اگرچہ حالیہ امریکی تاریخ سیریل کلرز سے بھری پڑی ہے جو سینکڑوں لوگوں کی موت کا سبب بن چکے ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ ڈہمر نے ان افراد کو قتل کرنے کے لیے اور ان کی لاشوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے جو طریقے استعمال کیے تھے، اس کی وجہ سے وہ جرائم کی تفتیش کرنے والے ماہرین اور عام شہریوں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔
اُن کی زندگی اور جرائم کے بارے میں درجنوں ٹیلی ویژن سیریز، فلمیں اور ڈرامے بنائے گئے ہیں، اور ان میں وہ تحریریں شمار نہیں ہیں جو ان واقعات کی رپورٹوں سے لے کر اس کے ہائی سکول کے ہم جماعتوں کی شہادتوں اور کتابوں میں لکھی گئی ہیں۔
ڈہمر کے جرائم اور ان کے بچپن اور جوانی کی کہانی پر مبنی ’مونسٹر: دی جیفری ڈہمر سٹوری‘ کے نام سے ایک تازہ سیریز نیٹ فلکس پر پیش کی گئی ہے جس کی دس اقساط ہیں
ایک ’عام‘ بچپن
ایک بات جس نے پولیس حکام اور ڈہمر کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں کی توجہ حاصل کی وہ یہ تھی کہ زیادہ تر سیریل کلرز کے برعکس، وہ اپنے بچپن میں کسی بدسلوکی اور ناروا سلوک، یا تکلیف دہ واقعے سے نہیں گزرے تھے۔
وہ امریکی ریاست وسکونسن کے علاقے ملواکی میں مئی 1960 کو پیدا ہوئے تھے۔
ان کے والد لیونل ڈہمر جو اُن کے مجرمانہ فعل کے مشہور ہونے کے بعد بھی جیل میں ان سے ملنے جاتے تھے، ایک کیمسٹ تھے اور ان کی والدہ، جوائس اینیٹ، ٹیلی گراف آپریٹر کے طور پر کام کرتی تھیں۔
امریکی چینل ’اے اینڈ ای‘ پر شائع ہونے والی اُن کی زندگی کی کہانی سمیت ان کی مختلف سوانح حیات کے مطابق ان کے کچھ اساتذہ نے ان کی رویے میں اس وقت تبدیلی دیکھی تھی جب وہ دس سال کے تھے۔
ان کی خیال میں ان کے رویے میں تبدیلی کا تعلق ان کی والدہ کی ذہنی بیماری کی تشخیص اور ان کے والد کے اُن کے پاس نہ ہونے سے تھا۔ تاہم اپنی نوعمری میں ہی ان کے رویے میں کچھ ایسی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہوئی تھیں جو بعد کے سالوں میں اس کی نشاندہی کرتی ہیں
ڈہمر کو ہمیشہ سے مردہ جانوروں کی چیر پھاڑ کرنے میں دلچسپی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر وہ جانور تھے جو ان کے گھر سے قریب ہائی وے پر گاڑیوں کے نیچے آ کر مر جاتے تھے۔
شاری ڈہمر جو بعد میں ڈہمر کے والد کی شریکِ حیات بنیں نے ٹائمز میگزین کو بتایا تھا کہ انھیں علم تھا کہ جیفری مردہ جانوروں کے گوشت کو گلانے کے لیے تیزاب کا استعمال کرتا تھا اور ان سے ہڈیاں نکال لیتا تھا۔ ایسا ہی عمل اس نے قتل کرنے والے افراد کے ساتھ کیا تھا۔
حکام کے سامنے ڈہمر کے دیے گئے بیان، جو بعد میں مقامی میڈیا رپورٹس میں شائع ہوا، کے مطابق اس کے والدین کی طلاق، جو اس وقت ہوئی جب وہ ہائی سکول سے فارغ التحصیل ہونے والے تھے، نے اس کے اکیلا چھوڑ دینے کے احساس کو مزید گہرا کر دیا تھا، جسے اس کے اساتذہ نے بچپن میں محسوس کیا تھا۔
اس عرصے کے دوران انھوں نے اپنا پہلا قتل کیا تھا، جون 1978 میں انھوں نے 18 سالہ سٹیون ہکس نامی نوجوان کو مارا تھا جو ڈہمر کے گھر کے قریب ہونے والے ایک میوزک کنسرٹ میں شرکت کے لیے جا رہے تھے
ڈہمر خود بھی اس وقت 18 سال کے تھے اور اُنھوں نے گھر کے قریب سٹیون کو گاڑی چلاتے دیکھا تھا اور انھیں کنسرٹ کی جگہ تک چھوڑنے کی پیشکش کی تھی لیکن اس سے پہلے ڈہمر نے اسے اپنے گھر ایک جام کے لیے مدعو کیا تھا۔
اپنے گھر پر لانے کے بعد اس نے سٹیون کے سر پر دو مرتبہ ان ویٹس کے ساتھ ضرب لگائی تھی جو وہ ورزش کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ڈہمر نے بہت سالوں بعد پولیس کو بتایا تھا کہ اس نے سٹیون ہکس کو اس لیے مارا تھا کیونکہ اسے کنسرٹ میں جانے کی جلدی تھی اور وہ اس کے پاس بیٹھنا نہیں چاہتا تھا۔
سیریل کلنگز
سٹیون ہکس کی لاش کے ساتھ جیفری نے وہی بیہمانہ سلوک کیا جو اس نے دیگر متاثرین کی لاشوں کے ساتھ بھی بعدازاں کیا۔ اس نے ہکس کے جسم کو کاٹا، اس کو تیزاب میں ڈالا اور گوشت گل جانے کے بعد ہڈیاں نکال کر محفوظ کر لیں۔
جیفری کے اپنے بیان کے مطابق، ہکس کے معاملے میں اس نے اس کا مکمل سر رکھ لیا تھا تاکہ اس پر بعد میں غور کر سکے۔
نو برسوں تک ڈہمر کے کسی مزید جرم کا پتہ نہیں چلا۔ انھوں نے اوہائیو یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا جہاں انھیں پہلے سمیسٹر کے بعد ہی کم نمبرز لینے اور غیر حاضری کی وجہ سے نکال دیا گیا تھا۔
ان کے والد جنھوں نے اپنے بیٹے کے متعلق متعدد انٹرویو دیے ہیں نے بتایا کہ یونیورسٹی سے نکال دیے جانے کے بعد انھوں نے اپنے بیٹے کو فوج میں بھیج دیا تھا۔ تاہم اسے وہاں بھی شراب کی لت پڑنے کی وجہ سے نکال دیا گیا تھا۔
سنہ 1981 میں ڈہمر اپنی دادی کے ساتھ ملواکی کے مضافات میں ایک گھر میں منتقل ہو گیا۔ وہاں اس کا دوسرے مردوں کے ساتھ پہلا جنسی تعلق قائم ہوا، اس نے خود کو ہم جنس پرستوں کی بارز کے لیے وقف کر دیا اور شراب نوشی کا عادی ہونے کی وجہ سے طویل عرصے تک بے روزگار رہا۔
نومبر 1987 میں اس نے دوسرا قتل کیا، 25 سالہ سٹیون تومی کا قتل۔ اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران دیے گئے بیان کے مطابق ڈہمر تومی سے ایک بار میں ملا تھا اور اسے ہوٹل کے کمرے میں اپنے ساتھ چلنے پر آمادہ کیا۔
ڈہمر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اسے یاد نہیں کہ اس نے تومی کا قتل کیسے کیا تھا لیکن وہ اگلی صبح جب جاگا تو تومی کا مردہ جسم اس کے ساتھ پڑا تھا اور اس کے ہاتھوں پر زخم تھے
یہاں سے ڈہمر نے قتل کا سلسلہ شروع کیا، وہ بار سے اپنے شکار کو گھر یا کمرے میں لاتا اور قتل کر دیتا۔ پہلے پہل وہ نوجوانوں کو اپنی دادی کے گھر لاتا تھا لیکن آخرکار اسے وہاں سے نکال دیا گیا اور پھر اس نے ملواکی کے مضافات میں ایک سستا اپارٹمنٹ لیا جہاں وہ اپنے شکار کو لاتا، نشہ آور چیز پلاتا اور پھر اس کا گلا گھونٹ دیتا تھا۔
وہ ان مردوں کو گھر لاتا تھا جنھیں وہ بارز میں جنسی طور پر لبھاتا تھا۔
اس طرح اس نے رچرڈ گیرورو، جیمز ڈوکسٹاٹر، انٹونی سیئرز، رے منڈ سمتھ، ایڈورڈ سمتھ، ارنسٹ ملر، ڈیوڈ تھامس، کرٹس سٹراٹرڑ ایرول لنڈسے، کونرک سنتھاسوفون، ٹونی ہیگوز، اولیور لاسی، میٹ ٹرنر اور جوزف براڈہوفٹ کو قتل کیا تھا۔
جب ڈہمر کسی کو قتل کرتا تو وہ ان کے جسم کو کاٹتا، جسم کے حصوں کو محفوظ کرنے کے لیے انھیں ریفریجریٹر میں رکھتا اور انھیں سیلائن محلول میں ڈالتا تھا
زندہ بچ جانے والا
جولائی 1991 کو ڈہمر نے ایک 32 سالہ سیاہ فام نوجوان ٹریسی ایڈورڈز کو اپنے ساتھ گھر چلنے اور برہنہ تصاویر بنانے کے عوض سو ڈالر دینے پر راضی کیا تھا۔
تاہم مقدمے کی سماعت کے دوران اس نے بتایا کہ ایڈورڈز ڈہمر کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے اپارٹمنٹ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس نے دو پولیس افسران کو اطلاع کی جو فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔
پولیس اہلکاروں نے ڈہمر کے فلیٹ سے مسخ شدہ لاشوں کی تصاویر برآمد کرنے کے بعد اسے گرفتار کر لیا تھا۔
پولیس کو دیے گئے اپنے بیان میں اس نے اعتراف کیا کہ اس نے 11 افراد کو اس طرح سے قتل کیا ہے۔ حکام کو اس کے فلیٹ سے چار افراد کے سر اور دیگر افراد کے جسم کے اعضا، دل وغیرہ ملے تھے جبکہ اس کے فلیٹ سے تیزاب کے ڈرم بھی ملے۔
اس نے اپنے اعترافی بیان میں یہ بھی کہا کہ وہ قتل کیے جانے والوں کا انسانی گوشت بھی کھاتا تھا اور مردہ جسموں کے ساتھ جنسی عمل کا ارتکاب بھی کرتا رہا۔
اس قلیل المدتی مقدمے کی سماعت کے بعد وہ 15 افراد کے قتل کا مجرم پایا گیا اور اسے 15 مرتبہ ہی سزائے موت سنائی گی۔ اسے ریاست اوہائیو کی جیل میں بھیج دیا گیا تھا۔
تاہم دو برس بعد وہ جیل میں ایک ساتھی کے ساتھ لڑائی کے دوران سر پر چوٹ لگنے سے ہلاک ہو گیا اور یوں ایک سیرئیل کلر اپنے انجام کو پہنچا