھر!“

انہوں نے کہا ”کوئی فیصلہ یا جیل کی سزا فنلے کو واپس نہیں لائے گی، تاہم، اب ہمیں اس کی حقیقت معلوم ہو گئی ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا، اور انصاف مل گیا ہے“

این ایس پی سی سی کے چیف ایگزیکٹیو سر پیٹر وانلیس نے مزید کہا ”اس تکلیف کو سمجھنا انتہائی دردناک اور مشکل ہے، جس نے فنلے کو موت تک پہنچایا، یہ تکلیف ان لوگوں کی طرف سے ملی، جن کو اس کی دیکھ بھال اور اسے نقصان سے بچانا چاہیے تھا۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close