ترک نژاد طبی سائنسدانوں اوگور شاہین اور ان کی اہلیہ اوزلم تورجی کا کہنا ہے کہ دنیا چند سال کے اندر موذی بیماری کینسر کے خلاف ویکسین کی ایجاد سے مستفید ہو سکے گی
اپنے ایک تازہ ترین انٹرویو میں دونوں سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ کینسر کے خلیوں کو تباہ کرنے میں مدد کے لیے کووڈ ویکسین ایم آر این اے کی ٹیکنالوجی کو دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس طریقہ کار سے تیار کی جانے والی ویکسین دنیا بھر کے کینسر کے مریضوں کے علاج کو ممکن بنا سکتی ہے
یاد رہے کہ اوگور شاہین اور ان کی اہلیہ اوزلم تورجی نے جرمن ادویات ساز کمپنی بائیو این ٹیک اور کمپنی فائزر کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کے خلاف انقلابی کووڈ ویکسین mRNA تیار کی تھی،
ان کا کہنا ہے ”ہم نے ایسے کامیاب تجربے کیے ہیں، جن کے نتائج سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ آنے والے سالوں میں کینسر کے خلاف بھی مؤثر ویکسین تیار ہو جائے گی۔“
اپنے حالیہ انٹرویو میں پروفیسر اوزلم تورجی نے بتایا کہ بائیو این ٹیک کی کووڈ ویکسین کی ایجاد کے دوران یہ امر سامنے آیا کہ ویکسین mRNA کی ٹیکنالوجی کو دوبارہ استعمال کر کے کینسر کے خلاف ویکسین تیار کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ مذکورہ ویکسین سے کیے گئے تجربے کے دوران مدافعتی نظام کی مدد سے کورونا وائرس کے بجائے کینسر کے خلیوں پر حملہ کرنے کی صلاحیت پائی گئی
اس سوال کے جواب میں کہ ایم آر این اے پر مشتمل کینسر کی ویکسین کب تک استعمال کے لیے تیار ہو سکے گی؟ پروفیسر شاہین نے کہا ”2030ع سے پہلے‘‘
پروفیسر اوگوار شاہین نے اس بارے میں مزید کہا ”کینسر کا علاج یا کینسر کے مریضوں کی زندگیوں کو بدلنا اب ہماری گرفت میں ہے۔ کینسر کے خلاف یہ ویکسین 2030ع سے پہلے وسیع پیمانے پر تیار ہو سکتی ہے“
ترک نژاد اس جوڑے نے 2008ع میں بائیو این ٹیک کی بنیاد رکھی تھی۔ ان کا بنیادی مقصد دراصل کینسر کے خلاف انفرادی کینسر امیون تھراپی کے علاج کی ایجاد تھا۔ تاہم جب کورونا کی عالمی وبا پھیلی تو انہوں نے اس ٹیکنالوجی کو اپنایا تاکہ پہلی مؤثر کووڈ-19 ویکسین تیار کی جا سکے
جرمن دواساز کمپنی بائیون ٹیک کے لیے کام کرنے والے سائنسدان امید کرتے ہیں کہ اس طرح آنتوں کے کینسر، میلانوما یا سیاہ رسولی اور سرطان کی دیگر اقسام کا علاج ممکن ہو گا۔ کینسر کے خلیات جو ٹیومر یا رسولی بناتے ہیں، ان میں مختلف قسم کے پروٹین کو بھرا جاتا ہے، اس وجہ سے کسی ایک ایسی ویکسین کو تیار کرنا انتہائی مشکل عمل ہے جو کینسر کے تمام خلیوں کو تو نشانہ بنائے مگر صحت مند ٹشوز کو نقصان نہ پہنچائے۔