پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے اصغر ندیم سید نے کئی شہرہ آفاق ڈرامے لکھے ہیں، جن میں دریا، پیاس اور دستک نمایاں تھے
چونکہ یہ ڈرامے پی ٹی وی کے لیے تھے تو ظاہر سی بات ہے کہ ایک خاص قسم کا روایتی ماحول اور سینسر شپ کی پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا
اصغر ندیم سید بہت کچھ لکھنا چاہتے لیکن قلم جیسے مختلف پابندیوں کی زنجیروں میں قید تھا، لیکن اس کے باوجود وہ کئی حساس اور چھبتے ہوئے موضوعات کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ اسکرین پر کسی نہ کسی طرح دکھا دیتے
پاکستان کے اکلوتے سرکاری ٹی وی چینل کے ہوتے ہوئے 90 کی دہائی کے آغاز میں نیٹ ورک ٹیلی ویژن مارکیٹنگ یعنی این ٹی ایم کا قیام عمل میں آیا
پاکستانی ناظرین کے لیے نہ صرف اسے خوشگوار تجربہ تصور کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ ملک کا پہلا نجی ٹی وی چینل ہونے کا اعزاز بھی رکھتا ہے
ابتدا میں این ٹی ایم پر دن بھر امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی نشریات دکھائی جاتیں اور پھر شام ڈھلتے ہی تفریحی پروگراموں کی بھرمار ہوجاتی۔ انگریزی زبان کی فلموں کے علاوہ پنجابی اور اردو فلمیں بھی نشر ہوتیں جبکہ مختلف میوزیکل شوز بھی نشریات کا حصہ بنتے
اس نیٹ ورک کو بعد میں ’ایس ٹی این‘ کا نام دیا گیا، جس سے ناظرین کے لیے دلچسپ پروگراموں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان میں بیشتر پروگرام روایتی سٹوڈیو کی چار دیواری سے نکل کر پرفضا یا تاریخی مقام پر عکس بند کیے جاتے۔ کہا تو یہ بھی جاتا کہ ان پروگراموں کے لیے پی ٹی وی کے پروڈیوسرز کی خدمات حاصل کی جاتیں جو در پردہ ان پروگراموں کو تیار کرتے
جب چینل انتظامیہ نے ایک نئے ڈرامے ’چاند گرہن‘ کی شروعات کی تو خصوصی طور پر اصغر ندیم سید کو مدعو کیا گیا۔ غالباً انہیں اس بات کی زیادہ مسرت تھی کہ جو تب تک کی تحریروں میں تشنگی رہ گئی تھی، وہ اس ڈرامے کے ذریعے پوری ہونے والی تھی۔ اصغر ندیم سید کو بتادیا گیا کہ وہ کھل کر لکھ سکتے ہیں۔ ان کے مکالمات یا کہانی پر کوئی قدغن نہیں لگائی جائے گی
اصغر ندیم سید کے مطابق وہ 90 کی دہائی میں مستقبل کے پاکستان کو دیکھ رہے تھے، جس میں ریاست کے تین اہم ستونوں یعنی بیوروکریسی، سیاست اور صحافت کے ملاپ کے تانے بانے ان کے ذہن میں گردش کر رہے تھے
یہ وہ ستون ہیں، جو ہر دور میں اقتدار کے شراکت دار رہتے ہیں۔ یہی نہیں یہ شعبے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ وہ کسی کو بھی گرانے کے لیے اکیلے ہی کافی ہیں
’پاور شیئرنگ‘ کا جنون اور خبط ایسا کہ جو راہ میں آئے اسے روند دیں۔ اصغر ندیم سید کا کہنا ہے کہ اگر دور حاضر کا جائزہ لیں تو ان کا ڈراما اتنے عرصے گزرنے کے باوجود ایسا ہی لگے گا کہ جیسے آج کی کہانی ہے
اصغر ندیم سید نے ان تینوں شعبوں کی شخصیات کو پہلے دوست بنایا اور پھر ان کے اختلافات سے کیا گل کھلتے ہیں، اسے بڑی خوبصورتی کے ساتھ ڈرامائی رنگ دیا گیا اور یہی ڈراما سیریل ’چاند گرہن‘ کا خاصہ بن گیا
اسے تخلیق کرنے کے لیے پی ٹی وی کے تجربہ کار ہدایت کار حیدر امام رضوی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب یہ ڈراما نشر ہوا تو ہدایت کار کے طور پر تاجدارعالم کا نام سکرین پر جھلملایا۔ وجہ وہی تھی کہ پی ٹی وی کے کسی ہدایت کار کو کسی اور چینل یا نجی پروڈکشن کے لیے کام کرنے کی اجازت نہیں تھی
ڈراما سیریل ’چاند گرہن‘ میں سیاست دان کے روپ میں شفیع محمد شاہ جلوہ گر ہوئے۔ ابتدا میں محمود صدیقی کو یہ کردار ملنے والا تھا لیکن پھر شفیع محمد کا نام فائنل ہوا
اصغر ندیم سید کے مطابق شفیع محمد کا انتخاب اس لیے عمل میں لایا گیا کیونکہ یہ ایسے سیاست دان کا کردار تھا جو روایتی طور پر سنگ دل نہیں بلکہ عوام کا دکھ درد سمجھتا ہے۔ دھیمے لب و لہجے کا حامل ہے، جس کے مزاج میں ٹھہراؤ ہے اور جو مفاہمت اور مکالمے پر یقین رکھتا ہے
اصغر ندیم سید کا کہنا ہے کہ ’چاند گرہن‘ سے پہلے شفیع محمد عام سے روایتی کردار ادا کرتے رہے تھے۔ اس اعتبار سے ان کا یہ کردار ذرا مختلف نوعیت کا تھا
وہ کہتے ہیں کہ جس طرح ٹھنڈے مزاج کے سیاست دان شفیع محمد تھے، جہانیاں شاہ یعنی سہیل اصغر ان کے بالکل الٹ ایک کردار تھا۔ ایک سر پھرا اور سفاک بے رحم بیٹا، جو والد کے برعکس لوگوں کو ڈرا دھمکا کر رکھنے کا قائل تھا
یہی نہیں، بہن شہر بانو (ہما نواب) کی تعلیم اور اس کی آزاد خیال سوچ کے خلاف بھی وہ والد سے احتجاج کرتا رہتا تھا۔ اصغر ندیم سید کے مطابق سہیل اصغر کو اس کردار میں پیش کرنے کی انہوں نے حمایت کی تھی کیونکہ ’پیاس‘ میں ان کی اداکاری سے وہ خاصے متاثر ہوئے تھے
اصغر ندیم سید کا کہنا ہے کہ بیوروکریٹ خاور کے لیے شکیل احمد کا چناؤ اس لیے بھی ہوا کہ یہ کردار ایک مہذب انسان کا تھا جو درحقیقت گُھنا قسم کا ہے۔ شکیل نے اب تک جن ڈراموں میں کام کیا تھا ان کی شخصیت مثبت انداز کی بن چکی تھی اورناظرین کے لیے سب سے چونکا دینے والا وہ روپ تھا جو وہ ڈرامے کی اختتامی اقساط میں دکھاتے ہیں
بیٹے عبداللہ کادوانی کے سیاسی مستقبل کے لالچ میں ہما نواب کو بیٹے کی مرضی کے خلاف بہو بنانا لیکن پھر ذہنی ہم آہنگی کے فقدان کی بنا پر یہ رشتہ زیادہ عرصے قائم نہیں رہتا، جس کا انتقام وہ روایتی افسر شاہی کی شاطرانہ چالوں کا استعمال کرکے شفیع محمد کی دنیا ہی اجاڑ دیتے ہیں
اسی طرح ریاست کا تیسرا اہم ستون اخبار کا مالک کمال تھا۔ یہ کردار مرحوم قاضی واجد کے حصے میں آیا جن کا بیٹا ناصر یعنی ایاز نائیک اصولی صحافت پر یقین رکھتا ہے جو معاشرے کی برائی کو ختم کرنے کے لیے قلم کو ہتھیار بنانے کا عزم رکھتا ہے لیکن والد ہر چیز کو نفع و نقصان کے ترازو میں تولتے ہیں
کمال صاحب کو اخبار کی سرکولیشن بڑھانے کے ساتھ اپنے سیاست دان اور بیوروکریٹ دوست کے مفادات زیادہ عزیز ہیں، اسی لیے باپ بیٹے کی اصولوں کی جنگ چلتی رہتی ہے
دلچسپ کہانی تو یہ بنتی ہے کہ ناصر یعنی ایاز نائیک کو ہما نواب پسند کرتی ہیں لیکن طبقاتی تفریق کی بنا پر دونوں کی شادی نہیں ہو پاتی
یقینی طور پر ڈرامے کا نام ’چاند گرہن‘ اس سوچ کی عکاسی کر رہا تھا کہ اس میں موجود مرکزی کرداروں کی اولادیں جیسے ہما نواب، ایاز نائیک، سہیل اصغر یا پھر عبداللہ کادوانی اپنے نظریات اور سوچ کی بنا پر والدین کے لیے ’گرہن‘ بنتے جارہے ہیں
اصغر ندیم سید کا کہنا تھا کہ جب آپ کے ڈرامے کی تھیم مضبوط ہو تو اسکرپٹ، مکالمے یا اسکرین پلے لکھنا آپ کو کبھی بھی مشکل سے دوچار نہیں کرتا۔ کچھ ایسا ہی ان کے ساتھ ’چاند گرہن‘ کی تیاری کے دوران ہوا
انہیں معلوم تھا کہ کب کس کردار کا انہوں نے ایک دوسرے سے تصادم کرانا ہے۔ کب کہانی میں کون سا ڈرامائی موڑ لانا ہے۔ یہ سب ان کے ذہن میں ایک کے بعد ایک محفوظ تھا۔ جبھی اصغر ندیم سید نے ’چاند گرہن‘ کی تمام تر اقساط ایک ہی ساتھ لکھ کر ہدایت کار کے حوالے کی تھیں
اس ڈرامے میں کئی کہانیاں تھیں، جو مختلف مراحل سے گزر کر ایک ٹریک پر آ کر ملتی تھیں۔ جہاں اس میں صحافت، سیاست اور افسر شاہی کا گٹھ جوڑ دکھایا گیا۔ وہیں بنگلہ دیش سے فلموں کا جھانسا دے کر لانے والی رقاصہ شیما کرمانی کو کس طرح مکروہ دھندے میں دھکیلنے کی کوشش کی جاتی ہے، اسے بھی بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا
یہی نہیں، سیاست دانوں کی ماضی کی مشہور گلوکارہ یا اداکارہ سے معاشقے، جیسے شاہ جی یعنی شفیع محمد نے سب سے پوشیدہ رکھتے ہوئے شہر میں ماضی کی گلوکارہ گل بہار بیگم یعنی فریال گوہر سے بیاہ رچایا ہوتا ہے، جن کی زندگی کے تاریک پہلو کا ایک کردار دلبر یعنی گلاب چانڈیو اسے بلیک میل کرنے پر تلا ہوتا ہے
سب سے نمایاں یہ پہلو رہا کہ سیاست دان اور افسر شاہی کے تعلقات اور پھر اس تعلق کو مضبوط کرنے کے لیے رشتے داریوں میں انہیں بدلنا اور پھر مطلوبہ مقاصد نہ ملنے پر یہی ستون کس طرح اپنی اصلیت دکھاتے ہیں
’چاند گرہن‘ کی پہلی قسط سے ہی اس پر اشتہاروں کی بھرمار ہو گئی
اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ عام طور پر اس وقت ڈراموں میں چار سے پانچ منٹس کے لیے کمرشل کا وقفہ آتا لیکن ’چاند گرہن‘ میں کم و بیش پندرہ سے بیس منٹ یا کبھی کبھی یہ دورانیہ نصف گھنٹے تک جا پہنچتا، مگر ناظرین اسکرین کے سامنے سے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتے تھے
اصغر ندیم سید کا کہنا ہے کہ وقفے کی طوالت پر کئی لطائف بھی بنے۔ مثلاً ایک اخباری کارٹون انہیں یاد ہے، جس میں جیسے ہی ’چاند گرہن‘ میں وقفہ آتا ہے تو دوست کے گھر مہمان آیا، شوہر بیوی سے کہتا ہے کہ چلیں بیگم گھر چلیں جب تک گھر پہنچیں گے تو وقفہ ختم ہو چکا ہوگا
اصغر ندیم سید بتاتے ہیں کہ ایس ٹی این کی نشریات چونکہ محدود شہروں میں تھی اور ’چاند گرہن‘ کی شہرت عروج پر تھی تو حیدرآباد کا ایک ڈھابہ مالک، جس دن ڈراما نشر ہوتا کراچی میں اس کی ریکارڈنگ کرواتا اور پھر یہ کیسٹ اس تک ڈیڑھ سے دو گھنٹے میں پہنچائی جاتی، جسے وہ وی سی آر پر لگا کر ڈھابے پر آنے والوں کو دکھاتا اور اس سارے عرصے میں وہ چائے کی فی پیالی دس روپے کی فروخت کرتا، جو ڈھابے پر آنے والے مہنگی ہونے کے باوجود خوشی خوشی پیتے کیونکہ اس دوران وہ ’چاند گرہن‘ کی نئی قسط کا دیدار جو کر رہے ہوتے تھے
ہر قسط کا ’فرسٹ ڈے فرسٹ شو‘ اسی طرح ہاؤس فل جاتا، جس سے ڈھابے والا خوب کماتا
ڈراما سیریل ’چاند گرہن‘ میں جہانیاں شاہ کا تکیہ کلام ’ہم مالک ہیں اس زمین کے‘ ہو یا پھر گلاب چانڈیو کا ’ارے واہ واہ۔۔ میری جان کے ٹوٹے‘ یا پھر اسی طرح شیما کرمانی کا یہ کہنا ’ہم کو ناؤ منگا دو‘ زبان زد عام ہوئے بلکہ آج تک مشہور ہیں
اصغر ندیم سید یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ڈرامے کے کچھ فنکار، اداکاری میں کمزور رہے لیکن دیگر اداکاروں کے کردار اس قدر پر اثر اور مضبوط تھے کہ کسی کو ان فنکاروں کی اداکاری میں جھول محسوس نہیں ہوا
’چاند گرہن‘ صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں مقبول ہوا۔ ’چاند گرہن‘ نے درحقیقت نجی ٹی وی چینل کو بلند مقام بنانے میں خاصی مدد دی
یہی وجہ ہے کہ بعد میں ایس ٹی این سے جو بھی ڈرامے بنے، ان میں ’چاند گرہن‘ والا اعلیٰ معیار برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی
یہ اعزاز بھی اصغر ندیم سید کو جاتا ہے کہ ان کے ایک اور پی ٹی وی ڈراما سیریل ’ہوائیں‘ پر اس بات کی بھی شرطیں لگی تھیں کہ ڈرامے میں طلعت حسین کو پھانسی ہوگی کہ نہیں؟
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو