نیگلیریا فولیری: ’دماغ کھانے والا امیبا‘ انسانوں کے لیے کتنا خطرناک ہے؟

ویب ڈیسک

گزشتہ دنوں لاس ویگاس کی میڈ جھیل میں ’دماغ خور امیبا‘ کے سبب ایک نوجوان کی موت کی وجہ سے عوام میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے

تاہم ماہرین کے مطابق یہ میٹھے پانی کی جھیلوں، دریاؤں اور چشموں میں تفریح کے مقصد سے جانے والے لوگوں کے لیے احتیاط برتنے کا وقت ہے خوفزدہ ہونے کا نہیں

اس ضمن میں وبائی امراض کے ماہر برائن لیبس کا کہنا ہے ”چونکہ اس امیبا کا نام ’دماغ کھا جانے والا‘ امیبا ہے، اس لیے لوگ اس پر اتنی توجہ دے رہے ہیں۔ قدرتی طور پر پانی میں پائے جانے والے اس جاندار کو عموماً ’نیگلیریا فولیری‘ کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن عام فہم زبان میں اسے ‘دماغ خور امیبا‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ لیبس نے کہا، ”یہ ایک کمیاب بیماری ہے۔‘‘

لاس ویگاس کی نیواڈا یونیورسٹی کے اسکول آف پبلک ہیلتھ میں لیکچرر کے طور پر فرائض انجام دینے والے برائن لیبس کا کہنا ہے ”بیماریوں کے روک تھام کے وفاقی مرکز کے اعداد و شمار کے مطابق 1962ء سے لے کر اب تک امریکہ میں امیبا سے انفیکشن اور موت کے صرف 154 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان میں سے تقریباً نصف کیسز کا تعلق ٹیکساس اور فلوریڈا سے ہے۔ اس حالیہ کیس سے قبل نیواڈا میں صرف ایک ایسا کیس رپورٹ ہوا تھا۔ انہوں نے کہا، ”میں اس صورتحال کو خطرناک قرار نہیں دوں گا۔‘‘

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو لوگ پانی والی جگہوں پر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، انہیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے

انہوں نے کہا کہ یہ ایک نایاب مائیکروسکوپک جاندار ہے، جو 77 ڈگری فارن ہائیٹ (25 سینٹی گریڈ) سے 115 ڈگری (46 سینٹی گریڈ) کے درجہ حرارت والے پانیوں میں پایا جاتا ہے

جنوبی نیواڈا ہیلتھ ڈسٹرکٹ نے نیگلیریا کے باعث ہلاک والے نوجوان کی شناخت اب تک نہیں کی ہے، لیکن اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ اس نوجوان کی ہلاکت کا باعث دریائے کولوراڈو میں موجود یہ خوردبینی جاندار ہی ہے

متعلقہ علاقے کے صحت عامہ کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ امیبا ناک کے ذریعے دماغ میں داخل ہوکر نقصان پہنچاتا ہے اور اس صورت میں جانبر ہونا تقریباً ناممکن ہے

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر اس امیبا کو نگل لیا جائے تو یہ لوگوں کو متاثر نہیں کر سکتا اور یہ ایک شخص سے دوسرے میں منتقل بھی نہیں ہو سکتا

حکام کی جانب سے عوام کو تنبیہہ کی گئی ہے کہ وہ پانی میں غوطہ زنی سے گریز کریں خصوصاً موسم گرما میں پانی میں جانے سے گریز کریں اور تفریحی مقاصد سے پانی کی سیر کو جانے والے غوطہ خور اپنا سر پانی سے باہر ہی رکھیں

سیلولر بائیولوجی کے پروفیسر اور جارجیا یونیورسٹی میں سینٹر فار ٹراپیکل اینڈ ایمرجنگ گلوبل ڈیزیز کے ڈائریکٹر ڈینس کائل کا کہنا ہے کہ یہ امیبا 97 فی صد مہلک ہے، لیکن 99 فی صد تک اس سے بچاؤ بھی ممکن ہے

انہوں نے کہا ”نوز پلگز کا استعمال کریں اور کوشش کریں کے پانی آپ کی ناک میں نا جائے۔‘‘

یہ امیبا بنیادی طور پر دماغی انفیکشن کا سبب بنتا ہے، جس کی علامات میننجائٹس یا انسیفلائٹس سے ملتی جلتی ہیں، جن میں ابتدائی طور پر سر درد، بخار، متلی یا الٹی شامل ہوتی ہے۔ پھر مریض کو گردن کے کھینچاؤ کا سامنا ہوتا ہے، اس کے بعد دورے پڑتے ہیں اور پھر مریض کوما میں چلا جاتا ہے، جو موت کا باعث بن سکتا ہے

یہ علامات مریض کے جسم میں امیبا داخل ہونے کے ایک سے بارہ دن بعد ظاہر ہو سکتی ہیں اور موت عام طور پر تقریباً پانچ دنوں کے اندر ہو جاتی ہے۔ اس کا کوئی مؤثر علاج نہیں ہے۔ کائل کے مطابق اس بیماری کی تشخیص ہمیشہ دیر سے ہوتی ہے

کئی دہائیوں سے حیاتیات کا مطالعہ کرنے والے کائل نے کہا کہ اعداد و شمار سے فوری طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے گرم ہونے والے پانیوں کے باعث اس امیبا کی افزائش ہوتی ہے۔ تاہم ان کے مطابق وہ ملک بھر میں اس امیبا سے متاثر چار سے بھی کم کیسز کے بارے میں جانتے ہیں

ایک سروے کے مطابق اس دماغ خور امیبا کے کیسز شمالی کیلیفورنیا، نیبراسکا اور آئیووا میں پائے گئے

’دماغ کھانے والا امیبا‘ اور پاکستان

رواں سال ستمبر کے اواخر میں پاکستان میں پہلی مرتبہ جمیل الرحمن سینٹر فار جینوم ریسرچ، جامعہ کراچی نے یونیورسٹی کے شعبے بائیو کیمسٹری کے تعاون سے انسانی دماغ کھانے والے خطرناک امیبا “نیگلیریا فولیری ’’Naegleria fowleri‘‘ کی جینو ٹائپنگ کی ہے، اس کے متاثرین میں موت کی شرح 98 فیصد ہے

تحقیق کے لیے نمونے پرائمری ایمیبک میننگو نسفلائٹس کے مرض سے متاثرہ اٹھائیس سالہ مریض کی ریڑھ کی ہڈی اوراُس کے گھر کے نل سے حاصل کیے گئے تھے

بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی کے سربراہ اور کامسٹیک کے کوارڈینیٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری کے مطابق دنیا میں متاثرہ ملکوں میں پاکستان دوسرے درجے پر ہے، جب کہ پاکستان میں کراچی سب سے زیادہ متاثرہ ہے جس کی اہم وجہ پانی سپلائی کا ناقص نظام ہے

ان کا کہنا تھا کہ نیگلیریا کی جانچ کے لیے کراچی کے 18 مختلف ٹاون سے 40 پانی کے نمونے لیے گئے، جس سے معلوم ہوا کہ تقریبا 71.79 فیصد علاقوں میں وہ پینے کا پانی فراہم کیا جارہا ہے جس میں یا تو کلورین بہت کم ہے یا موجود ہی نہیں ہے

ڈاکٹر اقبال نے کہا کہ 28.21 فیصد پانی فراہم کرنے والی لائنوں میں کلورین کی باقیات ہیں مگر عالمی ادارہ صحت کی سفارش کردہ مقدار سے کم ہے

انھوں نے کہا کہ منوڑہ، نارتھ کراچی، نیو کراچی، گلشنِ حدید، ملیر، قائدآباد، کورنگی، کیماڑی، سوہراب گوٹھ، لیاری، اور گولیمار سے لیے گئے پانی کے نمونوں میں نیگلیریا پایا گیا ہے

واضح رہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہر سال مون سون بارشوں سے پہلے نیگلیریا فاؤلری سے چند افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں رپورٹ ہوتی ہیں

ہر سال پاکستان کے دیگر بڑے شہروں کی نسبت نیگلیریا فاؤلری کے کیس کی اکثریت کراچی سے ہی رپورٹ ہوتی ہے۔ اس کا کیا سبب ہو سکتا ہے؟ اس کے جواب میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے ’ایک تو کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، جس کی آبادی کئی شہروں سے زیادہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ کراچی کی آدھی سے زیادہ آبادی کو نل کا پانی نہیں ملتا اور وہ ٹینکر کا پانی خریدتے ہیں اور ٹینکر کے پانی کا معیار بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ کچھ عرصہ قبل کراچی کی 50 یونین کونسلوں سے پانی کے لیے گئے نمونوں میں سے 95 فیصد میں نیگلیریا مثبت آیا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں ’ایک تو کراچی میں ایسے کیسوں کے رپورٹ ہونے کے باعث لوگوں میں آگاہی ہے اس کے علاوہ کراچی میں پاکستان کے دیگر شہروں کی نسبت ہسپتالوں کی تعداد بھی زیادہ ہے، اور جدید ہسپتال بھی دیگر شہروں سے زیادہ ہیں جہاں دیگر امراض کی تشخیص کے علاوہ نیگلیریا کے ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں، اس لیے بظاہر یہ لگتا ہے کہ کیس زیادہ تر کراچی میں ہی رپورٹ ہوتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔

ڈاکٹر قیصر کے مطابق: ’نیگلیریا کے کیس دیگر شہروں میں بھی ہوتے ہوں گے مگر ٹیسٹ نہ ہونے کے باعث رپورٹ نہیں ہوتے ہوں گے کیوں کہ اس جرثومے کے متاثر ہونے کے بعد چند دن تک سر درد، بخار یا غنودگی کے بعد اگر کوئی فرد ہلاک ہوجاتا ہے تو گھر والے سمجھتے ہیں کہ کرونا تھا یا کوئی اور بیماری تھی مگر اصل میں نیگلیریا کا ٹیسٹ نہ ہونے کے باعث دیگر شہروں سے کیس سامنے نہیں آتے۔ میرے خیال پاکستان میں نیگلیریا کے کیس بڑی تعداد میں ہوتے ہیں، مگر یہ کیس خاموش ہیں۔‘

نیگلیریا فاؤلری کے متعلق ڈاکٹر قیصر سجاد کہتے ہیں: نیگلیریا فاؤلری کوئی بیکٹیریا یا وائرس نہیں ہے بلکہ یک خلوی جاندار امیبا کی ایک قسم ہے، جو دوسروں سے خوراک حاصل کرتا ہے۔ یہ جاندار صاف پانی میں پایا جاتا ہے اور عام طور پر تالاب، سوئمنگ پول یا گھر میں پانی کی ٹنکیوں میں ملتا ہے

ڈاکٹر قیصر سجاد کے مطابق: ‘نیگلیریا فاؤلری ایک دماغ خور جرثومہ ہے۔ جب کوئی فرد نیگلیریا فاؤلری سے آلودہ پانی میں نہاتا ہے یا ناک صاف کرتا ہے یا کسی اور طریقے سے پانی اگر ناک میں چلا جائے تو یہ جرثومہ ناک کے ذریعے دماغ میں جاکر دماغ کا اگلا حصہ کھانا شروع کر دیتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا :’نیگلیریا فاؤلری سے متاثر ہونے والے فرد کو پہلے ہلکا سر درد ہوتا ہے جس کے بعد غنودگی طاری ہونے لگتی ہے، طبیعت زیادہ خراب ہونے پر جب ہسپتال لایا جاتا ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور تب تک یہ جرثومہ فرد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکا ہوتا ہے۔ اس جرثومے سے متاثر 95 فیصد افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔‘

ڈاکٹر قیصر کہتے ہیں: ’پاکستان میں عام طور پر لوگ سر درد کو ہمیشہ ہلکا لیتے ہیں، جب سر درد ہوتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں شاید تھکن ہے اور خود سے کوئی سردرد کی گولی لے لیتے ہیں۔ نیگلیریا فاؤلری سے متاثر ہونے کے بعد اس مرض کا پتہ نہیں چلتا اور جب پتہ چلتا ہے تو دیر ہوچکی ہوتی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا ’اس جرثومے سے متاثر ہونے کے بعد علاج بہت مشکل ہے، اس لیے صرف احتیاط سے ہی اس مرض سے بچا جاسکتا ہے۔ نیگلیریا فاؤلری پانی میں کلورین یا کپڑے دھونے کے لیے استعمال ہونے والے بلیچ سے ختم ہو جاتا ہے، اس لیے لوگ اپنے گھروں کی ٹنکیوں میں کلورین کا استعمال کریں، مگر کلورین کی زیادہ طلب سے قیمت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، اس لیے لوگ اپنے گھروں میں 500 سے 1500 گیلن والی ٹنکی میں بلیچ کے صرف دو چمچ کا پیسٹ بنا کر ڈال دیں تو اس جرثومے کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور اتنے بلیچ سے انسانی صحت پر کوئی بھی منفی اثر بھی نہیں ہوتا۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close