سندھ کا شہر عمرکوٹ تاریخی اعتبار سے مشہور ہے۔ یہاں پر موجود قلعہ مختلف شاہی حکومتوں کا مرکز رہا ہے۔ مغل حکومت دور کے تیسرے بادشاہ جلال الدین اکبر کی پیدائش بھی یہیں ہوئی تھی
تاریخی قلعے میں دور اکبری سے وابستہ بہت سی چیزیں رکھی گئی ہیں، جس میں مغل دور میں استعمال ہونے والے جنگی سامان، سِکے، زیورات، قلمی نسخے اور کتابیں شامل ہیں
عمر کوٹ کے معروف کالم نگار ارباب نیک محمد (جو فارسی زبان بھی جانتے ہیں) کا کہنا ہے ”قلعے میں موجود میوزیم 1967 میں تعمیر ہوا تھا، جس کا افتتاح انوارالحق نے کیا، جن کا تعلق بنگلا دیش سے تھا“
ارباب نیک محمد کہتے ہیں ”قلعے میں تقریباً دس قلمی کتابیں موجود ہیں، جو فارسی زبان میں ہیں، جن کا عرصہ پانچ سو سال سے بھی زیادہ ہے“
انہوں نے کہا ”مغلیہ حکومت میں فن کتابت کا بڑا رجحان پایا جاتا تھا اور مغل بادشاہ اکبر کے دور میں دفتری زبان بھی فارسی تھی“
فارسی میں فن کتابت کی مثال دیتے ہوئے ارباب نیک محمد نے بتایا کہ سندھ کے شہر سیہون سے ملاں فیضی اور ملاں مبارک سیہوں سے دلی گئے، جہاں پر انہوں نے قرآن پاک کی تفسیر فارسی زبان میں لکھی جو غیر منقوط تھی
ان کا کہنا تھا ”مغلیہ دور میں تاریخ پر جو لکھی گئی فارسی کی کتابیں قلعے میں موجود ہیں، وہ مختلف صنفوں پر مشتمل ہیں۔ عیار دانش، جو ڈرامائی انداز میں لکھی گئی کتاب ہے، ایک تحقیق کے مطابق وہ 1588 میں لکھی گئی تھی“
”دیوان نظیری شاعری کی کتاب ہے، جو اکبر اعظم کے دور کے مشہور شاعر محمد حسین نظیری نے تحریر کی۔ آئین اکبری سولہویں صدی کی کتاب ہے، جس میں اکبر بادشاہ کے دور کے قوانین شامل ہیں۔ تاریخ کے خلاصے کی کتابیں مہابھارت کے فارسی ترجمے کی کتاب بھی موجود ہے اور تاج محل کے حالات پر لکھی کتاب ’حالات تاج محل‘ بھی اس میوزیم میں ہے“
عباس شیروانی جو مغل دور کے مشہور تاریخ دان ہیں، نے شیر شاہ سوری کی زندگی پر جو کتاب لکھی ہے، وہ بھی یہاں موجود ہے
اکبر اعظم کی وفات کے بعد ان کے تخت کو سنبھالنے والے ان کے بیٹے شہزادہ سلیم نورالدین جہانگیر کی زندگی اور بحیثیت شہنشاہ ان کے کارنامے ’اقبال نامہ جہانگیری‘ میں درج ہیں۔ وہ کتاب بھی یہاں موجود ہے، جو ایک بڑے عرصے کے بعد برصغیر، افغانستان، ایران اور دیگر جگہوں پر تحقیق کر کے ترجمے کیے گئے
ارباب نیک محمد بتاتے ہیں ”قلمی کتابوں کی سیاہی انتہائی حسین ہے اور عمرکوٹ کے لیے اس سے بڑا اعزاز کیا ہوگا، جو اس قسم کے قلمی نسخے اب بھی اپنی پرانی شکل میں ہمارے پاس محفوظ ہیں“