ان دنوں برطانوی وزیر اعظم لز ٹرس کے استعفے کا معاملہ دنیا بھر میں زیر بحث ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ ان کی قلیل المدت وزارت عظمیٰ ہے
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ان کے مستعفی ہونے سے اب برطانیہ میں چھ سال کے قلیل عرصے میں چھ وزیر اعظم گزر چکے ہیں، یقیناً یہ اپنی قسم کا ایک نیا ورلڈ ریکارڈ محسوس ہوتا ہے
لیکن کیا کیجیے کہ مسندِ اقتدار کی فطرت میں ہی بے وفائی لکھی ہے۔ ایسا صرف برطانیہ میں ہی نہیں ہوا کہ اتنے کم عرصے میں اقتدار کی کرسی پر اتنے لوگ بیٹھے اور پھر چلتے بنے
آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ ارجنٹائن کے عوام نے وہ وقت بھی دیکھا ہے، جب ان کے ملک میں صرف دو ہفتوں میں پانچ صدر بنے تھے
لز ٹرس کا معاملہ برطانوی تاریخ میں یوں بھی منفرد ہے کہ برطانوی وزیر اعظم کے طور پر انہیں محض پینتالیس روز ہی نصیب ہو سکے،اس طرح یہ برطانوی سیاسی تاریخ میں کسی بھی وزیر اعظم کا سب سے کم عرصہ تھا
آئیے ایک نظر دوڑاتے ہیں ایسے ہی تاریخی واقعات پر، جو مسندِ اقتدار کی بے وفائی کی چغلی کھاتے ہیں
بارہ برسوں کے لیے پروپیگنڈا کے وزیر مگر صرف ایک دن کے لیے جرمن چانسلر
یہ موصوف ہیں جوزف گوئبلز، جن کو دنیا نازی دور حکومت (1933-1945) کے دوران جرمنی کے بدنام زمانہ پروپیگنڈا کے وزیر کے طور جانتی ہے۔ لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ انہیں جرمن چانسلر کا اعلیٰ ترین عہدہ بھی ملا تھا لیکن صرف ایک دن کے لیے۔۔
یہ 30 اپریل 1945ع کی بات ہے، جب یورپ میں دوسری جنگِ عظیم کے آخری دنوں میں اس وقت کے جرمن چانسلر ایڈولف ہٹلر نے برلن کے ایک زیر زمین بنکر میں خودکشی کر لی تھی
یہی وہ دن تھا جب جوزف گوئبلز نے ہٹلر کے نائب کے طور پر جرمنی کے چانسلر کا عہدہ سنبھالا تھا، لیکن آگے کی کہانی بہت المناک ہے، کیونکہ انہوں نے اور ان کی اہلیہ نے بھی اپنے چھ بچوں سمیت سائنائیڈ کھا کر موت کو گلے لگا لیا تھا
◼️ایک ماہ کی امریکی صدارت
ولیم ہنری ہیریسن (1773-1841) یقیناً دنیا کے طاقتور ملک کے صدر بن کر بہت خوش ہوئے ہونگے، لیکن بدقسمتی سے ان کی یہ خوشی موت نے ان سے چھین لی
ولیم ہنری ہیریسن امریکی تاریخ کے عجیب اعزاز رکھنے والے وہ پہلے امریکی صدر ہیں، جن کی عہدے پر رہتے ہوئے موت ہوئی اور جو سب سے کم مدت کے لیے امریکی صدر رہ پائے
اڑسٹھ سالہ سابق فوجی افسر کو اپنے دور اقتدار میں آئے ہوئے ابھی صرف بتیس دن ہی بیتے تھے کہ وہ نمونیا میں مبتلا ہو گئے، اور یہی بیماری ان کے لیے اجل کا پیغام لے کر آئی
ارجنٹائن: تُو چل، میں آیا۔۔
یہ بات ہے دسمبر 2001 کی، جب ارجنٹائن شدید معاشی بحران سے جھوجھ رہا تھا۔۔ ملک کے دگرگوں معاشی حالات کی وجہ سے ہر جانب پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا، جن میں کم از کم پچیس افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے
ملک کے معاشی بحران کی کوکھ سے جنم لینے والے سیاسی بحران نے 20 دسمبر کو صدر فرنینڈو ڈی لا روا کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد ’تُو چل، میں آیا‘ کی ایک ایسی کہانی شروع ہوئی، جس کی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملتی
ڈی لا روا کی جگہ سینیٹ کے اکثریتی رہنما رامون پورٹا نے لے لی، کیونکہ نائب صدر کا عہدہ پہلے سے استعفیٰ دینے کے بعد خالی پڑا تھا
ابھی دو دن ہی گزرے تھے کہ پورٹا کو بھی یہ عہدہ چھوڑنا پڑا، کیونکہ کانگریس کے منتخب کردہ ایڈولف رودریگز سا نے صدارتی عہدہ سنبھال لیا تھا
لیکن ایڈولف سا بھی ٹک نہیں پائے اور ایک ہفتے کے اندر ہی معاشی ایمرجنسی کے اقدامات میں ناکامی کے بعد صدارتی دفتر سے چلتے بنے۔ اگرچہ قانونی طور پر وہ عہدے رکھ سکتے تھے لیکن انہوں نے سینیٹ کے سربراہ کی حیثیت سے استعفیٰ دیتے ہوئے اس سے بھی انکار کر دیا
اس کے بعد ارجنٹائن کے چوتھے صدر چیمبرز آف ڈپٹیز کے سربراہ ایڈیارڈو کیمانو بنے، لیکن تین دن بعد ہی انہوں نے کانگریس کے منتخب کردہ سربراہ ایڈیارڈو ڈوہالڈے کے لیے عہدہ خالی کر دیا
اس کے بعد ایڈیاڈو ڈوہالڈے 2003 کے عام انتخابات تک اقتدار میں رہے
بھارت کے اٹل بہاری واجپائی کی تیرہ روزہ وزارت اعظمیٰ
سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے پاس اس مخصوص عہدے میں مختصر ترین مدت کا ریکارڈ ہے، جو 1996 میں پارلیمانی انتخابات کے بعد اتحادی اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد صرف تیرہ دن تک اقتدار میں رہے تھے
وہ 1998ع میں ملک کے وزیر اعظم بنے، لیکن ان کی وزارت عظمیٰ کی مدت صرف تیرہ ماہ ہی رہی، جب ایک اور سیاسی اتحاد ٹوٹ گیا اور پارلیمنٹ تحلیل ہو گئی
تاہم، واجپائی کی پارٹی (بی جے پی) نے ایک بار پھر آنے والے انتخابات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اور وہ 1999 اور 2004 کے درمیان تیسری مدت کے لیے بھارت کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے
سیرا لیون کا دلچسپ ڈبل ریکارڈ
یہ سچ میں ایک دلچسپ ریکارڈ ہے۔۔سیاکا اسٹیونز، سیرا لیون کی تاریخ میں سب سے کم مدت تک رہنے والے وزیر اعظم اور سب سے طویل مدت تک رہنے والے صدر ہیں
وہ سنہ 1967ع میں ایک سخت انتخابی مقابلے میں منتخب ہوئے تھے اور انہیں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے معزول اور اسی دن گرفتار کر لیا گیا، جس دن انہوں نے حلف اٹھایا تھا
تاہم، آخری قہقہہ اسٹیونز نے لگایا اور وہ فوجی حکمرانی کے خاتمے کے ایک سال بعد دفتر میں واپس آئے اور 1971ع سے 1985ع تک صدر کی کرسی پر براجمان رہے اور ایک دن کی وزارت عظمیٰ کی ساری کسریں چودہ برس صدر رہ کر نکال دیں
ان کا دورِ صدارت آمرانہ رہا، جس میں ان پر انسانی حقوق کی خلاف وزریوں اور انتخابی دھاندلی کے الزامات بھی لگتے رہے
جنوبی افریقہ میں 24 ستمبر 2008 کو وزیر مواصلات آئیوی ماتسیپی ملک کی پہلی خاتون صدر بنیں۔ اس سے قبل تھابو مبیکی مستعفی ہوئے تھے
بطور قائم مقام صدر ان کا دورِ اقتدار صرف پندرہ گھنٹے تک رہا، تاہم جنوبی افریقی پارلیمان نے مبیکی کے متبادل کے طور پر ایک دوسرے وزیر کا انتخاب کر لیا
آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت کی صدارت
ارجنٹائن کے صدر کی مثال کے علاوہ لاطینی امریکہ میں ایسے اور بھی بہت سے صدور رہے ہیں، جن کا دور انتہائی مختصر تھا۔ میکسیکو کے پيدرو لاسكورين فوجی بغاوت کے دوران آدھے گھنٹے سے کم دیر کے لیے صدر رہے۔ اس بغاوت میں فروری 1913ع ک دوران فرانسیسکو مدیرو کا تخت الٹایا گیا تھا
برازیل میں صدر کے بیمار پڑنے پر کارلوس لوز نے 8 نومبر 1955 میں صدارت کا عہدہ سنبھالا۔ اس وقت برازیل میں ایک صدر منتخب ہوچکا تھا، مگر ان کا دور جنوری 1956 میں شروع ہونا تھا
تین روز بعد لوز نے وزارت دفاع کے حکم پر عہدہ خالی کر دیا، جن کا دعویٰ تھا کہ وہ تقریب حلف برداری سے قبل بغاوت کی تیاری کر رہے ہیں
سینیٹ کے ایک رہنما نيريو راموس نے پھر دو ماہ کے لیے عہدہ سنبھالا
مختصر بادشاہ
بادشاہوں اور ملکاؤں کی قسمت اچھی ہے کہ انہیں الیکشن نہیں لڑنا پڑتا اور وہ جمہوری انقلابوں میں قدرے محفوظ رہتے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی بادشاہ کا دور مختصر نہیں ہو سکتا
سنہ 1946 میں اٹلی کے بادشاہ اومبیرتو دوم اپنے والد کی دستبرداری سے تخت نشین ہوئے۔ مگر شاہی خاندان کے خلاف مظاہروں نے انہیں غیر مقبول رہنما ثابت کیا۔ ریفرنڈم میں 54 فیصد شہریوں نے جمہوری ریاست کے حق میں ووٹ دیا اور امبیرتو صرف 34 دنوں تک بادشاہ رہ سکے
نیپال کے بادشاہ دیپندرا کا دور اس سے بھی زیادہ مختصر تھا
یکم جون 2001 میں ولی عہد دیپندرا نے اپنے والدین اور نیپالی شاہی خاندان کے دیگر افراد کا قتل کر دیا۔ وہ مبینہ طور پر اپنے رشتہ داروں کی جانب سے شادی کی مخالفت پر ناراض تھے
اس قتل کے بعد دیپندرا نے خود کو گولی مار کر خودکشی کی کوشش کی
وہ خود کو مارنے میں ناکام رہے اور کوما میں چلے گئے۔ ان کی موت تین روز بعد ہوئی۔ اس دوران تکنیکی اعتبار سے دیپندرا اُس وقت بھی نیپال کے بادشاہ تھے
مگر سب سے قلیل مدتی دور فرانسیسی بادشاہ شاہ لوئس-12 کا رہا۔ 2 اگست 1830 میں والد کی دستبرداری کے بعد تخت نشین ہوئے مگر شاہی خاندان کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو گئے
یوں لوئس کو محض بیس منٹ بعد ہی اپنے بھانجے ڈیوک آف بورڈو کے حق میں دستبردار ہونا پڑا۔