عمران خان ڈی سیٹ ہوئے یا نااہل۔۔۔ اور کتنے عرصے کے لیے؟

ویب ڈیسک

توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی نااہلی کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست سماعت کے لیے مقرر ہو گئی ہے

عمران خان کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر نے درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی جس میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے

سابق وزیر اعظم کی جانب سے دائر درخواست میں عدالت سے آج ہی درخواست پر سماعت کرنے کی استدعا کی گئی ہے

عمران خان کی درخواست پر رجسٹرار آفس کی جانب سے متعدد اعتراضات عائد کیے گئے, جس میں کہا گیا کہ عمران خان نے بائیو میٹرک تصدیق نہیں کرائی اور عمران خان کے نااہلی کے فیصلے کی مصدقہ نقل درخواست کے ساتھ منسلک نہیں

عدالت نے عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کی جانب سے آج سماعت کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اپیل پیر کو سماعت کے لیے مقرر کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ پیر کو کیس کی سماعت کریں گے

عمران خان ڈی سیٹ ہوئے یا نااہل، اور کتنے عرصے کے لیے؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے گزشتہ روز چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں نا اہل قرار دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق عمران خان کو الیکشن کمیشن کے ایک 63 ون پی کے تحت نا اہل کیا گیا

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے جھوٹی اور غلط اسٹیٹمنٹ جمع کرائیں جو کرپٹ پریکٹس کے زمرے میں آتا ہے اور اس پر الیکشن ایکٹ 2017 سیکشن 190 ٹو کے تحت کارروائی کا حکم دیا گیا

الیکشن کمیشن کے فیصلہ پر پریس کانفرنس کے دوران بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عمران خان کو پانچ سالوں کے لیے نااہل کیا گیا ہے

تاہم اس معاملے پر رائے لینے کے لیے جب ماہر قانون لطیف کھوسہ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا عمران خان کو ڈی سیٹ کیا گیا ہے اور وہ اس اسمبلی مدت ختم ہونے تک الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے

لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ عمران خان نا اہل نہیں ہوئے وہ اسپیکر کے بھیجے گئے ریفرنس منظور ہونے پر اپنی موجودہ نشست سے ڈی سیٹ ہوئے ہیں

لطیف کھوسہ سے سوال کیا گیا کہ اس فیصلے کی بنیاد پر جنرل الیکشن میں کیا عمران خان کے کاغذات نامزدگی نا منظور ہو سکتے ہیں، تو اس پر ان کا کہنا تھا ’اس فیصلے پر نہیں مگر جیسا کہ الیکشن کمیشن نے اس کیس پر 190 ٹو کے تحت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے اور اگر سیشن کورٹ سے عمران خان کے خلاف فیصلہ آتا ہے چاہے وہ جرمانہ ہو یا قید، اس بنیاد پر ضرور اثر انداز ہو سکتا ہے۔‘

آئین پاکستان کے 63 ون پی کوئی بھی شخص محدود مدت کے مجلس شوریٰ اور صوبائی اسمبلی کے لیے منتخب ہونے کے لیے نا اہل ہوگا

اس فیصلے ماہر قانون احمد پنسوتا کا کہنا ہے عمران خان پانچ سالوں کے لیے نہیں بلکہ اسمبلی کی مدت تک کے لیے ڈی سیٹ ہوئے ہیں اور 63 ون پی کے تحت موجودہ اسمبلی کے لیے نااہل ہیں

ان سے پوچھا گیا کہ اس فیصلے کی روشنی پر عمران خان پر صادق و امین ہونے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن ٹرائل کورٹ نہیں اس لیے کسی عدالت کے فیصلے آنے تک ایسی کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 تین کے تحت کسی بھی رکن کو ڈی سیٹ کر کے مجرمانہ کارروائی کا حکم دے سکتی ہے۔‘

کیا نااہلی کا فیصلہ برقرار رہ سکتا ہے؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے عمران خان کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد ملک بھر میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے احتجاج شروع کر دیا ہے، تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ’ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ فیصلہ عمران خان کو نااہل کر سکتا ہے۔‘

سینیئر قانون دان حسن رشید نے بتایا کہ ’الیکشن کمیشن کے فیصلے کو حتمی شکل اعلٰی عدالتوں نے دینی ہے اور جب تک یہ کیس اعلٰی عدالتوں میں چلے گا تب تک اس پر عمل درآمد ممکن نہیں ہے۔‘

حسن رشید کے مطابق ’جب پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دے گی اور عدالت اس کی سماعت شروع کرے گی تو یہ معاملہ عدالتی کارروائی کا ہو جائے گا۔‘

’الیکشن کمیشن کے فیصلے پر عمل درآمد اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اعلٰی عدالتیں اس کو درست نہیں قرار دے دیتیں۔ ہائی کورٹ کے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ جائے گا اور فیصلہ وہیں ہوگا۔‘

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ’عمران خان بدعنوانی کے عمل کے مرتکب ہوئے ہیں اس لیے وہ آرٹیکل 63 ون پی کے تحت نااہل ہیں۔‘

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اس فیصلے کے فوراً بعد نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے اس کیس میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی شروع کرنے کا بھی کہا ہے۔‘

تاہم حسن رشید کا کہنا ہے کہ ’ابھی اس فیصلے کے اثرات سے متعلق بات کرنا بھی قبل از وقت ہے کیونکہ اس کا حتمی تعین بھی اعلٰی عدالتوں کی طرف سے ہی کیا جائے گا۔‘

’اب دیکھنا پڑے گا کہ ہائی کورٹ اس کیس کے کیا میرٹس طے کرتی ہے اور پھر سپریم کورٹ اس کا کیا فیصلہ کرتی ہے۔ دونوں فریقین کیا دلائل دیتے ہیں، ہو سکتا ہے دونوں طرف سے عدالتی کارروائی میں کچھ نئی چیزیں سامنے لائی جائیں۔‘

سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اکرام چوہدری کا بھی یہ خیال ہے کہ ’اگر پی ٹی آئی ہائی کورٹ سے استدعا کرے تو یہ ای سی پی کے فیصلے پر فوری طور پر حکم امتناعی جاری کر دے گی۔‘

اکرام چوہدری نے بتایا کہ ’اس فیصلے کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جن پر اعلٰی عدالتوں سے مختلف رائے آسکتی ہے، لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ الیکشن کمیشن کے آج کے حکم پر من و عن عمل ہو سکتا ہے۔‘
ایک اور قانونی ماہر اسامہ ملک ایڈووکیٹ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ابھی یہ بھی طے ہونا باقی ہے کہ الیکشن کمیشن اس معاملے پر کورٹ آف لا ہے بھی یا نہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کسی عدالتی فیصلے پر نوٹی فیکیشن تو جاری کر سکتا ہے لیکن خود سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا اور اس معاملے پر ہائی کورٹ اپنی رائے دے گی۔‘

اسامہ ملک کا کہنا تھا کہ ’اگر اور کچھ بھی نہ ہوا تو ہائی کورٹ اس معاملے پر حکم امتناعی جاری کر دے گی اور معاملات ایسے ہی چلتے رہیں گے۔‘

فیصلے کے خلاف احتجاج پر دہشت گردی کا مقدمہ

اسلام آباد کی انتظامیہ نے عمران خان کی نااہلی کے خلاف احتجاج کرنے پر سینیٹر فیصل جاوید سمیت 7 پارٹی رہنماؤں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لیا ہے

وفاقی دارالحکومت کے تھانہ آئی 9 میں سرکار کی مدعیت میں تحریک انصاف کی مقامی قیادت کے خلاف درج مقدمے میں سینیٹر فیصل جاوید، عامرکیانی، قیوم عباسی، راجا راشد حفیظ، عمر تنویر بٹ، راشد نسیم عباسی اور راجا ماجد کو نامزد کیا گیا ہے

ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا کہ مذکورہ بالا ملزمان کی قیادت میں پی ٹی آئی کے جلوس راولپنڈی مری روڈ فیض آباد کی جانب نکالا گیا، جس میں شامل افراد کے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور ڈنڈے تھے

پولیس کے مطابق مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے کہا گیا لیکن مذکورہ بالا قیادت کے اشتعال دلانے پر پولیس، ایف سی اور انتظامیہ پر پتھراؤ شروع کردیا جس کی وجہ سے متعدد اہلکار زخمی ہوئے۔مظاہرین نے پولیس نفری پر گاڑیاں چڑھاتے ہوئے جان سے مارنے کی نیت سے پیش قدمی کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم ہر صورت الیکشن کمیشن جائیں گے، ہم کسی قانون کو نہیں مانتے

مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 جبکہ تعزیرات پاکستان کی دفعات 353، 186، 149، 427،435، 324 لگائی گئی ہیں

احتجاج ختم، لانگ مارچ کی تیاری کریں: عمران خان

نااہلی کے بعد یوٹیوب پر اپنے خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ سپورٹرز سے درخواست کرتا ہوں کہ احتجاج ختم کر دیں۔ لوگ مشکل میں ہیں، آپ لانگ مارچ کی تیاری کریں۔ جب تک ملک میں قانون کی بالادستی نہیں ہوتی میری یہ تحریک چلتی رہے گی

انہوں نے کہا کہ ملک ایک فیصلہ کن موڑ پہ ہے۔ میں آپ کو کال دوں گا، یہ سب سے بڑی احتجاجی تحریک ہو گی۔

دوران لائیو خطاب انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ایک پارٹی جو سب کو اکٹھا رکھ سکتی ہے اسے ختم کیا جائے۔ میں نے عدالت میں ایک ایک رسید دکھائی۔ فلیٹ بیچا تو اپنے ملک پیسہ لے کے آیا۔ میرا مقابلہ اس آدمی سے کر رہے ہیں جس کی ملک سے باہر اربوں کی جائیداد ہے۔ ‘

’کسے اس ملک میں بچایا جا رہا ہے۔ بڑے بڑے مجرم جن پر اربوں روپے کے کیسز ہیں۔ وہ اسمبلی میں بیٹھ کر قانون پاس کرتے ہیں اور گیارہ سو ارب اپنا معاف کروا لیتے ہیں۔ چھ مہینے میں پاکستان کو اس حال پہ لے آئے ہیں کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری بند ہو گئی ہے۔‘

حالیہ نااہلی کے حوالے سے ان کا یہ کہنا تھا کہ ’یہ سب کچھ میرا منہ بند کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔‘

 ’اسے خطرہ نہیں بلکہ وہ خود خطرہ ہے‘

پاکستان کے الیکشن کمیشن کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد جہاں ملک کے مختلف شہروں کی سڑکوں پر شدید احتجاج دیکھنے میں آیا، وہیں سوشل ٹائم لائنز پر بھی ان کے حامی احتجاج کرتے رہے

انتخابی کمیشن کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں کی گفتگو اتنی بڑھی کہ ٹوئٹر کے ٹرینڈز پینل میں ’عمران خان ہماری ریڈ لائن‘ سرفہرست ٹرینڈ بن گیا

اس میں گفتگو کرنے والوں نے جہاں فیصلے پر اپنی رائے دی، وہیں پارٹی کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل کی میزبانی میں ہونے والے اسپیس سیشن میں بھی غم وغصہ کا اظہار کیا

پی ٹی آئی کے آفیشل ہینڈل نے عمران خان کی ایک مسکراتی ہوئی تصویر شیئر کی تو ساتھ لکھا کہ ’عمران خان کی یہ تصویر اب سے کچھ لمحے پہلے کی ہے- اطمینان جو ان کہ چہرے پر ہے، یہ عوام پر اعتبار کا اعتماد ہے۔‘

انٹرورٹ لیلی کے ہینڈل سے تصویر پر تبصرہ میں لکھا گیا ’اس لیے کہ اسے خطرہ نہیں، بلکہ وہ خود خطرہ ہے۔‘

رحیم مروت نے ’کاغذی راجہ اور ان کے سرپرستوں‘ کو مخاطب کیا تو لکھا کہ ’غور سے دیکھیں میرا لیڈر فیصلے کے بعد بھی مطمئن ہے، اب تم سب کے رونے کے دن شروع ہوگئے ہیں۔‘

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر دیے گئے پیغام میں لکھا گیا کہ ’الیکشن کمشن نے توشہ خانہ ریفرنس میں انصاف کیا۔ قوم نے دیکھ لیا کہ کرپٹ پریکٹس کرکے وزیراعظم کے منصب کو ذاتی آمدن کا ذریعہ بنایا گیا۔ صداقت وامانت کا بُت پاش پاش ہوگیا۔ قانون سے لڑنے، گولیاں، ڈنڈے چلانے، فسادی جتھے لانے کے بجائے قانون کے سامنے سر جھکائیں۔ کوئی قانون سے بالا نہیں۔‘

تحریک انصاف کے سینیٹر ذیشان خانزادہ نے لکھا کہ ‘عمران خان صرف اس اسمبلی کے خاتمہ تک نااہل ہیں۔ جیسے ہی یہ اسمبلی تحلیل ہو گی اس کے ساتھ ہی نااہلی بھی ختم۔ یہ خبر سن کر مٹھائیاں بانٹنے والے پھر رونا شروع ہو جائیں گے۔‘

سابق وفاقی وزیر اور تحریک انصاف کے نائب صدر فواد چوہدری نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ’نااہلی جزوقتی ہو یا کل وقتی ناقابل قبول ہے۔ قوم اس فیصلے کو مسترد کرتی ہے۔ انقلاب کی ابتدا ہو چکی ہے۔‘

پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے اپنی ٹویٹ میں ’عمران خان ہماری ریڈلائن‘ کہا تو ’مائنس ون نامنظور‘ کا ہیش ٹیگ سجایا

انہوں نے مزید لکھا کہ ’پاکستان کی جمہوریت عمران خان کے بغیر نہیں چل سکتی۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close