ملّیر: نظامِ آبپاشی، ونگی اور کوش

غلام رسول کلمتی

”کیا زمانہ تھا۔۔ ہر طرف ہریالی تھی، قدم قدم پر امرود کے درخت پھل سے لدے ہوئے تھے۔۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کون سا دانہ کھائیں اور کون سا پھینک دیں۔ جنگل جلیبی، فالسہ کئی اقسام کے درخت کئی اقسام کے پھل۔ شیلانچ (خشک پنیر)، دوگ، دہی اور دودھ کی فراوانی تھی۔ خالص گھی اور مکھن کا زمانہ تھا۔۔ ڈالڈا، تیل اور اس قسم کی چیزوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ملّیر واقعی ملّیر تھا۔ ساون کے موسم میں ملّیر ندی کا منظر ہی کچھ اور تھا، دیکھنے سے جی نہیں بھرتا تھا۔ وہ درختوں کے گھنے سائے، جن کے نیچے بچے کھیلا کرتے تھے، جیسے کل کی بات ہو۔۔“ بی بی آمنہ، جن کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے ہے، میری والدہ بی بی نوران سے گذشتہ پچاس سال پہلے کے ملّیر کو یاد کر کے سرد آہیں بھرنے لگیں

تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد انہوں نے دوبارہ باتوں کے اس منقطع سلسلے کو جوڑ دیا، ”اب تو حالت یہ ہے کہ درختوں کان و نشان نہیں۔۔ کھیت بنجر ہوچکے ہیں۔۔ معاشی راستے بند ہوچکے ہیں اور لوگ بے روزگار ہیں۔۔ دہی، گھی اور مکھن تو دُور کی بات ہے، یہاں تک کہ ہمارے خاندان کو ضرورت کے لیے دودھ بھی ملّیر پندرہ سے خریدنا پڑتا ھے۔ ملّیر کی اس طرح بربادی کا تو ھم نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔۔“

یہ خاتون صرف پچاس سال پہلے کے ملّیر کا ذکر کر رہی تھیں، ان کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اسی زمانے سے ملّیر پر چاروں طرف سے یلغار شروع ہو چکی تھی، ندیوں سے بہ کثرت ریتی بجری نکالی جا رہی تھی اور منصوبہ ساز شاداب کھیتوں اور سرسبز درختوں کی جگہ کنکریٹ بچھانے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ لیکن اس سے پہلے کا ملّیر کس قدر خوبصورت تھا، جب لوگ ملّیر کو جنّت نظیر کہتے تھے۔

ملّیر کی سرسبزی کا دار و مدار کھیرتھر پہاڑی سلسلے کے ان شمالی پہاڑوں کا مرہونِ منت ہے، جن سے کئی ندیاں نکل کر ملّیر کو سیراب کیا کرتی ہیں۔ ان تمام ندیوں کے ملاپ کو ’ملّیر کؤر‘ یعنی ملّیر ندی کہتے ہیں ۔ ملّیر ندی تین ندیوں کھدیجی، مول اور جرندو کے میلاپ سے کاٹھور کے قریب تشکیل پاتی ہے، اس سے آگے یہ ’مَول ندی‘ کہلاتی ہے۔ کاٹھور کے بعد اس ندی میں لنگیجی (نل بازار کے قریب)، سکھن (قائد آباد کے قریب) اور تھدو (ملّیر پل کے قریب) مل کر اس ندی کو مزید وسعت دیتی ہیں اور یہ ندی گزری کے قریب جاکر سمندر میں گرتی ہے۔

آج سے صدیوں پہلے ملّیر اور کوہستانی علاقوں میں گلہ بانی کو لوگ اہمیت دیا کرتے تھے۔ ملّیر سرسبز چراگاہوں کا علاقہ تھا یہاں کے گلہ بان خوشحال زندگی گزارا کرتے تھے، ان کی خوشحالی کا اندازہ آج بھی قدیم قبرستانوں میں پتھر کی تراشیدہ قبروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ چونکہ اس زمانے میں آبادی کم تھی، اس لیے لوگ محدود پیمانے پر زراعت کیا کرتے تھے۔ ملّیر کا پہلا زراعتی زمانہ ونگیوں سے شروع ہوا۔ ’ونگی‘ کے ساتھ ساتھ زراعت ’کوش‘ کے ذریعے بھی ہوا کرتی تھی۔ انگریزوں کے زمانے میں ڈیزل انجن زراعت کے لیے استعمال ہونے لگے۔

ونگی: صدری روایاتوں کے مطابق زراعت کے لیے سب سے پہلے ملّیر ندی سے چھوٹی چھوٹی نہریں نکال کر لوگ کھیتی باڑی کیا کرتے تھے۔ ان نہروں کو مقامی زبان میں ’ونگی‘ کہا جاتا تھا۔ چونکہ اس زمانے میں ملّیر ندی میں سیاآپ (ندیوں میں بارش کے بعد بہنے والا پانی جو کئی ماہ تک جاری رہتا ہے) آج بھی ملّیر ندی کی بنیاد مول ندی میں سیاآپ کئی ماہ تک بہتا رہتا ہے۔ ملّیر میں ونگیوں کا طویل سلسلہ ہوا کرتا تھا۔ چند ایک ونگیوں کے نام جو ہمیں صدری روایتوں ملے ہیں، جن میں گلشیر ءِ ونگی یعنی گلشیر نامی شخص کی ندی سے نکالی ہوئی ونگی ، اسی طرح نودین ءِ ونگی، گوہرام ءِ ونگی اور ناتاءِ ونگی۔ اگرچہ یہ تمام ونگیاں اب ختم ہو چکی ہیں لیکن ان میں سے ایک ’ناتا ونگی‘ کا نام کسی نہ کسی طرح اب بھی موجود ہے۔ یہ ونگی ناتا خان بلوچ نے ملّیر ندی سے نکالی تھی (ناتا بلوچ جامعہ ملیہ ملیر کے قبرستان میں مدفون ہیں، جن کا پتھروں سے بنی ہوئی منقش قبر تھی، جو اب ٹوٹ پھوٹ چکی ہے) ۔ ایک دو اور ونگیوں کے نام اگر چہ آج بھی موجود ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تلفظ میں تبدیلی آئی ہے ان میں سے ایک ’کورنگی‘ اور دوسرا ’اورنگی‘ ہے۔ کورنگی دو الفاظ کا مرکب ہے "کؤر+ونگی” یعنی ندی سے نکالی گئی ونگی یا نہر۔ اسی طرح دوسرا نام ’اورنگی‘ ہے جوکہ ’ھؤر’‘ اور ’ونگی‘ کا مرکب ہے، جس کے معنی ہیں برساتی ونگی یا برساتی نالہ۔

ونگی کا دارو مدار چونکہ سیاآپ پر تھا اور سیاآپ ایک محدود مدت تک ندیوں میں رہتا تھا، اس لیے لوگوں نے کوش کے ذریعے بھی آبپاشی کا سلسلہ جاری رکھا۔

کوش: بلوچی زبان میں ’کوش‘ کے معنی ویسے تو ’قتل‘ کے ہوتے ہیں لیکن ایک خاص مشکیزے کا نام بھی کوش ہے، جو کسی زمانے زراعت کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ مشکیزہ عام مشکیزوں سے سائز میں بڑا ہوتا تھا، اس مشکیزے کو دو طاقتور بیل کنویں سے کھینچ کر نکالتے تھے۔ یہ مشکیزہ تین رسیوں سے بندھا ہوا ہوتا تھا، یہ تینوں لمبے رسے بیلوں کی گردن پر بندھی ہوئی ’جُگ‘ کے ساتھ بندھے ہوئے ہوتے تھے۔ یہ مشکیزہ اس طرح ڈیزائن کیا گیا تھا کہ جب اسے کنویں ڈال دیا جاتا تو اس کے اوپری منھ سے پانی مشکیزے میں بھر جاتا تھا اور نیچے پانی خارج کرنے والا منھ بھی رکھا جاتا تھا۔ خارجی منھ پر رسی اس طرح بندھی ہوئی ہوتی تھی، کہ جب تک مشکیزہ کنویں کے اندر ہوتا تو خارجی منھ بھی اوپر اٹھا ہوا ہوتا تھا اور جیسے ہی بیل کوش کو باہر کھینچتے خارجی منھ کنویں سے نکل کر باہر کی طرف آتا اور وہ پانی باہر خارج کرتا، جہاں سے ایک چھوٹے سے نالے کے ذریعے جسے عام طور پر ’مَلّ‘ کہا جاتا تھا، کھیت کو سیراب کرنے کے لیے وہ پانی ملّ سے ہوتا ہوا پہنچ جاتا۔ کوش کا زمانہ انگریزوں کے آنے تک برقرار رہا۔ انگریزوں کے آنے اور قابض ہونے کے بعد کراچی کی آبادی میں اضافہ ہوا اور اس اضافی آبادی کے لیے سبزی اور پھلوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے انگریزوں نے ڈیزل انجن متعارف کرائے۔

ملیر ندی میں ریت کی وافر مقدار کی وجہ سے یہاں زیرِ زمین پانی کی فراوانی تھی۔ یہ پانی نہ صرف ملیر کو سرسبز و شاداب رکھتا تھا بلکہ شہر کراچی کی سبزی کی ضروریات سے لے کر پانی کی ضروریات بھی پوری کیا کرتا تھا۔ انگریزوں نے 1884 سے لے کر 1940 تک ڈملوٹی (ملّیر) کے مقام پر بارہ کنویں کھودے جو شہر کراچی کو روزانہ دس ملین گیلن پانی فراہم کیا کرتے تھے۔

ملّیر کی سرسبزی و شادابی کو اس وقت نظر لگ گئی جب برصغیرکا بٹوارا ہوا اور کراچی پر غیرترتیب آبادی کی یلغار ہوئی۔ غیرترتیب اور غیرفطری آبادی کی یلغار سے اگرچہ شہر کراچی (اُس زمانے میں ملّیر کی الگ حیثیت تھی) کے لیے مسائل پیدا ہوئے، لیکن ساتھ ہی ملّیر اور یہاں کی قدیم آبادی کے لیے مشکلات کا بھی آغاز ہوا۔ بیشتر زمینیں جھوٹے کلیموں کی نظر ہو گئیں (کچھ مشہور شخصیات نے بھی ان جھوٹے کلیموں سے بھرپور فائدہ اٹھایا، یہ الگ موضوع بحث ہے)، جس نے ملّیر کی سرسبزی و شادابی پر منفی اثرات مرتب کرنا شروع کئے، بعد ازاں رہی سہی کسر گینگ وار کے سرپرستوں نے پوری کی۔

شہر کراچی میں اضافی آبادی کے لیے مکانات کی تعمیر کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس کے لیے ریتی بجری کی ضرورت پیش آئی اور یہ ریتی بجری ملّیر ندی سے نکالی گئی۔ کراچی شہر میں جتنی بھی عمارتیں جن میں گھر، دکانیں، آفس اور دیگر تعمیرات ہیں وہ سب کی سب ملّیر ندی اور اس میں آ کر شامل ہونے والی دیگر ندیوں کی ریت سے تعمیر کی گئی ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملّیر میں زیرِزمین پانی کی سطح گر گئی، جس کے نتیجے میں کھیت ویران ہونے لگے اس کا کوئی متبادل طریقہ بھی نہیں لایا گیا۔ کھیت جب ویران ہونے لگے تو کھیتوں سے منسلک لوگ بھی معاشی بدحالی میں مبتلا ہونے لگے۔ ستم ظریفی یہ کہ ان لوگوں کے لیے زندگی کے دیگر شعبوں میں گنجائش بھی نہیں رکھی گئی۔

اب نہ وہ کوش رہے اور نہ ونگیاں۔۔ اگر یہ نہ بھی رہتے کوئی فرق نہ پڑتا، جب ان کا متبادل کوئی طریقہ یا راستہ تلاش کیا جاتا، جس طرح انگریزوں نے کوش اور ونگی کی جگہ ڈیزل انجن معارف کرائے۔ موجودہ حکمران تو متبادل ذرائع پیدا کرنے سے بھی قاصر رہے۔ سچ تو یہ ہے جب سربراہ بلڈر بن جائیں تو نہ صرف وہ خود متبادل ذرائع لانے کے حق میں نہیں ہوتے بلکہ دوسروں کے لیے بھی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں ۔ ایسی صورتحال میں ہم لوگ یا ہمارے جو بزرگ اب تک باقی ہیں، جنہوں نے ساٹھ ستر سال پہلے کے ملّیر کو دیکھا ہوگا، وہ یقیناً موجودہ ملّیر کی صورتحال اور اس بربادی پر ٹھنڈی آہیں ہی بھر سکتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close