برطانوی دور میں جب برصغیر کی تقسیم کی بات چلی تو ابتدا میں یہ الجھن سبھی کو درپیش تھی کہ صدیوں سے ساتھ رہنے والے ایک ملک کے باشندے اسی سرزمین پر الگ الگ کیسے رہیں گے
اگرچہ واضح مذہبی اختلافات آئے روز شدید ہو رہے تھے اور ان اختلافات کی بنیاد پر تصادم بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی لیکن پھر بھی اس معاشرے کی بہت سی مشترکہ اقدار مختلف قومیتوں کو ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے تھیں
یہی وجہ تھی کہ جب مسلم لیگ کے رہنماؤں نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک کا نظریہ پیش کیا تو اس وقت بھی ایک دوسرے سے کٹ کے رہنے کی بجائے محض جداگانہ اور اپنے اپنے مذہبی عقائد کی بنیاد پر آزاد زندگی گزارنے کا تصور تھا، جہاں پر ہر مذہب اور قوم کو اختیار اور ترقی کے مواقع میسر ہوں۔
یہاں تک کہ کئی کتابوں اور مضامین میں دیے گئے حوالوں کے مطابق قائداعظم محمد علی جناح کے ذہن میں بھی ایک خیال تھا کہ قیام پاکستان کے بعد کی زندگی کا ایک حصہ وہ اپنی ممبئی (اس وقت بمبئے) والی رہائش گاہ میں گزاریں گے
اسی لیے تقسیم کے موقع پر ہونے والے بلووں اور فسادات کے باوجود دونوں ملکوں کے شہریوں کا ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا لگا رہا اور اس کے کئی برس بعد تک ایک سے دوسری ریاست میں شہریوں کی آمدورفت میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں تھی
پاسپورٹ اور ویزا نظام کا اجرا کب ہوا؟
مورخ عقیل عباس جعفری کی کتاب ’پاکستان کرونیکل‘ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے مابین پاسپورٹ اور ویزے کا نظام 18 اکتوبر 1952 کو نافذ ہوا تھا لیکن شہریوں کے مابین آزادانہ آمدورفت کئی سال بعد تک جاری رہی
عقیل عباس جعفری بتاتے ہیں ”آزادی کے ابتدائی سالوں میں جب دونوں طرف سے ہجرت کا عمل کسی حد تک مکمل ہو گیا، تو اس کے بعد بھی لوگوں کا سرحد کے دونوں طرف آنا جانا جاری رہا اور دونوں حکومتوں نے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی“
کالم نگار، مصنف اور سماجی و ثقافتی مبصر ندیم فاروق پراچہ ایک مضمون میں لکھتے ہیں ”1965ع کی جنگ تک دونوں ملکوں کے شہری بآسانی ایک دوسرے کا بارڈر کراس کر جاتے تھے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی، تاہم اس لڑائی کے بعد دونوں اطراف کی حکومتوں نے پابندیاں لگانا شروع کیں، جو آہستہ آہستہ بہت سخت ہو گئیں“
بھارت اور پاکستان کا مشترکہ پاسپورٹ
ندیم فاروق پراچہ بتاتے ہیں ”باضابطہ پاسپورٹ اور ویزا نظام کے اجرا سے قبل دونوں ممالک نے ایک مشترکہ پاسپورٹ بھی جاری کیا تھا، جس کے ذریعے دونوں میں سے کسی ریاست کا بھی شہری ایک سے دوسرے خطے میں بآسانی جا سکتا تھا“
ندیم پراچہ کے مطابق ”تقسیم کے وقت جب ایک سے دوسرے علاقے میں ہجرت شروع ہوئی تو اس سے پہلے ہی دونوں اطراف کی انتظامیہ میں یہ بات طے پا گئی تھی کہ شہریوں کی نقل و حمل میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی، اور یہ نقل و حمل بعد میں کئی سالوں تک بغیر کسی دستاویز کے جاری رہی۔ تقسیم کے کچھ عرصے بعد دونوں ممالک نے انتظامی وجوہات کی بنیاد پر شہریوں کو دوسرے ملک آنے جانے کے لیے پرمٹ جاری کرنا شروع کیے اور بعد ازاں پاسپورٹ پر ویزا آن ارائیول کی سہولت دی گئی، جو کہ کئی دہائیوں تک چلتی رہی۔ جب کہ 1950-60 کی دہائی میں مشترکہ پاسپورٹ کا نظا م بھی کارآمد رہا“
عقیل عباس جعفری کہتے ہیں ”جداگانہ پاسپورٹ اور ویزے کے نظام کے نفاذ کے بعد شہریوں کی آمدورفت کچھ ریگولرائز تو ہوئی لیکن یہ اکیسویں صدی کے آغاز تک کسی نہ کسی صورت جاری رہی۔ لوگوں کا ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا شادی بیاہ اور رسوم و رواج، میلوں ٹھیلوں سے منسلک تھا۔ لوگ مختلف موسموں اور تہواروں پر ایک سے دوسرے ملک باقاعدہ اہتمام کر کے جاتے اور خریداری کے لیے بھی آتے جاتے“
ماہِ محرم میں بھارت جانے کا رواج
عقیل عباس جعفری بتاتے ہیں ”کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان کے بہت سے خاندان باقاعدہ محرم کی تقریبات کے لیے بھارت جاتے تھے کیونکہ ان کے آبائی علاقوں میں محرم کی تقریبات کو ایک ثقافتی حیثیت حاصل تھی اور وہاں جا کر رسومات میں شرکت سے لوگوں کی جذباتی وابستگی تھی۔ جبکہ بھارت سے بہت سے خاندان انفرادی اور اجتماعی طور پر پاکستان باقاعدہ رہنے کے لیے آتے تھے“
اسی طرح بک فیئرز، ادبی تقریبات اور عرس وغیرہ پر بھی آمدورفت کا تبادلہ باقاعدگی سے ہوتا تھا۔ تاہم سال 2000ع کے بعد سے اور بالخصوص بی جے پی کی نریندر مودی حکومت کے قیام کے بعد دونوں ملکوں میں تعلقات اس نوعیت پر پہنچ گئے کہ اب یہ آنا جانا ممکن نہیں رہا
ندیم پراچہ کہتے ہیں ”1973 تک بہت زیادہ آمدورفت اس لیے بھی بغیر دستاویزات کے ہوتی تھی کیونکہ اس وقت تک دونوں ملکوں بالخصوص پاکستان کے بیشتر شہریوں کے پاس پاسپورٹ ہوتے ہی نہیں تھے، اور اس بنا پر انہیں بارڈر پار آنے جانے سے نہیں روکا جاتا تھا۔
تاہم ان کا خیال ہے کہ اب دونوں ملکوں میں معمول کی آمدورفت کی بحالی بہت مشکل ہے“