ایران: اسکول میں گھس کر گرفتاریاں ’مرنے والے 185 افراد میں 19 بچے بھی شامل‘

ویب ڈیسک

ایران میں سکیورٹی فورسز نے اسکول میں گھس کر طلبہ کو گرفتار کیا ہے، جبکہ انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ اب تک پرتشدد احتجاج میں ہلاک ہونے 185 افراد میں 19 بچے بھی شامل ہیں

عرب نیوز نے برطانوی اخبار گارڈین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں کی ایسی تصاویر سامنے آئی ہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑیوں میں اسکول پہنچے

گارڈین کے مطابق ایران کے وزیرِ تعلیم محمد مہدی کاظم کا کہنا ہے کہ ’مظاہروں میں شامل طلبہ کو اسکولوں سے نہیں نکالا گیا، تاہم ان کے والدین سے رابطے کیے جا رہے ہیں۔‘

جبکہ شعبہ تعلیم کے حکام نے کردستان میں تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا اعلان بھی کیا ہے

دوسری جانب خبر رساں ادارے روئٹرز نے انسانی حقوق کے گروپ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ مہسا امینی کی ایرانی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے احتجاج کی لہر کے سلسلے میں اتوار کو بھی مختلف شہروں میں شدید احتجاج دیکھنے میں آیا

احتجاج کی یہ لہر حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو رہی ہے، اور اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو ہٹانے کے مطالبات بھی ہو رہے ہیں

اس طرح اسلامی جمہوریہ ایران میں گزشتہ کئی ہفتوں سے جو عوامی مظاہرے جاری ہیں، وہ اب کافی حد تک موجودہ سیاسی نظام اور حکمرانوں کے خلاف احتجاج کی شکل اختیار کر چکے ہیں

دوسری جانب ناروے کے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ کا کہنا ہے کہ ’اب تک ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے احتجاج میں 185 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں 19 بچے بھی شامل ہیں۔ ان میں سے تقریباً آدھی ہلاکتیں صوبہ سیستان اور بلوچستان میں ہوئی ہیں۔‘

جبکہ عالمی ذرائع ابلاغ کا ایران میں موجود ذرائع یا بیرون ملک مقیم جلاوطن ایرانی باشندوں کی تنظیموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا ہے کہ چوتھے ہفتے میں داخل ہو چکے ان مظاہروں میں اب تک تقریباﹰ 200 تک افراد مارے جا چکے ہیں

سماجی تنظیم تصویر 1500 نے ٹوئٹر پر ایک ایسی وڈیو شیئر کی ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سکیورٹی اہلکار تہران کے ہائی اسکول پر حملہ آور ہو رہے ہیں

اسی طرح ایک اور ویڈیو میں ایک شخص زور سے چلا کر پولیس اہلکاروں کو کہتا ہے کہ ’میری بیوی کو مت مارو، وہ حاملہ ہے۔ اس ویڈیو کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ رفسنجان شہر کی ہے۔‘

مملکت نامی اکاؤنٹ، جو ڈیڑھ لاکھ سے زائد فالوور رکھتا ہے سے شیئر ہونے والی وڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ بندر عباس شہر میں سکیورٹی اہلکار درجنوں سکول کی طالبات کا پیچھا کر رہے ہیں

اسی طرح کچھ پوسٹس میں بتایا گیا ہے کہ ہڑتال کی کال کے بعد کئی شہروں میں دکانیں اور کاروبار بند رہے

نیم سرکاری نیوز ایجنسی تسنیم کا کہنا ہے کہ نائب وزیر داخلہ نے خبردار کیا ہے کہ مظاہروں میں شامل افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی

ایران میں ان مظاہروں کے دوران ملک کے مخلتف حصوں میں گلیوں اور سڑکوں پر پرتشدد واقعات میں اب تک درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں۔ ان میں عام مظاہرین بھی شامل تھے اور ملکی سکیورٹی اداروں کے ارکان بھی

سرکاری خبر رساں ادارے اِرنا نے اتوار کے روز بتایا کہ گزشتہ شب جو مزید دو سکیورٹی اہلکار ان مظاہروں کے دوران مارے گئے، ان میں سے ایک بسیج فورس کا رکن تھا، جو ہفتے کی رات انتقال کر گیا

واضح رہے کہ بسیج فورس ایران کی پاسداران انقلاب نامی کور سے تعلق رکھنے والی ایک نیم فوجی ملیشیا ہے۔ خود پاسداران انقلاب کا تعلق بھی ایرانی مسلح افواج سے ہے، اور اس کور کو ایران فوج کا نظریاتی بازو سمجھا جاتا ہے

سوشل میڈیا پلیٹ فارم بھی ایرانی فورسز کے مظالم کی پردہ پوشی کرنے لگے

ایرانی فورسز انتہائی سختی سے نمٹنے کے باوجود مظاہروں کے اس سلسلے کو کچلنے میں تاحال ناکام رہی ہیں۔ فورسز کی جانب سے کیے گئے تشدد کی وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں، خاص طور پر انسٹاگرام پر، جو ایران میں بہت زیادہ صارفین استعمال کرتے ہیں

ایران میں یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ان آخری پلیٹ فارمز میں سے ایک تھا جو عوامی طور پر قابل رسائی تھا۔ ایرانی حکومت دیگر کئی پلیٹ فارمز پر پابندی بھی عائد کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ موبائل انٹرنیٹ کا سلسلہ بھی کئی بار مسلسل کئی کئی گھنٹوں کے لیے معطل کیا جا چکا ہے

ایرانی حکومت کی طرف سے انٹرنیٹ تک رسائی روکنے کے واقعات کے دوران کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خود اپنے طور پر بھی سنسر شپ میں مصروف ہیں۔ اپوزیشن ایکٹیوسٹ، گروپوں اور میڈیا اداروں کا کہنا ہے کہ انسٹاگرام نے بعض ہیش ٹیگز، وڈیوز اور پوسٹس ہٹا دیں

مختلف حلقوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی طرف سے ایرانی فورسز کے مظالم کی پردہ پوشی پر حیرت کا اظہار کیا ہے

اپنی ایک ٹوئٹ میں ایرانی نژاد برطانوی اداکارہ اور ایکٹیوسٹ نازنین بنیادی نے سوال اٹھایا کہ فیسبُک کی مالک کمپنی میٹا نے، جو انسٹاگرام کی بھی مالک ہے، احتجاج سے متعلق اتنی زیادہ پوسٹس کیوں ہٹا دی ہیں

ایرانی نژاد امریکی صحافی سامان اربابی نے بھی میٹا پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے حال ہی میں ایسی وڈیوز ہٹا دی ہیں، جن میں مظاہرین ایرانی رہنما کے لیے موت کی تمنا کر رہے تھے

ٹوئٹر پر انہوں نے لکھا کہ یہ کمپنی احتجاجی بینرز اور نعروں کی نسبت آمروں کے لیے زیادہ احترام رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ویڈیو جو 33 لاکھ بار دیکھی جا چکی تھی، اسے بھی ہٹا دیا گیا ہے

ایران سے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے والے افراد کی طرف سے چلائے جانے والے ٹیلی وژن مانوٹو، اور ڈاکومنٹری نیٹ ورک 1500 تصویر نے بھی پوسٹس ڈیلیٹ کرنے کے بارے میں رپورٹ کیا ہے

بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں قائم فرائیے یونیورسٹی سے منسلک میڈیا اور کمیونیکیشن ریسرچر مارکوس میشائلسن کا اس حوالے سے کہنا ہے ”میں نے بھی اس چیز کا مشاہدہ اور تجربہ کیا ہے۔ وہ اور ان کے ایک ایرانی ساتھی اس طرح کے معاملات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ایسی پوسٹس کو محفوظ کر رہے ہیں، جنہیں ڈیلیٹ کیا جا رہا ہے، جبکہ اس طرح کا دوسرا مواد بدستور آن لائن موجود ہے۔“

میشائلسن کے مطابق، ”اس بات کی وضاحت کرنا مشکل ہے کہ کیوں (میٹا کی) گائیڈ لائنز پر بہت سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ میرے پاس اس کی وضاحت تو نہیں ہے مگر صورتحال یہی ہے‘‘

دوسری جانب میٹا کی طرف سے جرمنی کے پبلک ریڈیو اسٹیشن BR کو بتایا گیا کہ مانوٹو ٹی وی پر لگائی گئی پابندیوں کا مقصد ‘سپیم‘ کو روکنے کی کوشش تھی، جنہیں اب ہٹا دیا گیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close