پاکستان کے پیدائشی افغان مہاجرین کے لیے شہریت کی راہ ہموار؟

ویب ڈیسک

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے پاکستان میں پیدا ہونے والے ایک افغان نوجوان کو پاکستانی شہریت دینے سے متعلق وفاقی وازرت داخلہ کو جاری کی گئی ہدایت کے بعد افغانیوں کو پاکستانی شہریت ملنے کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دیتی ہے

واضح رہے کہ 20 اکتوبر جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے افغانستان سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والی ایک فیملی کے گھر پاکستان میں پیدا ہونے والے چوبیس سالہ افغان لڑکے حق نواز کی درخواست پر سماعت کی تھی۔ درخواست گزار کی جانب سے عمر اعجاز گیلانی ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل نے پاکستان میں چوبیس سال بغیر کسی شہریت کے گزارے

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والا کوئی بھی بچہ پاکستانی شہری بن جائے گا، اسے صرف پیدائش کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہوگی

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ امریکہ اور چند دیگر ممالک کی طرح ہمارا قانون بھی پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو شہریت دینے کا پابند ہے

وزارت داخلہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ پیدائشی سرٹیفیکیٹ کی تصدیق پر فیصلہ کر دیا جائے گا۔ عدالت نے وزارت داخلہ کو اس شہری کی درخواست پر قانون کے مطابق فیصلہ کر کے رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت دیتے ہوئے مقدمے کی سماعت 28 اکتوبر تک ملتوی دی

پاکستان سیٹیزن ایکٹ

عمر گیلانی ایڈووکیٹ کہتے ہیں ”پاکستانی شہریت کا قانون بہت واضح ہے۔ ہر وہ بچہ، جو اس ملک کی سرزمین پر جنم لے گا، وہ پاکستانی شہری ہو گا“

اس بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ”شہریت ایکٹ کا سیکشن چار صرف دو صورتوں میں بچوں کو پاکستانی شہریت کا حق نہیں دیتا۔ ان میں پہلی صورت یہ ہے کہ اگر کسی غیرملکی سفارتکار کے ہاں بچے کی پیدائش ہو تو وہ پاکستانی شہریت کا حقدار نہیں اور دوسرا اگر کوئی غیرملکی پاکستان پر قابض ہو تو اُس کے یہاں پیدا ہونے والے بچہ بھی کبھی پاکستانی شہری نہیں بن سکتا۔‘‘

عمر گیلانی کے مطابق اس کے علاوہ کوئی ایک بھی ایسی صورت نہیں، جو کسی بچے کو اس کے پاکستانی شہریت کے پیدائشی حق سے محروم کر سکے

ان کا کہنا تھا ”میرا موکل 1998ء میں افغان مہاجر والدین کے ہاں پاکستان میں پیدا ہوا۔ اس نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی اور پھر قیمتی پتھروں کا کاروبار شروع کر دیا ۔ اب وہ انٹرنیٹ کے ذریعے ان قیمتی پتھروں کی فروخت سے پاکستان کے لیے زر مبادلہ کما رہا ہے۔ کیا ایسے انسان کو پاکستان کا ایک کارآمد شہری بننے کا حق حاصل نہیں‘‘

عمر گیلانی نے کہا ”اگر نادرا عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرے، تو اس سے لاکھوں لوگ جو غیر قانونی زندگیاں بسر کرنے پر مجبور ہیں، ان کا بھلا ہوگا اور اس کا فائدہ پاکستان کو بھی ہوگا“

اس خبر پر خیبر پختونخواہ کے ضلع ہنگو کے ایک افغان مہاجر کیمپ میں مقیم عبدالقیوم کا کہنا ہے ”مجھے فیسبک پر کی گئی ایک پوسٹ کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک افغان نوجوان کی شہریت کے متعلق فیصلے کا معلوم ہوا“

انہوں نے کہا ”اس فیصلے پر اتنی خوشی ہوئی ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ میری عمر بیالیس سال ہے۔ میں یہیں پیدا ہوا، یہیں تعلیم حاصل کی اور اب کاروبار کرتا ہوں لیکن میرے پاس پاکستانی شہریت نہیں۔ اب میں انتظار کروں گا کہ اس مقدمے کا کیا نتجہ نکلتا ہے اگر وازرت داخلہ نے اس افغان مہاجر کے پاکستان میں پیدا ہونے والے بچے کو شہریت دی، تو پھر میں بھی اپنی شہریت کے لیے اپلائی کروں گا‘‘

یاد رہے کہ اس سے قبل حال ہی میں پشاور ہائی کورٹ نے بھی اپنے ایک فیصلے میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی(نادرا) کو ہدایت کی تھی کہ پاکستانی خواتین کے افغان شوہروں کو پاکستانی اوریجن کارڈ یا (پی او سی) جاری کرے۔ ثمینہ روحی نامی ایک درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ نادرا کو حکم دے کہ وہ اُن کے افغان شوہر نصیر محمد کو پی او سی جاری کرے۔ اس جوڑے کی 1985 میں شادی ہوئی تھی اور ان کے پانچ بچے بھی ہیں

نصیر محمد بیرون ملک کام کرتے ہیں اور وہ صرف ایک ماہ تک کا ویزہ لے کر اپنی فیملی سے ملنے آسکتے ہیں۔ درخواست گزار نے پاکستانی شہریت کے ایکٹ کی اس شق کو چیلنج کیا تھا، جو پاکستانی مردوں کی غیر ملکی بیویوں کو تو پاکستانی شہریت کا حق دیتی ہے لیکن پاکستانی عورتوں کے غیر ملکی شوہروں کو پاکستانی شہریت کے حصول کا حق نہیں دیتی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close