حکومت کے حق میں گانے سے انکار پر ایرانی طالبہ قتل

ویب ڈیسک

ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک اسکول کی طالبہ کو مبینہ طور پر اس کے کمرہ جماعت میں حکومت کے حق میں گانا گانے سے انکار کرنے پر قتل کر دیا گیا ہے

ایرانی ٹیچرز ٹریڈ ایسوسی ایشن کی رابطہ کار کونسل کے مطابق، سولہ سالہ اسرا پناہی کو 13 اکتوبر کو اردبیل میں شہید گرلز ہائی اسکول پر چھاپہ مارنے کے بعد سکیورٹی فورسز نے کئی ہم جماعتوں کے ساتھ مبینہ طور پر مارا پیٹا تھا

فورسز کے تشدد کا شکار ہونے والی کئی لڑکیوں کو ہسپتال لے جایا گیا اور کئی کو گرفتار کر لیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق اسرا پناہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئیں

دوسری جانب ایرانی ریاستی عہدیداروں نے اس واقعے کی ذمہ داری لینے سے انکار کیا ہے

اسرا پناہی کا چچا ہونے کا دعویٰ کرنے والا ایک شخص ان کی موت کے بعد غم و غصے کے لہر کے دوران ایران کے سرکاری ٹی وی پر نمودار ہوا اور یہ دعویٰ کیا کہ ان کی موت پیدائشی دل کی بیماری کے سبب ہوئی ہے

واضح رہے کہ مہسا امینی کی ہلاکت اور اس کے بعد احتجاج کے دوران بیسیوں ہلاکتوں کے بارے میں بھی سرکاری ٹی وی پر اسی طرح کے دعوے سامنے آئے تھے کہ ان تمام کی موت دل کے دورے یا کسی بیماری کی وجہ سے ہوئی

اگست میں ملک کی ’اخلاقی پولیس‘ کی حراست میں بائیس سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد حالیہ ہفتوں میں مظاہروں کا دائرہ پورے ایران میں پھیل گیا ہے۔ ان مظاہروں میں نوجوان خواتین اور لڑکیاں خاص طور پر حکومت کی مخالفت میں پیش پیش نظر آ رہی ہیں

مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن وحشیانہ رہا ہے، جس کے دوران اسکولوں پر چھاپے مارے گئے، گرفتاریاں کی گئیں، مار پیٹ اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ حتیٰ کہ اس کریک ڈاؤن کو ملک کی اساتذہ کی انجمن نے بھی ’سفاکانہ اور غیر انسانی‘ قرار دیا ہے

ایران میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپ کا کہنا ہے کہ مظاہروں اور ان کے نتیجے میں ہونے والے کریک ڈاؤن میں اب تک 215 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 27 بچے بھی شامل تھے

ایک اسکول کی طالبہ جن کی شناخت چھپاتے ہوئے، انہیں نازنین کا نام دیا گیا ہے نے دی گارڈین اخبار کو بتایا ”مجھے اسکول جانے کی اجازت نہیں دی گئی کیوں کہ میرے والدین کو میری جان کا خوف ہے لیکن اس میں کیا تبدیلی آئی ہے؟ حکومت اسکول کی طالبات کو قتل اور گرفتار کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگر میں صرف گھر میں ناراض بیٹھی رہوں تو مجھے کیا فائدہ؟ میں خود اور ایران بھر کے ساتھی طلبہ نے اس ہفتے سڑکوں پر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں یہ کروں گی، چاہے مجھے اب اسے اپنے والدین سے چھپانا ہی کیوں نہ پڑے“

ایک اور خاتون، جنہیں نرگس کا نام دیا گیا ہے نے دی گارڈین کو بتایا ”اسرا پناہی کی موت کے بعد احتجاج کے لیے جانے کے بعد انہیں ربڑ کی گولیوں سے مارا گیا تھا، اس کے علاوہ دو دیگر ایرانی اسکولوں کی طالبات، سترہ سالہ نیکا شاہکرامی اور سولہ سالہ سرینا اسماعیل زادہ کی موت ہوئی تھی“

نرگس نے کہا ”اردبیل میں میرا ایک بھی رشتہ دار نہیں ہے، لیکن ہماری سولہ سالہ بہنوں پر اس ظالمانہ کریک ڈاؤن سے انہوں نے پوری قوم کو جگا دیا ہے۔۔ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ پورے بلوچ اور کرد خطے میں ہم بہت متحد ہیں۔ دنیا نے نیکا کے سنا، سرینا اور اسرا کے بارے میں سنا لیکن کئی بے نام بچے ہیں، جن کے بارے میں ہمیں کچھ نہیں معلوم۔“

انہوں نے کہا ”اسلامی جمہوریہ ہمارے لوگوں کو چالیس سالوں سے قتل کر رہا ہے لیکن ہماری آواز نہیں سنی گئی۔ دنیا کو معلوم ہو جانا چاہیے کہ اب صرف احتجاج نہیں ہے، ہم انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ اب جب آپ سب ہماری آواز سن رہے ہیں تو ہم نہیں رکیں گے“

ایرانی خاتون کوہ پیما کو وضاحت کیوں دینی پڑی؟

ایران میں حکومت کے کریک ڈاؤن اور مظاہروں کی وجہ سے خوف کی فضا قائم ہے۔ اس خوف کی وجہ سے ایک ایرانی خاتون کھلاڑی کو اپنے اسکارف کے اتر جانے پر وضاحت پیش کرنی پڑی ہے

ایران کی خاتون کوہ پیما الناز رکابی نے منگل کو کہا ہے کہ جنوبی کوریا میں ہونے والے عالمی مقابلے میں شرکت کے دوران ان کا حجاب غلطی سے نیچے گر گیا تھا

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حجاب گرنے کے واقعے کے بعد بڑے پیمانے پر سمجھا گیا کہ انہوں نے ایران میں جاری مظاہروں کی حمایت کی ہے

وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایشیائی مقابلے میں ایران کی نمائندگی کرنے والی تینتیس سالہ الناز رکابی اپنے سر ڈھاپے بغیر دیوار پر چڑھ رہی ہیں

انسٹاگرام پر پوسٹ کیے گئے بیان میں الناز رکابی کا کہنا تھا کہ وہ ٹیم کی باقی ارکان کے ساتھ ایران واپس جا رہی ہیں۔ دوسری طرف بی بی سی فارسی نے باخبر ذرائع کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ رکابی کے دوست ان کے ساتھ رابطہ کرنے میں ناکام رہے ہیں

الناز رکابی نے انسٹا گرام پر پوسٹ کیے گئے بیان میں کہا ”سیؤل میں مقابلے کے دوران سر نہ ڈھانپنے میں ان کا ارادہ شامل نہیں تھا۔ مقابلے کے شیڈول میں کمزوریاں تھیں اور دیوار پر چڑھنے کے لیے اچانک میرا نام پکارا گیا“

دوسری طرف جنوبی کوریا میں ایران کے سفارت خانے نے مقابلے کے بعد ایرانی اتھلیٹ کے لاپتہ ہو جانے کی ٹوئٹر پر تردید کی ہے

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ایران سے باہر فارسی زبان کے میڈیا نے خبردار کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ایرانی حکام نے الناز رکابی کو قبل از وقت جنوبی کوریا سے جانے پر مجبور کیا ہو اور ممکن ہے کہ انہیں ایران واپس پہنچنے پر گرفتار کر لیا جائے۔ ایران نے اس بات کی فوری طور پر تردید کی ہے

رکابی راک کلائمبنگ کے مقابلوں میں کئی تمغے جیت چکی ہیں۔ انہوں نے حجاب کے بغیر دیوار پر چڑھنے کا فیصلہ ایسے وقت کیا جب 16 ستمبر کو مہسا امینی کی موت کے بعد ایران میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close