آٹے کا تھیلا، برقعہ، یوم خوراک اور پریس کلب

شہناز احد

سیاہ رنگ بوسیدگی کا شکار ہوکے جتنا برا لگ سکتا ہے، اس نے اتنا ہی برا سیاہ رنگ کا برقعہ پہنا ہوا تھا۔ ٹخنوں سے اونچی ملگجی شلوار اور ربڑ کی گھسی ہوئی چپل اس کے شب و روز کی کہانی بنا پوچھے کہہ رہی تھی۔ چال میں ایک عجیب قسم کی لڑکھڑاہٹ کے ساتھ کاندھے پر سبز رنگ کا تھیلا رکھے جھینپی جھینپی مسکراہٹ کے ساتھ سڑک پار کر کے میرے اور مہناز کے پاس آتے ہوئے اس نے پوچھا ”آپ لوگ کس خوراک کی بات کر رہے ہو؟“

ہمارا جواب یقیناً اس کے کہیں اوپر سے گزر گیا تھا۔ جب ہی مسکراتے ہوئے کہنے لگی ”میں سمجھی آپ لوگ کچھ دے رہے ہو۔۔“

کاندھے پر رکھے اس کے تھیلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے پوچھا اس میں کیا ہے؟ اس کا جواب مجھے اور مہہ ناز کو چند لمحوں کے لئے گنگ کر گیا کہ وہ بلدیہ ٹاؤن سے ڈیڑھ سو روپے خرچ کر کے ”سستے آٹے کا تھیلا لینے آئی تھی“

”کہاں مل رہا ہے؟“ میرے دوبارہ سوال کرنے پر اس نے سڑک کی دوسری جانب کراچی پریس کلب گیٹ کے ساتھ کھڑے ٹرک کی اشارہ کرتے ہوئے سستے آٹے کی نشاندہی کی، ٹرک آدھا خالی ہو چکا تھا

میں نے اور مہناز نے کھڑے کھڑے حساب لگایا کہ اب مزید ڈیڑھ سو روپے خرچ کر کے جب یہ گھر پہنچے گی تو دس کلو آٹے کی قیمت 950 روپے ہوگی۔ برابر میں کھڑے ایک صاحب نے لقمہ دیا کہ بازار میں دس کلو آٹا 1250 روپے کا ہے

ہم دونوں سڑک پے کھڑے تبصرہ کرتے رہے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک عورت دس کلو آٹے کے حصول کے لئے، جو کہ اسے قیمتاً مل رہا ہو، شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں آئے۔ اس ٹرک کو تو کھڑا ہی کم قوت خرید والے علاقے میں ہونا چاہیے۔ پریس کلب کے آگے کھڑا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

آج کے صحافی تو سب پیٹ بھر ہیں

گزری کل کو پوری دنیا نے اپنے اپنے اوقات کار کے حساب سے ”خوراک کے دن“ کے طور پر منایا۔ دنیا نے اس حوالے سے اعداد و شمار کے ساتھ ہر قسم کی گفتگو کرتے ہوئے آنے والے دنوں اور سالوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے بتایا کہ دنیا قحط سالی کی طرف جا رہی ہے۔ اگر ہم نے آج منہ میں نوالہ رکھتے ہوئے کل کے نوالے کے بارے میں نہیں سوچا تو کرہ ارض کی ترقی پذیر اقوام شدید بھوک، افلاس اور غذائی قلت کا شکار ہوں گی

دنیا نے اس موقع پر خوراک سے جڑے مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے کم خوراکی کی شکار نسلوں کے بارے میں بھی گفتگو کی کہ مستقبل بہرحال ان ہی کم خوراکی کے شکار بچوں کے ہاتھ میں ہوگا

جب کہ ادھر ہم سب کے پاکستان میں حکومتی ایوانوں، راہ داریوں، سیڑھیوں، گزرگاہوں میں بیٹھے کھڑے، سوئے جاگے، چلتے پھرتے کل سارا دن بغلیں بجاتے رہے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کو شش کرتے رہے

چند اخبارات نے چھوٹے موٹے ضمیمہ شائع کیے اور سرکاری افسران نے فائلوں کا پیٹ بھرنے کے لئے پھپھوند لگے بیانات جاری کیے

سرکار میں سے کسی نے بھی نہ آج کی بات کی، نہ آنے والے دنوں کی

کراچی پریس کلب کے باہر جہاں ایک جانب سستے آٹے کا ٹرک کھڑا تھا، اس کے سامنے ہی سڑک پر دوسری جانب ”فشر فوک فورم“ کی جانب سے عالمی یوم خوراک کی ساٹھ، ستر افراد پر مشتمل ریلی بینرز اور پلے کارڈ کے ساتھ نعرے لگا رہی تھی

میں اور مہناز اسی ریلی کے شرکا میں سے تھے اور سڑک پر کھڑے ایسا لگ رہا تھا کہ اس ڈھائی کروڑ آبادی والے شہر میں خوراک اور اس سے جڑے دیگر مسائل صرف اور صرف ان ہی ساٹھ ستر لوگوں کے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ریلی کا وقت پورا ہو گیا اور سب نے گھروں کے رخ کو چلنا شروع کر دیا

ہم دونوں نے ٹرک کے پاس سے گزرتے ہوئے نوٹ گنتے موٹے پیٹ والے سے پوچھا ”یہ ٹرک کس کا ہے؟“ ہاتھ میں پکڑے نوٹوں کو پسینے میں بھیگی قمیض کے اندرونی حصے میں ٹھونستے اور سیاہ دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے اس کا جواب تھا ”حکومتِ سندھ“

عادت سے مجبور میں نے ترنت مشورہ دیا کہ ”یہاں کیوں کھڑے ہو، جن علاقوں میں ضرورت ہے وہاں جاؤ۔“ دانتوں کی دوبارہ نمائش کے ساتھ جواب آیا ”جہاں کا حکم ملتا ہے، وہیں کھڑے ہوتے ہیں“

پیدل چلتے، موٹر سائیکل سوار، چلتی بس سے چھلانگ لگا کر اترنے والے چھ سو پچاس روپے آٹے کا تھیلا مالِ غنیمت کی طرح خرید رہے تھے اور سیاہ دانتوں، موٹے پیٹ والے کو نوٹ تھما رہے تھے

میرے برابر رکی موٹر سائیکل سے اترنے والی عورت آٹے کا تھیلا پکڑنے کی کوشش میں بار بار ادھر سے ادھر ڈول رہی تھی، موٹر سائیکل پر بیٹھا اس کا شوہر مختلف جیبوں سے پسینے میں بھیگے چرمر نوٹ نکال کے مطلوبہ رقم پوری کرنے کی تگ و دو میں مصروف تھا کہ میری نظر مرد کے قدموں تک چلی گئی۔ بوسیدہ چپل اور گرد کی تہوں میں بے تحاشا بڑھے ناخنوں والے پاؤں اس کے شب روز کی کہانی سنا رہے تھے۔ جب کہ موٹر سائیکل پر میاں بیوی کے درمیان آدھے ادھورے کپڑوں میں ملبوس ان کے بچے ایک عجب طرح کی خوشی سے نہال تھے

عجب طرح کی خوشی سے نہال بچوں کے چہروں کو تصور میں مخاطب کرتے ہوئے میں نے خود سے کہا شاید یہ اسی 82 کروڑ کا حصہ ہیں، جو ہر رات بھوکے سوتے ہیں یا پھر ان 34 کروڑ کا ایک عدد جو شدید غذائی قلت کا شکار ہیں

اقوام متحدہ نے عالمی یوم خوراک کے حوالے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں، ان میں یہ بھی بتایا ہے کہ ساؤ پولو میں بھوک سے نجات کے لئے اشرف المخلوق نامی شے جانوروں کی ضائع شدہ کھال اور ہڈیوں سے بھوک کا پیٹ بھر رہی ہے

جب کے پڑوسی ملک بھارت کے علاقے ”ارولا“ میں یہ ہی اشرف المخلوق گھروں اور کھیتوں میں پائے جانے والے چوہوں کا بھوجن کر رہی ہے

کل کے دن کے حوالے سے دنیا میں بھوک، خوراک کی کمی، بڑھتی آبادی، وسائل کی کمی، بگڑتی ہوئی عالمی معیشت، موسمی اثرات، جنگ، بڑی اقوام، چھوٹی اقوام، بڑی مچھلی، چھوٹی مچھلی اس طرح کی بہت باتیں ہوئیں اور آئندہ چند دن تک ہوتی رہیں گی

میرا یہ سوال پھر بھی اپنی جگہ کھڑا ہے کہ سستے آٹے کے ٹرک چھوٹی بستیوں یا کم آمدنی والے علاقوں میں کیوں نہیں کھڑے ہوتے؟

پریس کلب کے دروازے پر ان کا کیا کام ہے؟

بشکریہ: ہم سب

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close