لیسوتھو کے غار میں رہنے والے آخری باسی، جو اپنے کلچر کے تحفظ کے لیے یہیں رہنا چاہتے ہیں۔۔

ویب ڈیسک

جنوبی افریقی مملکت لیسوتھو کے اندر ایک چٹانی پہاڑ کے اندر ایک مدھم روشنی والی مٹی کی رہائش گاہ کے اندر، سڑسٹھ سالہ ماموٹونوسی تیفانے جانوروں کی کھال سے دھول اور مٹی جھاڑ رہی ہیں

ماموٹونوسی تیفانے کا کنبہ ان مٹھی بھر گھرانوں میں شامل ہے، جو ملک کے شمال میں واقع کومے غاروں میں بھی آباد ہیں۔ ان مقامی قبائل نے تقریباً دو سو سال پہلے جنگوں اور آدم خوروں سے بچنے کے لیے یہاں پناہ لی تھی

یہ لوگ آج کے جدید دور میں بھی غاروں میں رہنا پسند کرتے ہیں، جہاں ان کے آباؤ اجداد تقریباً دو سو سال پہلے آباد ہوئے تھے

گلے میں مالا پہنے تیفانے بتاتی ہیں ”زندگی پیاری ہے، ہم اپنی ذاتی سبزیاں تیار کرتے ہیں۔۔ میں، جب بھی ضرورت ہو، دعا کر سکتی ہوں“

سطح سمندر سے اٹھارہ سو میٹر کی بلندی اور دارالحکومت مسیرو سے لگ بھگ پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر، یہ بستی بنجر چراگاہوں سے گھری ہوئی ہے۔ جہاں اون کے لمبے کمبلوں میں لپٹے چرواہے صبح کی دھند میں مویشیوں کو چراتے ہیں۔ اور دور سے مویشیوں کے گلے میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی آواز سنائی دیتی ہے

افریقی ملک لیسوتھو میں واقع ان غاروں تک پہنچنے کے لیے سڑکوں، آبادی کے لیے پانی اور صحت کی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے

غاروں کے باہر سے ہلکا سفید دھواں اڑتا دکھائی دیتا ہے، معیاری مکئی کا دلیہ ’پاپا‘ تیار ہو رہا ہے، جو لکڑی کی چمنی کے اوپر سیاہ لوہے کے برتن میں ابل رہا ہے

یہ غار بیسالٹ چٹان کی طرف کئی گول گھروں میں تقسیم ہے

کسی شخص کے گزرنے کے لیے کافی اونچے کھلے راستے دروازے کے طور پر کام کرتے ہیں۔ دیواریں اور فرش مٹی اور کھاد کے آمیزے سے بنے ہوتے ہیں جن کی باقاعدہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے

اندر برتنوں کے ساتھ کچھ ضرورت کی اشیاء ہیں، جن میں برتن، پانی ذخیرہ کرنے کے لیے پلاسٹک کی بالٹیاں اور بستر کے لیے گائے کی چادر ہے

یہاں بسنے والے چوالیس سالہ کابیلو کومے، جو غاروں کو آباد کرنے والے پہلے لوگوں کی اولاد ہیں، جن کے نام پر اس جگہ کا نام رکھا گیا ہے، کہتے ہیں ’’یہاں بجلی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فریج تاہم یہ ہمارا مسکن ہے، یہ ہمارا تاریخی ماضی ہے“

وہ بتاتے ہیں ”یہاں موبائل فون کی کوریج ہے، لیکن کوئی مقررہ انٹرنیٹ یا بہتا ہوا پانی نہیں“

یہ غاریں مٹی کے مکانات ہیں، جو اصل میں اٹھارہویں صدی کی لفاقانے جنگوں کے دوران بسیا اور بٹاؤنگ قبیلے کے لیے پناہ گاہ کے طور پر کام کرتی تھیں۔ پھر ان قبائل نے ان غاروں کو اپنا مستقبل ٹھکانا بنا لیا

اس وقت علاقے کا سفر کرنے والے عیسائی مشنریوں نے اطلاع دی تھی کہ کچھ گروہوں نے زندہ رہنے کے لیے آدم خوری کا سہارا لیا، کیونکہ مویشیوں اور اناج کے ذخائر کم ہو رہے تھے

اسی وقفے پر لیسوتھو ایک واحد وجود کے طور پر ابھرا، کیونکہ سوتھو، علاقے کا سب سے بڑا نسلی گروہ، زولو حملہ آوروں اور یورپی آباد کاروں کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہوا

اس وقت، ملک کے بیس لاکھ افراد میں سے بہت سے لوگ کھیتی باڑی سے گزر بسر کرتے ہیں

کومے غاروں کے باشندے مکئی، جوار اور پھلیاں اگاتے ہیں اور مرغیاں اور مویشی پالتے ہیں

عمر رسیدہ افراد کو ریاستی الاؤنس ملتا ہے، جب کہ دوسرے یہاں کے لوگ چھٹیوں میں یہاں گھومنے آنے والوں اور سیاحوں کو اپنے گھر دکھا کر کچھ رقم کماتے ہیں

چھیاسٹھ سالہ سابق استاد، مماتاسینگ کھتسوانے جیسے کچھ لوگ ایک قریبی گاؤں میں منتقل ہو گئے ہیں، جہاں نسبتاً بنیادی سہولیات موجود ہیں

وہ کہتی ہیں، ’’میں یہاں کھانے کے لیے، یا اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ آتی ہوں“

قديم غار کی یہ بوڑھی مکین کہتی ہیں ”ہمارا ایک بڑا مسئلہ پانی کی عدم دستیابی ہے۔ ہمیں پانی لینے کے لیے بہت دور جانا پڑتا ہے۔ اور وہاں پانی حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے،خاص طور پر ان لوگوں کے لیے، جو اب بوڑھے ہو چکے ہیں“

تاہم ان تمام مسائل اور مشکلات کے باوجود افریقی ملک لیسوتھو کے غاروں کے ان مکینوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے قدیم کلچر کے تحفظ کے لیے یہیں رہنا چاہتے ہیں

نوجوان تھابو مارابے کہتے ہیں ”ہم یہاں رہ رہے ہیں باستھو کے لوگوں اور اپنی ثقافت کو برقرار، محفوظ رکھنے کے لیے۔۔ اور یہ بھی کہ ہمیں اپنے آباؤ اجداد کو نہیں بھولنا چاہیے، جب تک ہم وہاں موجود ہیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close