سید عدنان علی کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس جاپان سے درآمد ہوئی 2015ع ماڈل کی وٹز گاڑی ہے۔ ایک روز وہ گھر میں بیٹھے تھے کہ انہیں ان کے چھوٹے بیٹے عمر نے بتایا کہ کوئی ان کی گاڑی میں جھانک رہا ہے۔
انہوں نے گھر میں لگے سی سی ٹی وی سسٹم پر دیکھا تو انہیں موٹر سائیکلوں پر سوار تین افراد گھر کے نیچے کھڑی گاڑی سے اس کا پینل اور ڈیش بورڈ بآسانی کھول کر فرار ہوتے نظر آئے۔ عدنان علی کو اتنا بھی موقع نہیں ملا کہ وہ کیمرے پر دیکھنے کے بعد بھاگ کر گاڑی تک جا سکیں
عدنان علی کا کہنا ہے ”یہ میرے لیے حیران کن تھا کیونکہ میری گاڑی ایسی جگہ کھڑی ہوتی ہے، جہاں سے ہر وقت لوگ آ جا رہے ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود چور آئے اور تیس سیکنڈ میں گاڑی کے اندر سے قیمتی سامان کھول کر باآسانی فرار ہوگئے“
اس طرح پلک جھپکتے ہی لٹنے والے سید عدنان علی اکیلے نہیں ہیں۔ ان دنوں پاکستان کے بڑے شہروں میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص امپورٹڈ گاڑیوں کے شیشے، ڈیش بورڈ اور پینل کی چوری کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے
اس حوالے سے کراچی میں جاپان سے درآمد کی گئی گاڑیوں کی خرید و فروخت کا کام کرنے والے فواذ احمد بتاتے ہیں ”شہر میں جاپانی گاڑیوں کے سامان چوری ہونے کے واقعات میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ پوری گاڑی چوری کرنا مشکل ہوتا ہے جبکہ ان گاڑیوں کا کھلا سامان مارکیٹ میں بہت آسانی سے بک جاتا ہے۔ اس لیے چور گاڑی چرانے کا رسک لیتے ہی نہیں اور ان کا سامان کھول کر چند سیکنڈز میں غائب ہو جاتے ہیں“
انہوں نے بتایا ”کئی افراد امپورٹڈ گاڑی خریدنے کے بعد ہم سے رابطہ کرتے ہیں کہ گاڑی کا پینل چوری ہوگیا ہے یا شیشے چوری ہو گئے ہیں”
ان کا کہنا ہے ”ڈجیٹل سکیورٹی سسٹم کی وجہ سے جاپانی گاڑی کو چوری کرنا مشکل ہے۔ اس کے علاوہ اب ٹریکنگ کا نظام بھی مزید بہتر ہے تو چوری کرنے والے جاپانی گاڑیوں کے سامان چوری کر لیتے ہیں۔ یہ سامان باآسانی بک جاتا ہے، اور اس کی قیمت بھی اچھی ہے“
انہوں نے بتایا کہ شہر میں کئی مارکیٹیں موجود ہیں، جہاں سے جاپانی گاڑیوں کا استعمال شدہ سامان ملتا ہے ”چوری کی ان اشیا کو ڈھونڈنا بہت مشکل ہے کیونکہ مارکیٹ میں ان کی بہتات ہے۔ کچھ عرصے قبل سکیورٹی اداروں نے اس مسئلے پر ایکشن لیتے ہوئے کچھ مارکیٹوں میں چھاپے مار کر ایسا سامان بھی برآمد کیا تھا لیکن یہ ایک مستقل کرنے والا عمل ہے“
کراچی میں موجود گاڑیوں کے سامان کی خرید و فروخت کی تین مارکیٹوں پلازہ میکزی لائن، جمشید روڈ اور شیر شاہ مارکیٹ کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ ان تینوں مارکیٹوں میں جاپانی گاڑیوں کا تقریباً تمام ہی سامان وافر مقدار میں موجود ہے۔ گاڑیوں کے رنگ اور ماڈل کے حساب سے ڈیش بورڈ پینل، شیشے، بتیاں اور دیگر سامان ان مارکیٹوں سے بآسانی سستے داموں خریدا جا سکتا ہے
کراچی پلازہ مارکیٹ میں استعمال شدہ سامان فروخت کرنے والے محمد زبیر کے مطابق: وہاں بکنے والا سامان قانونی ہے
انہوں نے کہا ”اس مارکیٹ میں صرف وہی سامان موجود ہے، جو لاٹ کے حساب سے خریدا جاتا ہے۔ اسکریپ میں امپورٹ ہونے والا یہ سامان قانونی ہوتا ہے“
زبیر کا کہنا تھا کہ کوئی شخص انفرادی حیثیت میں تو یہ کام کر سکتا ہے لیکن اجتماعی طور پر مارکیٹ میں بہت سختی ہے اور صرف اسی سامان کی تجارت ہوتی ہے، جس کا باقاعدہ ریکارڈ ہوتا ہے
جمشید روڈ مارکیٹ میں اسپیئر پارٹس کا کام کرنے والے عمران احمد کہتے ہیں ”کراچی شہر میں پوری پوری گاڑیاں کٹی ہوئی حالت میں ہوتی ہیں، جن سے خریدار کی ضرورت اور بجٹ کو دیکھ خریداری کی جاتی ہے“
ترجمان سندھ پولیس کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں سے گاڑیوں کے سامان کی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ ان کے بقول، اس حوالے سے پولیس نے اپنے انٹیلیجنس نیٹ ورک کے ذریعے بیشتر علاقوں میں کامیاب کارروائیاں کی ہیں۔ متعدد افراد کو حراست میں لیا ہے اور ان پر مقدمات بھی درج کیے ہیں
ان کا کہنا ہے کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ایک آسان ہدف ہونے کی وجہ سے چور گاڑیوں کا سامان لے کر فرار ہوجاتے ہیں اور مارکیٹ میں یہ سامان خرید لیا جاتا ہے۔ اگر مارکیٹ میں اس کی خریداری کا عمل نہ ہو تو چوری کی وارداتیں بھی کم ہوسکتی ہیں۔