اکتوبر اور اپریل کے مہینوں میں شمالی پاکستان کی وادیوں اور پنجاب کے راولپنڈی ڈویژن کی سڑکوں پر بھیڑ بکریوں کے ریوڑ ہانکتے خانہ بدوش بکروال جا بجا نظر آتے ہیں
مخصوص سیٹی اور ہانکے پر سدھائے ہوئے یہ جانور، رہائشی خیمے، چند کپڑے، کچھ بستر اور تھوڑے سے برتن۔۔ صدیوں سے سفر میں زندگی بتا دینے والے ان خانہ بدوش چرواہوں کا کل اثاثہ بس یہی ہوتا ہے
ان کے جانوروں میں مال مویشی کے علاوہ باربرداری کے لیے گھوڑے، خچر اور قافلے کی چوکیداری کے لیے مخصوص نسل کے کتے شامل ہوتے ہیں
لیکن چند سالوں سے ان کے سفری سامان میں موبائل فون کے علاوہ ایک اور شے کا اضافہ ہوا ہے، وہ ہیں ان کے بچوں کے اسکول کی کتابیں
چالیس سالہ بکروال خانہ بدوش محمد فاروق کا ڈیرہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع باغ کے علاقے ہاڑی گہل میں مقامی نالے کے کنارے خیمہ زن ہے
ستمبر کے شروع میں گلگت بلتستان کے علاقے دیوسائی کے پہاڑوں سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والے محمد فاروق اکتوبر کے آخر میں راولپنڈی کی تحصیل کہوٹہ پہنچنا چاہتے ہیں، جہاں میاں صدام ان کے بچوں کا منتظر ہے
پیشے کے لحاظ سے صدام اسکول ٹیچر ہیں۔ لیکن ان کا اسکول پاکستان کا منفرد اور غیر روایتی تعلیمی ادارہ ہے۔ جس کی کلاسیں ہزاروں فٹ بلند دیوسائی کے برفیلے پہاڑوں سے لے کر راولپنڈی ڈویژن کے میدانوں تک پھیلی ہوئی ہیں
اس موسم سرما کے اختتام تک پنجاب کے علاقے پوٹھوہار، خیبر پختونخواہ کے ہزارہ ڈویژن اور آزاد کشمیر کے تقریباً دس اسکولوں میں سینکڑوں بچے اپنے نصاب کا ایک حصہ پڑھیں گے
پھر آنے والے سال کے جون میں ان کی پڑھائی دوبارہ شروع ہوگی۔ انہیں پڑھانے والا استاد اور اسکول کا خیمہ وہی ہوگا، مگر ٹھکانہ ہوگا سینکڑوں میل دور کوئی پہاڑ یا جنگل۔۔۔
ان اسکولوں کا دلچسپ اور منفرد پہلو یہ ہے کہ اساتذہ ان بکروال قافلوں کے پیچھے پیچھے پہاڑوں، جنگلوں اور میدانوں تک جاتے ہیں۔۔ یوں خانہ بدوش بچوں کا یہ اسکول بھی خانہ بدوش ہے۔۔ اسی لیے ملک کے ہزاروں دیگر اسکولوں سے منفرد یہ اسکول ’بکروال موبائل اسکول‘ کہلاتے ہیں
بکروال موبائل اسکول کیسے بنے؟
گلہ بانی کے پیشے سے منسلک یہ خانہ بدوش بکروال (بھیڑ بکریاں پالنے والے) کہلاتے ہیں۔ نسلی طور پر گوجر قوم سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ان کی مادری زبان گوجری ہے۔ صدیوں سے یہ کوہِ ہمالیہ اور پنجاب کے میدانوں کے درمیان سفر میں رہتے چلے آ رہے ہیں
لگ بھگ اٹھ برس قبل ایک امریکی ماہر لسانیات نے ان کی مخصوص طرزِ زندگی، روایات اور زبان کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے لیے ایم ٹی بی ایم ایل ای (مادر ٹنگ بیسڈ ملٹی لینگول ایجوکیشن) طریقہ تعلیم تجویز کیا، جسے ’گوجری لینگویج اینڈ کلچر سوسائٹی‘ کے تعاون سے بروئے کار لایا گیا
بکروالوں کے بچوں کو ابتدائی دو کلاسوں میں ان کی مادری گوجری زبان کا قاعدہ پڑھایا جاتا ہے۔ تیسری سے پانچویں کلاس تک پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں نصاب میں شامل ہیں۔ ان اسکولوں میں پانچویں جماعت تک تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے بعد بچے روایتی اسکولوں میں داخلہ لے کر پڑھائی جاری رکھ سکتے ہیں
خانہ بدوش قبیلوں کے بچوں کو تعلیم دینے کے لیے راولپنڈی سے دیوسائی تک سفر کرنے والے میاں صدام کے والد نظام دین کہتے ہیں ”میں خود بکروال رہا ہوں، اس وجہ سے میری پڑھائی نہیں ہو سکی۔ میں نے اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے خانپور ڈیم کے پاس مستقل رہائش اختیار کر لی۔ بکروالوں کے بچوں کی پڑھائی کے لیے میں اسکولوں کی سرپرستی کرتا ہوں۔ میرا بیٹا ان اسکولوں میں پڑھاتا ہے“
گوجری لینگویج اینڈ کلچر سوسائٹی کے پروجیکٹ ہیڈ شاہد الرحمان ہیں۔ وہ موبائل اسکولوں کی غرض و غایت اور طریقہ کار کے بارے میں بتاتے ہیں ”ہم نے ابتدائی طور پر دس اساتذہ کو تربیت دے کر ان اسکولوں میں تدریس کے لیے رکھا ہے۔
بچوں کی کتابوں اور اساتذہ کی تنخواہوں کے اخراجات مخیّر حضرات کے عطیات سے پورے کیے جاتے ہیں“
شاہدالرحمان کا دعویٰ ہے کہ ’یہ اسکول ایشیا کے منفرد اسکول ہیں، اس لیے کہ ان میں مادری زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔‘
تاہم ان اسکولوں کا سب سے دلچسپ اور منفرد پہلو یہ ہے کہ اساتذہ ان بکروال قافلوں کے پیچھے پیچھے پہاڑوں، جنگلوں اور میدانوں تک جاتے ہیں
گلہ بانی کا پیشہ اپنانے والے گوجر بکروال اس سرزمین کے قدیم باشندے ہیں۔ چونکہ ان پڑھانے والوں کا اپنا تعلق بھی بکروال کمیونٹی سے ہے، اس لیے انہیں طویل سفر کرنے اور ان کے کلچر سے ہم آہنگ ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا
مخصوص طریقہ تدریس کے اسکولوں کا یہ نظام محدود پیمانے پر ہی بچوں کو ابتدائی تعلیم دینے کا ذریعہ ہے۔ ان کے قبیلے سال کے چار ماہ سفر میں رہتے ہیں۔ جبکہ سردیوں اور گرمیوں کے سیزن میں ان کا قیام علیحدہ علیحدہ علاقوں میں ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اکثریت کے بچے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں
ان کی زیادہ آبادی کا تعلق آزد کشمیر کے سرحدی علاقوں سے ہے۔ ماضی میں اگرچہ اس خطے کی حکومتوں نے بھی بکروال اسکول منصوبے کا آغاز کیا تھا، تاہم سرکاری مشینری کی عدم توجہ، انتظامی اور تکنیکی رکاوٹوں اور خانہ بدوشوں کی تعلیم سے عدم دلچسپی کے باعث یہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا
آزاد کشمیر کی آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر رخسانہ خان لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف کے تاریخی اور ثقافتی ورثے کے بارے میں تحقیق اور تصنیف کے کام سے وابستہ ہیں
وہ بتاتی ہیں ”گلہ بانی کا پیشہ اپنانے والے گوجر بکروال اس سرزمین کے قدیم باشندے ہیں۔ جنہوں نے اس کمرشل ازم کے دور میں اس خطے کے قدیم رسم و رواج، ثقافتی شناخت اور لوک زبان کو برقرار رکھا ہوا ہے۔
بکروال خانہ بدوش عورتوں کے مخصوص لباس کو اس ریجن کی کلچر پروڈکٹ کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے شمال کے بہت بڑے علاقے کی قدیم شناخت کو برقرار رکھنے والے ان بے گھر باشندوں کی اپنی شناخت خطرے میں ہے۔
سوسائٹی اور حکومتی اداروں کا رویہ انہیں اجنبی اور بے گھر سمجھ کر تنگ اور ہراساں کرنے والا ہوتا ہے۔ حالانکہ ان کے منفرد کلچر کو اس علاقے کے ٹورزم کے لیے ویلیو ایڈیشن کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے“
ڈاکٹر رخسانہ خان کہتی ہیں ”ان کی بہت بڑی تعداد مقبوضہ کشمیر میں آباد ہے۔ وہاں بھی ان کے لیے الگ سے بکروال اسکول موجود ہیں بلکہ ان کا علیحدہ سے امتحانی بورڈ اور ہاسٹلز بھی قائم ہیں“
”ہمارے ہاں بھی اس کمیونٹی کی مخصوص شناخت کو برقرار رکھنے کے لئے ایسی سہولیات دینے کی ضرورت ہے“
بکروال خانہ بدوش کون ہیں؟
بکروال خانہ بدوش جنوبی اور وسطی ایشیا میں آباد مختلف قبائل ہیں۔ پاکستان، بھارت اور افغانستان میں یہ مخصوص طرز معاشرت اور ثقافت کے حامل ہیں
نسلی اور لسانی طور پر گوجر قوم سے تعلق رکھنے والے خانہ بدوشوں کا گزارہ بھیڑ بکریاں پالنے پر ہے۔
ہزاروں سال پرانی روایات رکھنے والے خانہ بدوش قبائل میں سے گوجر بکروال قبائل کے بارے میں ناصر محمود نے قائداعظم یونیورسٹی سے اینتھروپولوجی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے رکھی ہے۔ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے محکمہ جنگلات سے انسپکٹر جنرل فارسٹ کے طور پر منسلک رہے ہیں
وہ بتاتے ہیں ”نسلی طور پر یہ لوگ انڈو یورپین ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل پنجاب اور جموں کے میدانوں سے دیوسائی کی پہاڑی چوٹیوں تک ان کی گزرگاہیں ہوا کرتی تھی۔
1965ع کی پاک بھارت جنگ سے قبل یہ خانہ بدوش اپنے پرانے راستوں پر رواں دواں رہتے تھے۔ مگر سرحدوں پر کشیدگی کی وجہ سے اب یہ پاکستانی کشمیر سے گلگت بلتستان کی چراگاہوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں“
ناصر محمود کی تحقیق کے مطابق بڑی تعداد میں بکروال اپنا خاندانی کام اور خانہ بدوشوں کی زندگی چھوڑ کر مستقل رہائش اور دیگر پیشے اختیار کر رہے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ محکمہ جنگلات کا رویہ اور کچھ قوانین ہیں۔
صدیوں سے چلی آ رہی قدرتی گزرگاہوں پر سفر کرنے سے روکے جانے کے باعث ان کے جانوروں کی تعداد کم ہو رہی ہے، جس سے مجبور ہوکر بہت سارے لوگوں نے گلہ بانی چھوڑ دی ہے
ان کے مویشیوں کو چراگاہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کلائمنٹ چینج کے باعث یہ چراگاہیں دن بدن سکڑتی جارہی ہیں، جس کی وجہ سے یہ چرواہے اب پنجاب کے زمینداروں کے ہاں مزارع بننے پر بھی مجبور ہیں
ناصر محمود کہتے ہیں ”دیوسائی سے پوٹھوہار تک ان سے ٹیکس لیا جاتا ہے، جس کا آغاز استور سے ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں داخلے پر نیلم ڈویلپمنٹ بورڈ اور راولپنڈی کی حدود میں پنجاب کا فارسٹ ڈپارٹمنٹ ان سے فی بکری کے حساب سے چرائی (گریزنگ) ٹیکس لیتا ہے“
خانہ بدوش اور ماحولیاتی مسائل
ملک میں ماحولیاتی تبدیلیوں میں جنگلات کی کمی کو اہم وجہ سمجھا جاتا ہے۔ بکروالوں کے بارے محکمہ جنگلات کے حکام کا اعتراض ہے کہ یہ چھوٹے پودوں کو نقصان پہنچاتے ہیں
اس کے ساتھ ساتھ انہیں جنگلات والے علاقوں سے ہربل میڈیسن میں استعمال ہونے والی جڑی بوٹیوں کی اسمگلنگ کا مورد الزام بھی ٹھہرایا جاتا ہے
آل پاکستان گجر بکروال کے مرکزی چیئرمین حنیف پروانہ اس الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ”یہ لوگ تو جنگلات کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
ان کی گزرگاہوں سے خشک لکڑیاں اور پتے ان کے استعمال میں آنے کی وجہ سے آگ لگنے کا خطرہ کم ہو جاتا ہیں۔ اس کے علاوہ بکروالوں کے جانوروں کا گوبر جنگلات کے لیے قدرتی کھاد کا کام کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے نئے پودوں کی افزائش اور بڑھوتری میں مدد ملتی ہے“
ناصر محمود بھی حنیف پروانہ کے موقف سے متفق ہیں۔ ان کے خیال میں جنگلوں اور پہاڑوں پر بسیرا کرنے والے ان باشندوں کی ضروریات بہت محدود ہیں۔ نہ تو انہیں فرنیچر کے لیے لکڑی چاہیے اور نہ ہی یہ بجلی اور دیگر برقی آلات کا استعمال کرتے ہیں
ماحولیاتی توازن کو بگاڑنے والی مصنوعی کھادیں اور اسپرے بھی ان کے استعمال میں نہیں ہوتا، جس سے جنگلات اور پہاڑوں کے قدرتی ماحول کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو
”اگر ہمارے کچھ لوگ جڑی بوٹیوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کا کام کرتے ہیں تو اس کے اصل ذمہ دار وہ لوگ ہیں، جو جڑی بوٹیاں اکٹھی کر کے ان سے یہ کام کرواتے ہیں۔ ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے“
دوسری طرف گلگت بلتستان کے فارسٹ ڈپارٹمنٹ کے سابق چیف کنزرویٹر زمرد حسین ہربل میڈیسن میں استعمال ہونے والی جڑی بوٹیوں کی منتقلی میں خانہ بدوشوں کے ملوث ہونے کی بات کو درست قرار دیتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ بعض اوقات محکمہ جنگلات کے اہلکار بھی بکروالوں سے یہ کام لینے پر خاموش رہ کر اس میں مددگار کے طور پر شامل ہوتے ہیں
مردم شماری اور خانہ بدوش
بکروال محمد فاروق کہتے ہیں ”میرا شناختی کارڈ بنا ہوا ہے مگر ووٹر لسٹ میں نام شامل نہیں۔ نہ تو کشمیر میں اور نہ ہی پنجاب میں مجھے ووٹ دینے کا حق حاصل ہے“
جنگلوں اور پہاڑوں میں سفر کے دوران جنم لیتے اور موت سے ہم کنار ہونے والے بہت سے خانہ بدوشوں کی زندگی بغیر کسی شناخت کے گزر جاتی ہے
اس بارے میں ناصر محمود کا کہنا ہے کہ ان مسائل کی وجہ مردم شماری میں ان کو شمار نہ کرنا ہے۔ گزشتہ مردم شماری میں بکروالوں کو گننے کے لیے کوئی میکنزم موجود نہ تھا جس کی وجہ سے ان کی اصل تعداد اور دیگر ڈیموگرافک تفصیل معلوم ہی نہیں ہو پاتی۔
’یہ چیز آگے چل کر ان کی شناخت اور حقوق کے حصول پر اثرانداز ہوتی ہے۔‘
اس حوالے سے وفاقی ادارہ شماریات کے ترجمان عتیق الرحمان نے بتایا ”گزشتہ مردم شماری میں ایسے لوگوں کے لئے ’بے گھر‘ افراد کی کیٹیگری رکھی گئی تھی، جس کے تحت مردم شماری کے عملے نے کسی مخصوص دن کس خاص جگہ پائے جانے والے بے گھر افراد کو شمار کر کے ان کا اندراج کیا تھا“
تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ خانہ بدوش بکروال قبائل کا بے گھر افراد میں تعداد کے تناسب کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے اور نہ ہی ادارہ شماریات کے ہاں ان خانہ بدوشوں کو علیحدہ سے شمار کرنے کا کوئی انتظام موجود ہے
انہوں نے کہا ”آج تک بکروالوں کو مردم شماری میں شامل نہ کرنے کا سوال نہیں پوچھا گیا ہے۔ اگر ہمارے پاس اس حوالے سے کوئی تجویز آجائے تو اس کے فائدے مند ہونے کا جائزہ لے کر ہم بکروالوں کو مردم شماری میں شامل کرنی کی سفارشات تیار کر سکتے ہیں“
خانہ بدوشوں کے حقوق کی قانونی جنگ
دنیا بھر میں Indigenous People یا سودیشی افراد کے کلچر کے تحفظ کے قوانین موجود ہیں۔ ان افراد کے لیے اقوام متحدہ نے 2007ع میں خصوصی ڈیکلئیریشن جاری کیا۔ اسی مناسبت سے ہر سال 9 اگست کو سودیشی باشندوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے
پاکستان نے 2008 میں قدیم باشندوں کے حقوق کے تحفظ کے ڈیکلیریشن پر دستخط کیے۔ یونیسکو نے اپنی پالیسی میں سودیشی افراد کے طرز ثقافت، زبان اور قدیم گزرگاہوں کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات تجویز کیے ہیں
ماحولیات کے حوالے سے کام کرنے والے اسلام آباد کے وکیل قاضی غلام دستگیر ایڈوکیٹ نے خانہ بدوش افراد کے حوالے سے قومی پالیسی بنانے اور پنجاب میں محکمہ جنگلات کی طرف سے ان کے گریزنگ پرمٹ منسوخ کرنے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر رکھی ہے
وہ بتاتے ہیں ”ہماری کلائمیٹ پالیسیوں میں خانہ بدوشوں کے حقوق کے حوالے سے مکمل خاموشی ہے۔
راولپنڈی ڈویژن کے اضلاع چکوال، اٹک، جہلم اور گجرات کے کچھ علاقوں میں فارسٹ ڈیپارٹمنٹ نے بغیر کسی وجہ کے ان کے گریزنگ پرمٹ منسوخ کر دیے ہیں“
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ لوگ ان علاقوں میں تین ماہ قیام کرتے ہیں۔ جس کے لیے محکمہ جنگلات ان سے فی بکری بیس روپے ٹیکس لیتا ہے
اب محکمہ جنگلات کے اہلکار انہیں پرمٹ کے بغیر اپنی قدیم گزرگاہوں میں داخلے سے روک دیتے ہیں۔ مجبوراً انہیں اپنے مختصر قیام کے لیے رشوت دینی پڑتی ہے
ساری دنیا میں خانہ بدوشوں کے قدیم کلچر اور گزرگاہوں کو تحفظ دینے کے قوانین موجود ہیں۔ اسپین، ناروے اور اٹلی میں اس حوالے سے بہت حساسیت پائی جاتی ہے
اپنے جانوروں کے ساتھ سفر کرنے والے خانہ بدوشوں کو علاج معالجے، قدیم گزر گاہوں میں قیام و تحفظ کی خصوصی سہولیات حاصل ہیں
پاکستان میں انہیں برابر کا شہری قرار دلوانے کے لیے اقوام متحدہ کے ڈیکلئیریشن کو اختیار کرنے سے بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں
بظاہر شہروں سے دور اور الگ تھلگ زندگی بسر کرنے والے یہ باشندے اسکول، ہسپتال اور بجلی جیسی سہولیات استعمال نہیں کرتے۔ لیکن ملک کی معیشت میں ان کا قابل قدر حصہ ہے
پاکستان کی لائیوسٹاک انڈسٹری کی ضروریات کا بہت بڑا حصہ بکروال اپنے جانوروں سے پورا کرتے ہیں
اس کے علاوہ اون کی صنعت کو خام مال کا بہت بڑا حصہ ان کے ہاں سے آتا ہے
صدیوں سے مخصوص طرز بودوباش کے عادی اور مخصوص گزرگاہوں پر چلنے والے خانہ بدوش کب تک اپنے رسم و رواج اور پیشے سے جڑے رہیں گے۔ اس کے بارے میں تو حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ ان کے بچوں کے لیے قائم اسکولوں کے دائرہ کار اور وسائل میں اضافے سے ان کی اگلی نسلیں زیادہ باشعور اور بہتر زندگی کی حامل ہو سکتی ہیں۔