ٹین کے آدمی (افسانہ)

آغا گل

پروفیسر آرنلڈ کو ایک زمانہ جانتا تھا۔ وہ ایک مخبوط الحواس امریکی پروفیسر تھا۔ بہت دن انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں پڑھاتا رہا۔ پھر انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار چلا آیا۔ امریکہ سے اس کی پنشن ماہ بہ ماہ اس کے بینک اکاﺅنٹ میں جمع بھی ہو جایا کرتی۔ اس کے دادا کے زمانے میں 1919ع میں ایک ہندوستانی روپیہ چار امریکی ڈالرز کے مساوی تھا جبکہ اب ایک ڈالر کے ایک سو آٹھ روپیہ آتے۔ آرنلڈ کا ہر ڈالر فوراً ایک سو آٹھ روپے میں تبدیل ہوجایا کرتا تھا۔ وہ پکا پکا دانشور۔ اسے علم پھیلانے کے سوا کوئی دھن نہ تھی اور نہ ہی اسے کسی قسم کا دنیاوی شوق تھا۔ اس کے بارے میں لوگ کہا کرتے کہ He is by himself a university اس کی داڑھی کے بال خاران کی آبادی کی طرح دور دور تھے، جس کے باعث بعض طلباء اسے ’چٹک ریش‘ کے نام سے بھی پکارا کرتے، مگر اس کا ادب و احترام کیا جاتا کیونکہ امریکی طرز زندگی کی سہولتوں سے ہاتھ اٹھا کر وہ جلتے صحراﺅں کی ریت پھانکتا۔ بجلی کا آٹھ دس گھنٹے غائب رہنا معمول کی بات تھی، مکھیاں، مچھر اور کانوں کے پاس بھنبھناتے سپاہی بھی اس کے ارادے متزلزل نہ کر پائے۔ اس نے پورے دس برس تعلیم پھیلائی۔ مگر اب بم دھماکوں، خود کش حملہ آوروں ، مذہبی و لسانی قتل و مقاتلوں نے تعلیم کا راستہ روک دیا تھا۔ مگر آرنلڈ عجب مٹی کا بنا ہوا تھا۔ وہ ذرا برابر خائف نہ ہوتا۔ مزے لے لے کر بیان کرتا کہ مالتھیس تھیوری کے مطابق جب بھی دنیا کی آبادی بڑھے تو قدرت اسی طور مداخلت کرتے ہوئے زلزلوں، طوفانوں اور وباﺅں سے آبادی کم کر دیتی ہے۔ آرنلڈ کو یقین تھا کہ ایک نیا معاشرہ بنانے کے لیے قدرت پرانے معاشرے کو جڑوں سے اکھیڑ پھینکے گی۔ لہٰذا بجلی کے غائب ہونے پر اپنا جنریٹر چلوا کر اگلے لیکچر کی تیاری کرتا۔ طلباء کو وہ دلیل سے قائل کرنے کی سعی کرتا ہمہ وقت مسکراتا ہی رہتا۔
”تم لوگ اپنا مکان دوبارہ بنانا چاہو تو کیا پرانی بنیادوں پر ہی نئی عمارت کھڑی کرو گے؟ یا پہلی عمارت کو بنیادوں تک کھود ڈالو گے؟ بلکہ مضبوط اور بلند و بالا عمارت کی تعمیر کے لیے تو پرانی بنیادیں کھود ڈالو گے۔۔ مزید گہری اور چوڑی بنیادیں بناﺅ گے۔ تاکہ عمارت مضبوط ہو۔ کیا بیس برس پہلے کوئی تصور کرسکتا تھا کہ Missing Person کے لیے تڑپتا بلکتا ہلکان ہوتا ماما قادر آجوئی مارچ کرتے ہوئے وڈھ سے گزرے گا تو سردار وڈھ کے مقام پر بڑھ کر استقبال کرے گا۔ ششک یا بجار طلب کرنے کی بجائے ماما قادر کے احتجاجی قافلہ کی مہمانداری بھی کرے گا۔ معاشرہ تلپٹ ہو رہا ہے۔۔ تم سبھی ٹیکنالوجی پر توجہ دو۔ اور ماما قادر عمر بھر زڑخو یا پھر باجوئی کی سڑک پر دھرنا دیئے بیٹھا بھی رہے تو کیا ہوگا؟ وہ آب پارہ یا مال روڈ پر دھرنا دیتا تو ملک ہل جاتا۔ یہ قافلہ نو سو کلومیٹر چل کر بھی کچھ حاصل نہ کرپائے گا۔ جو کچھ شیخ مجید الرحمان نے کہا، وہی کچھ نواب نوروز خان نے طلب کیا۔۔ ایک آزاد ہوا دوسرا پھانسی پا گیا۔۔ ٹیکنالوجی حاصل کرو۔ یہی طاقت کا سرچشمہ ہے۔“

پروفیسر نے عمر بھر شادی نہ کی۔ اور اگر کوئی اس بار ے میں سوال کرتا تو مسکرا کر جواب دیتا کہ اس نے علم سے شادی رچا رکھی ہے۔ لاپرواہی سے شانے جھٹکنا اس کی عادت تھی۔ ہر دنیاوی شے اسے بے مایہ لگتی۔ اس کے کمروں میں کتابوں کے ڈھیر، نوٹس اور کھلا لیپ ٹاپ ہی ملتا۔ طلباء نے مشہور کر رکھا تھا کہ وہ ای میل پر ہی فرشتوں کو اپنا حساب کتاب دے گا۔ بظاہر تو یوں لگتا، جیسے کل ہی پروفیسر کا سالانہ امتحان ہونے کو ہے۔ بڑے تردّد توجہ، انہماک سے منہمک ہے۔ بہت دنوں سے وہ Robotics میں الجھ کر رہ گیا تھا۔ ہمہ وقت وہ کچھ نہ کچھ سوچتا ہی رہتا۔ محفل میں بھی کھو جایا کرتا۔ وہ مثبت خیالات کا انسان تھا مگر اس کی مسکراہٹ کملانے لگی تھی۔ پھر جانے کیا سوجھی کہ سپاہیوں سے الجھنے لگا کہ وہ چپ چاپ اپنی پوزیشنیں چھوڑ کر واپس چلے جائیں چونکہ پروفیسر آرنلڈ امریکی تھا۔ سپاہی اس سے ڈرتے تھے۔ ان کے سامنے ریمین ڈیوس کی مثال تھی جو قتل مقاتلہ کرتے ہوئے تزک و احتشام سے واصل امریکہ ہوا تھا۔ کیا عجب یہ سڑی پروفیسر ان پر فائر کھول دے۔ یا ان پر ڈرون حملہ کرادے۔ سپاہی مشتعل ہوئے بغیر ہی شرط عائد کرتے کہ اگر سر مچار مورچہ بندی چھوڑ کر واپس چلے آئیں تو وہ بھی بیرکوں میں لوٹ جائیں گے۔ آرنلڈ کے پاس ایسی جادو کی چھڑی تو نہ تھی، جس کے اشارے سے وہ نظام تبدیل کر سکتا۔ تاہم اس نے نیٹ پر پیغام بھجوائے ان پیغامات کی ہارڈ کاپیاں بھی اس نے وزیراعظم اور صدر کو رجسٹری کروائیں۔ یوں تو یہ کاغذ ردّی کی ٹوکری میں ہی پھینک دیے جاتے مگر امریکی ہونے کے ناطے اسے جواب ملا کرتے کہ وہ امریکی حکومت کو مجبور کرے، اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے کہ وزیرستان میں ڈرون حملے روک دیئے جائیں۔۔ اسے یہ بھی پیش کش کی گئی کہ سرکاری خرچ پر اس کا امریکہ کا دورہ اس ضمن میں خیرسگالی کے طور پر کرایا جائے گا۔ بشیر شتربان تو امریکی دعوت پر صدر امریکہ کا مہمان بن کر گیا تھا جبکہ پروفیسر آرنلڈ کو صدر پاکستان کا نمائندہ بنا کر امریکی حکومت سے عدم جارحیت کی بات چیت کے لیے بھیجا جانے کا اہتمام و انصرام ہو سکتا ہے۔ آرنلڈ کی رائے میں بھکاریوں کا نمائندہ بن کر جانے سے اس کی اپنی عزت بھی جاتی رہتی۔ اس نے جواب بھجوایا کہ برابری کی سطح پر آ کر بات چیت کرنے کے لیے امریکی امداد کا کاسہ توڑ دیا جائے۔ تمام جج، حکام اور سیاست دان امریکی شہریت واپس کر دیں، بطور احتجاج۔۔ جیسا کہ ہندوستانی زعما نے بہ شمول رابندر ناتھ ٹیگور جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے خلاف احتجاجاً نائٹ ہڈ اور سر کے خطابات برطانوی سرکار کو واپس کر دیئے تھے۔ اسی تجویز پر سرکار دربار میں سناٹا طاری ہو گیا۔ سبھی کو سانپ سونگھ گیا۔ آرنلڈ نے دوسری تجویز یہ بھجوائی کہ سرکاری حکم کے تحت نئے پیدا ہونے والے بچوں کی زبانیں کاٹ دی جائیں۔ تاریخ میں کئی بار مختلف قوم قبیلوں میں جنم لینے والے لڑکوں کو قتل کیا جاتا رہا ہے۔ یہ ذہن انسانی کے لیے قابل قبول ہوگا۔ اور بچہ بھی زندہ رہے گا۔ کیونکہ بلوچستان میں قتل و مقاتلہ زبان کی بنیاد پر ہو رہا ہے۔ یا پھر عقیدے کی بنیاد پر۔ عقیدے کا تعلق بھی زبان سے ہی ہے۔ کلمات کی ادائیگی اور عقیدوں کا اظہار بھی زبان کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ بس سے مسافروں کو اتار کر کسی خاص زبان بولنے کے سبب قتل کر ڈالنا یا عقیدے کے سبب خودکش حملہ آور کا لوگوں پر برس جانا بھی ختم ہو ہی جائے گا۔ آرنلڈ کف افسوس بھی ملتا کہ نظریہ ارتقاء کے سبب حضرت انسان کی دم تو جھڑ گئی، صرف بطور نشانی دمچی کی ہڈی ہی رہ گئی ہے۔ ہزاروں لاکھوں برس میں انسان کی دم کاٹنے کا کوئی واقعہ نہیں ملتا۔ جبکہ انسان کی زبان کاٹ ڈالنے کے ان گنت واقعات ملتے ہیں۔اسی زبان کے باعث چرچ کی inquestion سے زندہ مرد و زن بھی جلا دیے جاتے۔ ہر ملک و ہر معاشرے میں انسان زبان پر ہی زبان ہی کے ہاتھوں زبان ہی کے ذریعے قتل ہوتے چلے آرہے ہیں۔ انسانی جبلت زبان کے تابع میں نہیں کیونکہ گونگوں کے ہاں بھی تو اولاد پیدا ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ گونگے ہی اصل انسان ہوں۔ بولنے والی زبان ایک بیماری ہو اپینڈیکس جیسی۔۔

پروفیسر آنلڈ کے پاس روپیہ بھی تھا اور علم بھی۔ مگر سب سے بڑی بات کہ وہ ایک امریکی تھا۔ حکام بھی دبتے تھے اس سے، ورنہ تو اس کی کار میں گانجہ یا چرس رکھوا کر اندر کروا ڈالتے۔ یا کسی نوخیز خودکش حملہ آور کو بہتّر حوروں کے چکر میں آرنلڈ کی راہ دکھاتے۔

حکومت نے یہی فیصلہ کیا کہ پروفیسر آرنلڈ کی ای میل کا متانت سے جواب دے دیا جائے۔ اس کی حفاظت بھی کی جائے۔ وہ کہیں گھائل ہوا تو ملالہ یوسف زئی کی طرح امریکی حکومت اسے بھی بانس پر چڑھا دے گی۔ دنیا جہان کے انعام و اکرام اور تمغے پروفیسر آرنلڈ کے قدموں میں ڈھیر کردے گی۔ اس کا بھی احتمال تھا کہ امریکی شہری کی حفاظت میں ناکام رہنے کے جرم میں ملک کے وزیراعظم کو ہی معزول کرکے گھر بھجوادے اور صدر کی گردن ناپ لے۔ پروفیسر آرنلڈ نے سپاہیوں سے بحث و تکرار کے بعد پہاڑوں میں جانے کی اجازت حاصل کر ہی ڈالی

”اگر آپ مارے گئے تو؟“

”تمہاری جان ایک پاگل پروفیسر سے چھوٹ جائے گی“

”اگر کسی نے اغوا برائے تاوان کیا تو کیا ہوگا؟“

”اغوا برائے تاوان شہروں میں ہوتا ہے، پہاڑوں میں نہیں۔“

”اگر مارے گئے تو؟ ہم کیسے آ کر اٹھا پائیں گے؟“

”تو میرا جسم گل سڑ کر قبر میں ختم ہونے کی بجائے بھوکے درندوں کے کام آئے گا۔ میری زندگی نے انسانیت کو فائدہ دیا، میری موت بھی کسی کے لیے باعث فائدہ ہوگی۔“

سپاہیوں نے اپنی حلقہ بندی سے اسے آگے بڑھنے کی اجازت دے ڈالی

آرنلڈ کے پاس کھانے کا تھوڑا سا سامان اور پانی کی ایک چھاگل تھی۔ سب سے مضحکہ خیز چیز بانس کے سر پہ لپٹا ایک سفید جھنڈا تھا۔ پروفیسر ویران پہاڑوں میں دھیرے دھیرے بڑھتا ہی چلا گیا۔ حتیٰ کہ وہ نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔ وادی کے دہانے پر ہی اس نے سفید جھنڈا کھول کر لہرا دیا۔ البتہ وزن سے تھک کر وہ ہاتھ بدل لیا کرتا۔ معاً اس پر فائر آیا۔ دائیں بائیں سے گولیاں سیٹی بجاتی ہوئی گزر گئیں۔ ماہر نشانہ باز اپنی مہارت کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ آرنلڈ جھنڈا تھامے چلتا ہی رہا۔ آگے بڑھتا ہی رہا۔ اور پھر فائر سے اس کے ہاتھ میں تھامی لکڑی کی چھڑی دو ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ آرنلڈ نے دل ہی دل میں نشانہ بازوں کی تعریف کی، جو اس کے پرکھوں کی طرح ’کاﺅ بوائے‘ معیار کی نشانہ بازی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ آرنلڈ نے عینک کے شیشے صاف کیے۔ پلٹ کر جھنڈا اٹھایا اور دل جمعی سے دوبارہ وادی کی جانب قدم بڑھانے لگا۔ چھڑی ٹوٹنے کے باعث سفید جھنڈا اب اس کے سر پر لہرا رہا تھا۔ اور پھر بہت سے بندوق بردار چٹانوں اور پتھروں کے پیچھے سے نمودار ہوئے

”پروفیسر! خود کشی کے لیے یہ اچھا طریقہ نہیں ہے۔ اور تم کیا امن امن کی رٹ لگائے پھرتے ہو۔ گوانتانامو بے جا کر قیدیوں کو تو پہلے چھڑاﺅ۔ اپنا سینہ بھی کھول کر دکھاﺅ۔ خود کش جیکٹ تو نہیں پہنے آئے ہو؟“

آرنلڈ کو علم تھا کہ خودکش حملہ آوروں کے جسموں کے چیتھڑے بکھر تو جاتے تھے۔ مگر سر الگ اڑ جاتا۔ جس کے باعث حملہ آور کی شناخت ہو جایا کرتی۔ لہٰذا انہیں مژدہ جانفزا دیا گیا کہ اگر وہ اپنی ٹھوڑی سینے میں پیوست کر کے کسی طور اپنے دل پہ نگاہیں گاڑ کر بٹن دبائیں تو فوراً اپنے نبی کریم کا چہرہ اقدس دل کے اندر دیکھ سکیں گے۔ لہٰذا وہ اپنی ٹھوڑی سینے میں گھسیڑ دیا کرتے۔ تبھی آرنلڈ سر سیدھا رکھے رہا کہ مبادا کوئی اسے خود کش حملہ آور سمجھ کر پہلے ہی سے نہ اڑا ڈالے

آرنلڈ نے سینہ کھول کر دکھایا اور ہانک لگائی۔ ”چھ سو برس سے تو مسلمان ہی خودکش حملے کیے جارہے ہیں۔ امریکیوں کو کیا پڑی کہ مفت میں خود کو مار ڈالیں، کسی پادری کے کہنے پر۔۔“

مسلح لوگ ہنسے ”ہم تو دل لگی کر رہے ہیں پروفیسر! تمہیں کون نہیں جانتا۔ تمہیں تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا پڑھانے کے سوا۔۔ ورنہ کم سے کم شادی ہی کرلیتے۔“

کسی نے فقرہ جڑا ”شادی بھی کرتا تو بیوی کو اس قدر پڑھاتا کہ وہ کچھ ہی عرصہ میں گھبرا کر استانی بن جاتی۔“

انہوں نے پروفیسر کی خوب آﺅ بھگت کی۔ گرم کھانا۔ کالی کافی اور فقرہ بازی۔ اس کے ایک دو شاگرد بھی نکل آئے تھے۔ ”بڑے مزے کی جگہ ہے۔ کچھ نوجوان مہیا کرو تو انہیں تعلیم دیتا رہوں۔“

سربراہ نے باربرداری کے گدھوں کی جانب اشارہ کیا ”شاگرد تو موجود ہیں، تم کام تو شروع کرو۔“

پروفیسر نے سنی ان سنی کرتے ہوئے ذومعنی اعلان کیا ”ہاں کچھ پرانے شاگرد بھی تو موجود ہی ہیں۔“ اس پر ایک قہقہہ پڑا

پروفیسر نے انہیں ہولناک باتیں بتائیں کہ دنیا پر ڈیڑھ لاکھ روبوٹ قابض ہو چکے ہیں۔ پاناسونک ٹیلی ویژن اسکرین روبوٹ ہی بناتے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں بننے والے اسکرین مہارت سے یوں بنتے ہیں کہ خریدار ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ فیکٹری کے انسان نگرانوں کی تعداد درجن بھر سے زیادہ نہیں ہے۔ اور امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن خصوصاً چینی مزدور سب سے کم اجرت لیتے ہیں۔ کم از کم فی گھنٹہ ساڑھے آٹھ یورو مزدوری ہے۔ جبکہ ربوٹ محض تیس سینٹ فی گھنٹہ پر کام کرتے ہیں۔ روبوٹ نہ وردی مانگتے ہیں۔ نہ میڈیکل نہ ہی یونین بناتے ہیں۔ نہ تو چھٹی طلب کرتے ہیں نہ تالہ بندی کرتے ہیں اور نہ ہی پینشن طلب کرتے ہیں۔ آنے والوں برسوں میں روبوٹس کی تعداد اس قدر بڑھے گی کہ ان کے ہاتھوں دنیا بھر میں تین کروڑ انسان بے روزگار ہو جائیں گے۔ لہٰذا آپس میں جنگ و جدل کی بجائے سارا ملک ہی مل کر مشترکہ دشمن کے خلاف متحدہ ہوجائے۔ کیونکہ تاریخ انسانی میں ایسے بے شمار واقعات ہیں کہ آپس میں لڑنے بھڑنے والے جنگجو یا برسرپیکار ممالک ایک مشترکہ دشمن کے خلاف نبرد آزما ہوگئے۔

سبھی نے پروفیسر کی تقریر خاموشی سے سنی اور بتلایا کہ وہ سبھی آپس میں مشورہ کرکے شام کو فیصلہ سنائیں گے۔ آرنلڈ تھکا ہوا تو تھا ہی کھانا بھی مزے کا ملا تھا اطمینان سے سو رہا۔ سرشام وہ خود ہی اٹھ بیٹھا اور چائے پی کر ان کے درمیان آ بیٹھا

سوال ہوا ”روبوٹس کے جذبات نہیں ہوتے، ان میں رحم دلی یا احساسات نہیں ہوتے، تو کیا یہ درست ہے پروفیسر؟“

آرنلڈ چہک اٹھا ”دور کی کوڑی لائے ہو، بالکل ایسا ہی ہے“

دوسرا سوال ہوا ”امریکن سول وار یا گولڈ رش میں کیا رحم یا انسانیت کا مظاہرہ ہوا، دوسری جنگ عظیم۔ نیپام بم اور ویت نام پر برسنے والی آگ۔ تورہ بورہ پر برسنے والے ڈیزی کٹربم، جن کی آواز سے ہی انسانی خلیے تباہ ہو جاتے ہیں، کسی روبوٹ نے پھینکے تھے یا انسان نے؟ ہیروشیما یا ناگاساکی پر بم کسی روبوٹ نے مارے تھے۔“

پروفیسر گڑبڑا گیا ”نہیں۔ وہ تو انسان ہی نے پھینکے تھے۔“

”اچھا پروفیسر، حضرت ابراہیم کو کس نے آگ میں پھینکا تھا، یوحنا نبی کا قاتل کون تھا، یسوع مسیح کو کون گلگلتا پر لے گیا تھا، طائف میں کس نے پتھر اچھالے تھے، کسی ٹین یا تانبے کے روبوٹ نے؟“

پروفیسر آرنلڈ کا چہرہ دھواں دھواں ہونے لگا تھا۔ وہ خاموش رہا اور جی ہی جی میں کڑھتا رہا۔ مگر مخاطب کی زبان نہیں رک رہی تھی۔”اللہ کے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء ان روبوٹس کا پروگرام درست کرنے ہی تو آئے تھے۔“

بہت سے جذباتی لوگوں نے سوالوں سے پروفیسر کا ناطقہ بند کردیا۔
”ہمارے پاس پہلے کیا کام ہے جو روبوٹس ہمیں بے روزگار کردیں گے۔“ اس پر ایک مشترکہ قہقہہ بلند ہوا

”پروفیسر! روبوٹس میں اگر رحم دلی نہیں تو حرص لالچ مذہبی جنون لسانی تعصب بھی تو غائب ہے“ ایک مضطرب نوجوان بحث میں کود پڑا۔ ”ہمارے حکمران بھی تو روبوٹس ہیں۔ جو تمہارے صدر کی ٹیلی فون کال پر ناچ اٹھتے ہیں۔ اور نئی پالیسی بنا ڈالتے ہیں۔“

آرنلڈ کے حلق میں کچھ پھنس سا گیا۔ ہوا کے شور کے باعث سبھی کو آواز بلند کرنا پڑ رہی تھی۔ ”خالق کائنات اگر انسان کی بجائے روبوٹس ہی بنا ڈالتا تو وہ دھڑ سے آدم کو سجدہ کر ڈالتا۔۔ شیطان کا چکر بھی ختم ہوجاتا۔۔ اور جان ملٹن کو بھی اس کا قصیدہ خوانی نہ کرنی پڑتی!!“

پروفیسر نے ہاتھ بلند کر کے بحث کے خاتمہ کا اعلان کر دیا اور بستر پر آگرا، جو ایک گوشے میں شب باشی کے لیے لگایا گیا تھا

اگلی صبح پروفیسر غائب تھا، امن کا جھنڈا نیچے کھائی میں پڑا تھا۔ رات کے رضاکار چوکیداروں نے بتلایا کہ انہوں نے لاکھ منایا مگر پروفیسر نہ رکا اور یہ بھی کہتا گیا کہ کوئی اس کے پیچھے نہ آئے وہ انسان کی تلاش میں نکلا ہے، اندھیرا تھا، ہم نے اسے ایک ٹارچ بھی دے دی تاکہ پہچان میں آسانی رہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close