لکھاری کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی کتھا لکھنے کی بجائے دوسروں کے بارے میں لکھے۔ لیکن جب اپنی کتھا ہر ایک کی کتھا ہو تو پھر اپنی کتھا لکھنا ہی پڑتی ہے۔ میں ایک اوورسیز پروموٹر ہوں۔ اپنے روزگار کے ذریعے ضرورت مند پاکستانیوں کو بیرون ملک بھیجتا ہوں، یوں اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کی بہتر مستقبل کے لئے کوشش کرتا ہوں۔ میری اپنی زمینیں ہیں، گھر ہے، حجرہ ہے، مسجد ہے اور قبرستان ہے۔ میرے پاس اپنے مہا دادا خوشحال خان خٹک تک اپنے خاندان کا شجرہ نسب موجود ہے۔ مغل انگریز اور پاکستان سے پہلے میرا خاندان اسی زمین پر آباد تھا۔ اس لیے میں اپنی زمین نہیں چھوڑنا چاہتا لیکن پاکستانی شہریت چھوڑنا چاہتا ہوں
عدالت جا کر سیشن جج کو درخواست دی۔ انہیں بتایا کہ میں شہریت منسوخ کرنا چاہتا ہوں، بڑی تفصیل سے سننے کے بعد انہوں نے مجھے چائے پلا کر بتایا کہ ان کے پاس ایسا کوئی قانونی اختیار نہیں جس کو استعمال کرتے ہوئے وہ میری شہریت منسوخ کردے۔ کئی ایک مشہور وکلاء سے مشورہ کیا لیکن مجھے کوئی راستہ نہیں ملا
نادرا کے دفتر گیا ان کو بتایا کہ جب آپ نہیں تھے، میں تب بھی پاکستانی تھا، اگرچہ اب آپ کے کہنے سے ہم پاکستانی اور غیر ملکی بنتے ہیں، مجھے بتائیں میں کیسے اپنی پاکستانی شہریت چھوڑ سکتا ہوں۔ نادرا کے ڈائریکٹر نے مجھے بتایا کہ ہمارے پاس ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ میرا دادا انگریز کا خطاب یافتہ خان بہادر اور اسسٹنٹ کمشنر تھا جنہوں نے قومی جذبے کی وجہ سے تیرہ ہزار جریب زمین کی منسوخی اور اپنا عہدہ چھوڑنا قبول کیا لیکن حریت فکر نہیں چھوڑی۔ میرا والد تحصیلدار بھرتی ہوا تھا اور تربیلا ڈیم سے کلکٹر ریٹائرڈ ہوا لیکن ایک پیسہ حرام کا نہیں بنایا، میں اب بھی 1893 میں بنے اپنے آبائی گھر میں رہتا ہوں۔ اب سوچتا ہوں کہ ہائیکورٹ میں رٹ داخل کردوں تاکہ میری پاکستانی شہریت منسوخ کردی جائے
میں نے دنیا دیکھی ہے لیکن میں کسی ریٹائرڈ جج جرنیل یا بیوروکریٹ کی طرح پاکستان چھوڑ کر اقتصادی مہاجر نہیں بننا چاہتا کیونکہ پاکستان میرا ملک ہے، یہاں میرے پرکھوں کی ہڈیاں دفن ہیں، میرے نام پر یہاں پر زرعی زمینوں کے انتقالات ہیں۔ یہی میری پہچان اور یہی میرا فخر و مباہات ہیں
پتہ نہیں کس کس نے اور کیوں قرضے لیے لیکن اس کی واپسی میں کر رہا ہوں۔ ورلڈ بنک، آئی ایم ایف، ایشیئن ڈیولپمنٹ بنک اور دیگر ممالک سے ساٹھ ہزار ارب ڈالر کے قرض لیے گئے جس پر سیاستدان جج اور جرنیل عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں
باقاعدہ ہر قسم کا ٹیکس دیتا ہوں اور پاکستان کے تمام محکموں اور ان کے ایمپلائز کو پالتا ہوں جنہوں نے حقیقت میں پاکستانی عوام کو سہولیات دینی تھیں لیکن میں نے انہی کو وہ ساری سہولیات فراہم کی ہیں
بلا ضرورت اتنی بڑی فوج کو پالتا ہوں جن کو بجٹ کا وافر حصہ ملتا ہے۔ اپنا تعلیمی معیار گرا کر بیوروکریٹس اور جرنیلوں کے بچوں کو پاکستان کے اعلی سکولز، کالجز اور یونیورسٹیوں میں پڑھاتا ہوں۔ خود کو بے روزگار رکھ کر حکمرانوں اور ان کے رشتہ داروں کو روزگار دلاتا ہوں۔ ناقابل اعتماد سرکاری ڈاکٹروں کو بروقت تنخواہیں دلانے میں کوئی غفلت نہیں کی، بلکہ انہی سرکاری ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس میں بھی ان کی کلینکس جاکر ان کی مدد کرتا ہوں، حالانکہ یہ ڈاکٹر اتنے ناقابل اعتماد ہیں کہ کوئی حکمران اور بیوروکریٹس اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا علاج ان سے کرنے کے لئے تیار نہیں اور یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی، کہ یہ سب قصائی ہیں، میں اپنا اور اپنی بیوی بچوں کا علاج ان سے کراتا ہوں
جرنیلوں نے 1947ع سے لے کر اب تک کوئی جنگ نہیں جیتی، البتہ ان کی وجہ سے ملک دو لخت ہو گیا، آئین توڑ کر کئی مرتبہ اور سول حکمرانوں سے بڑھ کر ہم پر حکمرانی کی لیکن ملک کی محبت میں میں چپ رہا۔ ان کو بارڈرز کی فکر کرنی چاہیے تھی، لیکن وہ تجارت کرنے میں مصروف ہیں۔ پھر بھی میں نے انہیں الگ سے ہسپتال ان کے بچوں کے لئے تعلیمی ادارے اپنے بچوں کے مستقبل کی قیمت پر بنا کر دیے ہیں
کسی نے غیر ملکی قرضے لے کر مجھے مقروض بنایا، وہ قرضے انہوں نے اپنی مرضی سے خرچ کیے ، لیکن حساب مجھ سے مانگا جا رہا ہے۔ ان کی انتہائی ناقص کاروباری پالیسیوں کی وجہ سے ملکی صنعتیں برباد ہو گئیں جس سے 80 فی صد سے زیادہ کارخانوں کو مہنگی بجلی اور ظالمانہ ٹیکسوں نے چھوٹے اور درمیانے لیول کے سرمایہ داروں کو ذلیل و خوار کیا۔ پارلیمنٹیرینز کو ترقیاتی کام پر 30 فی صد کمیشن، فری بجلی گیس تیل ایئرلائن ٹکٹ نوکریوں میں کوٹہ دلایا۔ جب کہ ہم مہنگی بجلی گیس تیل اور بیروزگاری کے ہاتھوں مر رہے ہیں
ٹریفک کی بدترین نظام کی وجہ سے روزانہ سینکڑوں افراد موت کے منہ میں جاتے ہیں اور کچھ مکمل اپاہج ہو جاتے ہیں۔ ستتر سال ہوئے میں ہر پل اور ٹال ٹیکس پر لوٹا جا رہا ہوں لیکن ٹریفک کا نظام ٹھیک نہیں ہوتا
حکومت، آئین، پاکستانی قانون، حکمران، بیوروکریٹس، لاتعداد محکمے، بھانت بھانت کے وزیر مشیر موجود ہیں لیکن ملاوٹی اشیاء، جعلی ادویات، بچوں کے لئے زہرآلود سویٹس بند نہیں ہوئے۔ ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی، نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغواء روبہ ترقی ہے اور ہم دنیا کے ایک نمبر کے ادارے بھی رکھتے ہیں۔ 130 ممالک میں پاکستانی عدلیہ 126 ویں نمبر ہے لیکن دنیا بھر میں سب سے زیادہ خوشحال اور با اختیار جج بھی ہمارے ہیں۔ کھلم کھلا کرپشن، لوٹ کھسوٹ جاری ہے لیکن نظام آئین قانون میں کوئی اسے پوچھنے اور روکنے والا نہیں
پارلیمنٹ میں بحث ہوتی ہے کہ ہمارے مدارس امریکی جنگ کی چھاؤنیاں تھیں اور اب بھی وہاں دینی علوم کی بجائے جنگجو تیار ہو رہے ہیں۔ علماء پاکستان اور اسلام کے نام پر فنڈ لے کر جائیدادیں بناتے اور اثاثے بڑھاتے ہیں جس کی وجہ سے ستر ہزار معصوم شہری قتل ہوئے تو دوسری طرف تعلیمی اداروں میں بے مقصد کتابیں پڑھا کر قوم کے ساتھ مذاق جاری ہے۔ بلدیاتی نظام سے لے کر اوقاف تک تمام ادارے ملکی اثاثوں کو لوٹ رہے ہیں
جیلوں میں منشیات سے لے کر جنسی خواہشات کی تکمیل تک سب کچھ ملتا ہے۔ سو روپے کے اسٹامپ پر سزا یافتہ لوگ بیرون ملک جاتے ہیں اور قومی خزانہ لوٹنے والے کے جرم میں مفرور وزیراعظم کے جہاز میں بیٹھ واپس آ جاتے ہیں۔ ہمارے بعد اب اپنی عیاشیوں کے لئے کی ملکی اثاثے گروی رکھے جا رہے ہیں۔ خطے میں بدامنی پھیلا کر ہمسایہ ممالک سے مفت کی دشمنیاں بناتے ہیں۔ حکمران ملک پر آفت نازل ہونے کے لئے دعائیں مانگتے تاکہ باہر سے امداد آئے اور یہ ہڑپ کرے۔ ستتر سال کے لوٹ مار کی کہانی لکھنے کے لئے یہاں جگہ ناکافی ہے
میں باغی ہوں نہ بھگوڑا بننا چاہتا ہوں لیکن مزید جرنیلوں بیورو کریٹوں ججوں اور دوسرے طفیلیوں کی عیاشیوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ ہاں مجھ پر اور میرے بچوں پر، لیے گئے ملکی قرضے کا جتنا بوجھ پڑتا ہے، وہ یکمشت ادا کرنے کے لئے تیار ہوں، لیکن آئندہ کوئی قرضہ اور اس کے لئے بجلی گیس تیل اور اشیائے خورد و نوش کی مد میں لگایا گیا کوئی ٹیکس دینے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ اس لیے اپنی شہرت منسوخ کرنا چاہتا ہوں۔ اگر ایسا نہیں ہو سکتا ، تو پھر مجھے ستتر سالوں سے ادا کیے گئے میرے ٹیکسز کا حساب دیا جائے۔۔ ایف بی آر مجھ سے کیسے حساب مانگ سکتا ہے حساب میں نے لینا ہے!
بشکریہ: ہم سب
(ادارے کا کالم نگار کی رائے اور ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)