دھماکے کی آوازیں اور پھر دم گھونٹ دینے والی خاموشی۔۔ غزہ پر کیا بیت رہی ہے؟

ویب ڈیسک

غزہ میں اسرائیلی جارحیت کسی بھی جنگی اخلاقیات سے عاری ہے۔۔ اگرچہ ایسا پہلے بھی تھا لیکن اب یہ اپنی انتہائی حدوں کو چھو رہا ہے۔۔ ہر طرف تباہی ہے اور آہ و بُکا ہے

”اوہ میرے خدا! یہ ایک اور حملہ ہے۔ اے میرے خدا۔۔۔“ اسرائیلی فضائی حملے کی آواز سنی گئی، جس کے بعد وہ خاموشی چھا گئی، جس میں دم گھٹنے لگتا ہے

مطیع مصباح کی آواز میں لرزش کچھ دیر کے لیے ختم ہو گئی جب کہ غزہ میں اسرائیلی طیارہ ان کے اوپر پرواز کرتا رہا۔۔ اس فضائی حملے میں تو وہ محفوظ رہے، لیکن ان کے لیے خود کو ’کسی بھی لمحے کچھ بھی ہونے‘ کے خوف سے محفوظ رکھنا ممکن نہیں ہے۔۔ وہ بھی تب، جب کہ وہ چار معصوم بچوں کے والد ہیں

غزہ پر کیا بیت رہی ہے، اس بارے میں مطیع بتاتے ہیں ”جب تک لوگ غزہ کی پٹی میں موجود نہیں ہوتے، تب تک کوئی بھی نہیں مانے گا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ اب بھی جب میں آپ سے بات کر رہا ہوں، کسی بھی مقام کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے“

مطیع کہتے ہیں ”میں جو دیکھ رہا ہوں، وہ بہت تباہ کن ہے۔ پورا علاقہ نقشے سے مکمل طور پر پر مٹا دیا گیا ہے۔ یہ صرف مخصوص گھروں یا عمارتوں کو نشانہ بنانے کی بات نہیں“

اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کا حماس کے حملے کا ’زبردست انتقام‘ لینے کا وعدہ جسے ’آنے والی دہائیوں تک‘ یاد رکھا جائے گا، غزہ کے شہریوں کو سب سے زیادہ محسوس ہو رہا ہے۔ غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا وحشی جنون۔۔ پانی، بجلی، ادویات اور ضروریات زندگی کی ترسیل پر مکمل بندش۔۔ غزہ کی محصور پٹی ، جسے اسرائیل نے کئی برسوں سے دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا کر رکھ دیا ہے، ان دنوں یہاں ہر طرف سے موت برس رہی ہے

حکام کے مطابق ہفتے کے بعد اسرائیل کی جانب سے محصور پٹی پر مسلسل بمباری سے اب تک کم از کم 1417 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور کم از کم 6268 زخمی ہو چکے ہیں۔۔ ہسپتال زخمیوں سے بھر چکے ہیں، لیکن نہ تو ادویات دستیاب ہیں اور نہ ہی بجلی اور پانی۔۔

دوسری جانب تازہ تنازع کے شروع ہونے کے بعد حماس کے حملوں میں اب تک کم از کم 1300 اسرائیلی جان گنوا اور کم از کم 3300 زخمی ہو چکے ہیں

اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کے لاکھوں فوجی اب غزہ کی سرحد پر متعدد مقامات پر جمع ہو چکے ہیں، کیوں کہ فوج زمینی حملے کے لیے تیار ہے

اسرائیل نے غزہ میں مقیم 11 لاکھ فلسطینیوں کو جمعے کی رات 10 بجے تک شمالی علاقوں سے نکل جانے کا غیر معمولی حکم جاری کیا ہے

جبکہ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ یہ مطالبہ پورا کرنا ’ناممکن‘ ہے اور اس کے ’تباہ کن انسانی نتائج‘ برآمد ہو سکتے ہیں۔ حماس نے بھی اسرائیل کے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا ہے

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے کہا ہے کہ دس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو محصور جنگ زدہ علاقے سے ایسے خطے میں جانے کا حکم دینا جہاں خوراک، پانی قلت اور سر چھپانے کی جگہ نہیں ’انتہائی خطرناک اور ناممکن ہے۔‘

نیو یارک میں سکیورٹی کونسل کے اجلاس سے قبل انہوں نے اسرائیل سے محصور غزہ پر حملے بند کرنے کا نہیں کہا تاہم اُن کا کہنا تھا کہ ’جنگ کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔‘

عالمی امدادی اداروں نے اس حکم کو بین الاقوامی قانون کے خلاف اور بچوں، خواتین اور بوڑھوں سمیت عام شہریوں کو دی جانے والی اجتماعی سزا قرار دے کر مذمت کی ہے

اسرائیل کی جانب سے الٹی میٹم کے بعد سنیچر کو شمالی غزہ سے فلسطینی شہری جنوب کی طرف جا رہے ہیں جبکہ اسرائیلی افواج بعض جگہوں پر زمینی کارروائی کر رہی ہے۔ حماس کے میڈیا دفتر نے کہا ہے کہ شہر چھوڑنے والے فلسطینیوں کے قافلے پر اسرائیلی طیاروں کی بمباری سے 70 شہری ہلاک ہو گئے ہیں

مطیع کہتے ہیں ”یہ (علاقہ) ایک کھلی جیل ہے اور غزہ کو بنیادی ضروریات تک رسائی سے محروم کرنا پورے خطے کو اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے۔“

لیکن خوراک اور پانی کی فکر غزہ پر تباہ کن فضائی حملوں کے خوف کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔

مطیع کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں اپنی بیوی اور چار بچوں سے مختلف علاقے میں مقیم ہیں تاکہ ان کے خاندان کے زندہ رہنے کے امکانات بڑھ جائیں

ان کا کہنا تھا ”جب کوئی ہدف نشانہ بنتا ہے تو ہم سب کو ایک ساتھ نہیں مرنا چاہیے۔۔ ہم میں سے کسی ایک کو زندہ رہنا چاہیے۔۔“

مطیع مسلسل اپنے اہل خانہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ زندہ ہیں لیکن محدود انٹرنیٹ اور بجلی کی کمی کی وجہ سے کوئی بھی رابطہ معجزہ ہوتا ہے

وہ بتاتے ہیں ”تمام بیٹریاں ختم ہو رہی ہیں۔ ہمارے پاس ایندھن ختم ہو رہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہم کیسے زندہ رہیں گے؟“

غزہ میں کوئی حقیقی پناہ گاہ نہیں ہے، اگرچہ تقریباً ایک لاکھ پچھتر ہزار بے گھر فلسطینیوں نے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کے اسکولوں میں پناہ لے رکھی ہے

غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والی کارکن نجلہ شاوا نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ کہا، ”جن اسکولوں میں لوگ پناہ لیتے ہیں، وہ پناہ گاہیں نہیں ہیں۔ وہ صرف عام اسکول ہیں، جو زیادہ مضبوط نہیں ہیں اور وہاں تحفظ کے کوئی مخصوص انتظامات بھی نہیں“

جنوبی غزہ کے تباہ شدہ علاقے رفح میں محصور دیما محمد ابو عساکر اپنے سات افراد پر مشتمل خاندان کے ساتھ اپنے گھر میں موجود ہیں اور ہر آنے والا گھنٹہ مزید دہشت پھیلاتا ہے

بھاگنے کی صورت میں ہر شخص کے پاس ضروری اشیا کا ایک تھیلا ہوتا ہے

بیس سالہ طالبہ دیما کا کہنا تھا، ”ہم بم گرنے کی آواز سنتے لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ آواز کہاں سے آ رہی ہوتی ہے، اس لیے ہم دعا کرتے ہیں کہ ہم اگلا ہدف نہ ہوں“

وہ کہتی ہیں ”ہم وسائل ختم ہونے سے خوفزدہ نہیں۔ صرف ان بموں سے خوفزدہ ہیں، جو ہر روز اور ہر سیکنڈ میں برس رہے ہیں۔ مجھے اپنے لوگوں، اپنے بھتیجوں کے لیے ڈر لگا رہتا ہے۔۔ وہ بچے ہیں۔۔۔ وہ ان آوازوں کو برداشت نہیں کر سکتے“

انٹرنیٹ دستیابی کے مختصر وقت کے دوران غزہ کے لوگ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سوشل میڈیا پر تلاش کرتے رہتے ہیں کہ آیا ان کے دوست اور پیارے زندہ ہیں

دیما نے بتایا ”ان چند گھنٹوں میں ہم جو تصاویر دیکھتے ہیں، وہ ہمارے دل شکستہ کر دیتی ہیں۔ ہم ہر جگہ شہدا اور خون کو دیکھتے ہیں۔۔ پھر مرنے والوں کی تصاویر اس وقت بھی آپ کے ساتھ رہتی ہیں، جب انٹرنیٹ بند ہو جاتا ہے“

تشدد شروع ہونے سے پہلے دیما یونیورسٹی میں سافٹ ویئر انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ ایک ایسی زندگی، جس پر وہ اب افسوس کر رہی ہیں

ان کا کہنا تھا ”میری یونیورسٹی میں سافٹ ویئر انجینیئرنگ کے دو طلبہ مارے گئے۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ اگر میں یونیورسٹی واپس جا سکی تو ہوم ورک یا طویل گھنٹوں کی شکایت نہیں کروں گی۔ مجھے اتنے زیادہ نمبر ملتے تھے۔“

دیما کہتی ہیں ”میں چاہتی ہوں کہ لوگ جانیں کہ ہم زندگی کے لائق ہیں۔ ہمارے خواب ہیں، ہماری خواہشات ہیں۔ ہمیں زندہ رہنے کا حق ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close