جنگ کو ’صہیونی وجود‘ کے مرکز تک لے کر جائیں گے، حماس رہنما۔۔ اسرائیل کا باضابطہ طور ’حالتِ جنگ کا اعلان‘ لیکن اس کا مطلب کیا ہے؟َ

ویب ڈیسک

اسرائیلی حکومت نے پچاس سال میں ’پہلی بار‘ غزہ کی پٹی کے علاقے کے ساتھ باقاعدہ حالت جنگ کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیلی محکمہ دفاع اور سلامتی کونسل نے غزہ کی پٹی کے ساتھ سرکاری طور پر جنگ کا اعلان کرنے پر اتفاق کیا ہے

حماس کے خلاف کارروائی کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ملک کو جنگ کی حالت میں قرار دیا ہے اور حماس کے مقامات کو ملبے میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے

6 اکتوبر 1973ء کی جنگ کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب اسرائیل نے ’ریاستی سطح پر جنگ‘ کا اعلان کیا ہے، حالانکہ عملی طور پر اس کی فوجی کارروائیاں تسلسل سے جاری رہی ہیں

عملی طور پر حالت جنگ کا مطلب ہنگامی حالت کا اعلان کرنا اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ملک کی لاجسٹک صلاحیتوں اور بنیادی ڈھانچے کو فوج کے اختیار میں رکھنا ہے۔ جنگ کا اعلان ہمیشہ ذخائر سے بڑی فوجوں کی بھرتی کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ اسرائیلی فوج نے اس سے قبل پچھلے ادوار میں حالت جنگ کی سطح سے نیچے فوجی مہمات کے فریم ورک میں ریزرو بھرتی کیے ہیں

اس کا مطلب تمام وسائل کو فوج کے اختیار میں رکھنا بھی ہے، جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حماس کے اعلان کردہ ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن کی وجہ سے ہونے والے دھچکے کی گہرائی کی نشاندہی کرتا ہے

اس صورت حال میں ملک میں ہوائی اڈوں کو بند کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ فوجی آپریشن کے دوران غیر معمولی معاملات میں کرفیو لگانا پڑ سکتا ہے

اس حوالے سے ہفتے کے روز اسرائیلی فوج کے ترجمان کرنل ڈینیئل ہاگری نے ’آپریشن آئرن سورڈز‘ شروع کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر ذخائر کو متحرک کرنے کا اعلان کیا، جبکہ اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے بھی فوج کی ضروریات کے مطابق بڑے پیمانے پر ریزرو فوجیوں کو بلانے کی منظوری دی اور غزہ کی پٹی کے 80 کلومیٹر کے اندر ہنگامی حالت کا اعلان کیا

خیال رہے کہ اس سے قبل اکتوبر 1973 کی جنگ کے دوران فلسطینیوں کی مزاحمتی کارروائیوں میں 2600 اسرائیلی مارے گئے تھے۔ تین ہفتوں تک جاری رہنے والی لڑائی کے دوران نو ہزار پانچ سو فلسطینی مارے گئے تھے

جنگ کا اعلان کیے جانے کے بعد پیر کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر بمباری میں شدّت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ کشیدگی کے نتیجے میں اب تک مجموعی طور پر ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیل میں کم از کم 700 جبکہ غزہ میں 400 سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں

اسرائیلی افواج حماس کے عسکریت پسندوں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے تیسرے روز بھی جنگ لڑ رہی ہیں۔ فوج کا کہنا ہے کہ وہ جنوبی اسرائیل میں ’سات سے آٹھ‘ مقامات پر حماس کے خلاف لڑ رہی ہے

حماس کے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں درجنوں اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنانے کے بعد ملک میں کسی بھی بحران سے زیادہ اسرائیلوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے, جبکہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے لیے بھی ایک مشکل سی صورتحال پیدا ہو گئی ہے

دوسری جانب عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس کے رہنما اسماعیل هنيہ نے کہا ہے کہ وہ حالیہ جنگ کو غزہ سے مغربی کنارے اور یروشلم تک پھیلائیں گے

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اسماعیل هنية کا کہنا تھا کہ جنگ کو ’صہیونی وجود‘ کے مرکز تک لے کر جائیں گے

انہوں نے کہا کہ ’یہ ہمارے دشمن، اس کے سپاہیوں اور اُس کے آبادکاروں کے لیے شکست اور ہزیمت کی صبح تھی۔‘

حماس کے رہنما نے کہا ’جو کچھ ہوا یہ ہماری زبردست تیاریوں کی واضح نشانی تھی اور دشمن کی تمام کمزوریاں بھی آشکار ہو گئیں۔‘

انہوں نے عرب ملکوں سے کہا کہ اسرائیل اُن کو حالیہ سفارتی معاہدوں کے باوجود کوئی تحفظ نہیں دے سکتا۔
ٹی وی پر نشر کیے گئے خطاب میں اسماعیل هنيہ نے اُن عرب ممالک کو مخاطب کیا جنہوں نے حالیہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے کیے ہیں ’ہم اپنے عرب بھائیوں سمیت تمام ملکوں سے سے کہتے ہیں کہ یہ وجود مزاحمت کے سامنے اپنی حفاظت نہیں کر سکتا تو آپ کو کیا تحفظ دے گا۔‘

اسماعیل هنيہ نے کہا ’اس کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کرنے کے آپ کے تمام معاہدے اس (فلسطین) تنازعے کو حل نہیں کر سکتے۔‘

حماس کے عسکری بازو کے رہنما محمد دائف نے ہفتے کو اسرائیل پر کیے گئے حملے کو غزہ کے 16 برس سے جاری محاصرے اور مغربی کنارے کے شہروں میں گزشتہ برس کے دوران اسرائیلی کارروائیوں کا ردعمل قرار دیا۔
پہلے سے ریکارڈ کیے گئے ایک پیغام میں محمد دائف کا کہنا تھا کہ ’بس بہت ہو چکا۔‘

انہوں نے کہا کہ صبح سے ’آپریشن الاقصیٰ طوفان‘ شروع ہو چکا ہے اور مغربی یروشلم سے شمالی اسرائیل تک بسنے والے فلسطینی اس جنگ میں شریک ہو جائیں۔
’آج عوام اپنا انقلاب لا رہے ہیں۔‘

دوسری جانب جب اسرائیلی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل رچرڈ ہچٹ سے صحافیوں نے جب یہ پوچھا کہ حماس اس طرح اچانک فوج پر حملہ آور کیسے ہوئی جس کا پتہ بھی نہ چل سکا تو اُن کا جواب تھا کہ ’یہ ایک اچھا سوال ہے۔‘

حماس کی جانب سے جاری کی گئی وڈیوز میں تین اسرائیلیوں کو زندہ یرغمال بناتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
اسرائیل کی فوج نے تصدیق کی ہے کہ متعدد ’افراد‘ کو حماس نے یرغمال بنایا ہے

فلسطینی عسکریت پسند گروپوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اسرائیل سے 130 سے ​​زائد افراد کو حراست میں لے رکھا ہے

حماس نے اپنے ابتدائی بیان میں کہا: ’ہم نے غاصب (اسرائیل) کے تمام جرائم کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا، ان کا احتساب کیے بغیر اشتعال انگیزی کا وقت ختم ہو گیا ہے۔‘

حماس کے ڈپٹی چیف کا کہنا تھا کہ ’ہم نے کئی سینیئر عہدے داروں سمیت متعدد اسرائیلیوں کو قیدی بنا لیا ہے

حماس کے ایک اعلٰی عہدیدار صالح عروری نے کہا ہے کہ اُن کے گروپ کے پاس بڑی تعداد میں اسرائیلی قیدی ہیں، جن میں فوج کے سینیئر اہلکار بھی شام ہیں

ان کا کہنا تھا کہ ان قیدیوں کے بدلے میں اسرائیل کی جیل میں قید فلسطینیوں کو رہا کرایا جائے گا

حماس کے عسکری ونگ کے ترجمان ابو عبیدہ کے مطابق جنوبی اسرائیل میں اچانک داخل ہونے کے بعد فوجیوں کو پکڑا گیا اور اس وقت قیدی ’محفوظ مقام‘ پر رکھے گئے ہیں

عسکریت پسند تنظیم حرکت الجہاد اسلامی فلسطین نے کہا ہے کہ صرف اس نے 30 اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنایا ہے

ياد رہے کہ اس سے پہلے عسکریت پسند تنظیم حماس نے ایک اسرائیلی فوجی گیلاد شیلت کو یرغمال بنایا تھا، جس پر برسوں تک اسرائیل میں کافی غم و غصہ پایا گیا۔ گیلاد شیلت کی رہائی کے بدلے اسرائیل نے ایک ہزار سے زیادہ فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا تھا

اسرائیلی شہریوں کے یرغمال بنائے جانے کے بعد نیتن یاہو اور ان کے اتحادیوں پر دباؤ بڑھ گیا ہے جو پہلے ہی حماس کے حملے میں سات سو زیادہ اسرائیلیوں کی ہلاکت کا جواب دینے کے لیے شدید دباؤ میں ہیں

غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کا پتا لگانے میں چیلنجز کا سامنا ہو گا کیونکہ گیلاد شیلت کے معاملے میں بھی اسرائیل کی انٹیلیجنس ایجنسیاں ناکام رہی تھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ چھوٹا سا علاقہ ہے جس کی مسلسل فضائی نگرانی ہو رہی ہے اور اس کے ارگرد اسرائیل کی زمینی اور بحری افواج بھی موجود ہیں تاہم تل ابیب سے صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر یہ علاقہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کے لیے واضح نہیں

نیتن یاہو کے قومی سلامتی کے سابق مشیر یاکوو امدرور کا کہنا ہے کہ ’ہمیں نہیں معلوم کہ اسرائیلی شہریوں کو کہاں رکھا گیا ہے۔ لیکن یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کا معاملہ اسرائیل کو اس وقت تک غزہ پر بمباری سے نہیں روکے گا جب تک حماس کو تباہ نہیں کر دیا جاتا۔ ‘

اسرائیل کی انسانی حقوق کی تنظیم بیتسلم کے مطابق حماس پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ یرغمالیوں کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں قید تقریباً ساڑھے چار ہزار فلسطینی قیدیوں کی رہائی چاہتی ہے

فلسطینیوں کے لیے قید کا معاملہ شاید اتنا ہی جذباتی ہے جتنا کہ اسرائیلیوں کے لیے ہے۔ 1967 کے مشرق وسطیٰ کے جنگ میں اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے پر قبضہ کرنے کے بعد سے تقریباً سات لاکھ 50 ہزار فلسطینی اسرائیل کی جیلوں کا رخ کر چکے ہیں۔ زیادہ تر فلسطینیوں نے یا تو اسرائیل کی جیلوں میں وقت گزارا ہے یا کسی کو ایسے فرد کو جانتے ہیں جو جیل میں ہو۔

فلسطینی اتھارٹی کی خودمختار حکومت جس کے پاس مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں کا انتظام ہے، اپنے بجٹ کا تقریباً آٹھ فیصد جیل میں قید افراد یا ان کے اہل خانہ کی مدد کے لیے استعمال کرتی ہے۔

فلسطینی سینٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ کے ڈائریکٹر خلیل شقاقی کا کہنا ہے کہ کسی بھی قیدی کی رہائی حماس کے لیے بہت بڑی بات ہو گی جس سے اس کی پوزیشن بھی مضبوط ہو جائے گی اور فلسطینی اتھارٹی کی طاقت اور قانونی حیثیت مزید کم ہو جائے گی

تاہم یروشلم میں ہیبرو یونیورسٹی کے سیاسی امور کی ماہر گائل تالشیر کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ موجودہ حکومت فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر رضامند ہو جائے گی

انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو کی حکومت میں موجود انتہا پسند غزہ کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں

نیتن یاہو کی حکومت نے اپوزیشن کے سربراہ لائر لاپڈ کی جانب سے ہنگامی قومی اتحاد کی حکومت بنانے کی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
گائل تالشیر کے مطابق پیشکش مسترد ہونے سے واضح ہو گیا ہے کہ نیتن یاہو نے اپنی انتہا پسند قوم پرست حکومت سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے

حماس کی عسکری شاخ عزالدین القسام بریگیڈ کے ترجمان نے پیغام میں کہا ہے کہ زیر حراست اسرائیلیوں کی تعداد اسرائیلی وزیر اعظم کے بیان کردہ تعداد سے کہیں زیادہ ہے، جنہیں غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں میں رکھا گیا ہے

حماس ترجمان نے دعویٰ کیا کہ آپریشن باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا، اسرائیلی علاقے میں داخلے اور میزائل حملے بھی سوچی سمجھی کارروائی کا حصہ تھے، اس آپریشن کے بیشتر نکات ہماری منصوبہ بندی کے مطابق چل رہے ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز حماس نے عرب اسرائیلی جنگ کی پچاسویں سالگرہ پر علی الصبح پہلی بار غزہ سے بیک وقت بری، بحری اور فضائی کارروائی کرکے سینکڑوں اسرئیلیوں کو ہلاک کر دیا تھا

یوم کپور جنگ کے پچاس سال بعد، جس کا آغاز بھی اسرائیل پر مصر اور شام کے اچانک حملے سے ہوا تھا، فلسطینی عسکریت پسندوں نے بھی قابض اسرائیل کے خلاف ایک غیر متوقع اور بڑا حملہ کیا ہے

غزہ کی پٹی میں تسلسل سے اسرائیلی قبضے اور مظالم جاری تھے، روایتی فہم یہی تھی کہ حماس کی طاقت کو کچلا جا چکا ہے

لیکن حماس حقیقت میں ایک منظم آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ سنیچر کی صبح راکٹوں سے بھرپور حملہ کیا گیا جن میں سے چند تل ابیب اور یروشلم تک پہنچے۔ اس کے ساتھ ہی فلسطینی جنگجو سمندر، زمین اور فضا سے جنوبی اسرائیل میں داخل ہونا شروع ہو گئے

ان عسکریت پسندوں نے کئی گھنٹوں تک اسرائیل کی طرف سے قبضہ کر کے قائم کیے گئے قصبوں اور فوجی پوسٹوں کو گھیرے رکھا، متعدد اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کیا اور نامعلوم تعداد میں اسرائیلی فوجیوں کر یرغمال بنا کر غزہ کی پٹی میں لے جانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ ڈرامائی کارروائی سوشل میڈیا اور مرکزی میڈیا پر براہ راست نشر ہوتی رہی

بہت سے اسرائیلی شہریوں نے حیرانی کا اظہار کیا ہے کہ سکیورٹی فورسز ان کی مدد کو جلدی کیوں نہیں آ سکیں۔ حماس کے چینلز پر نشر ہونے والی فوٹیج میں دیکھا گیا ہے کہ بہت سے اسرائیلی فوجیوں کو حراست میں لیا گیا یا ہلاک کر دیا گیا۔

غزہ میں، جہاں اسرائیلی فوج سے چھینی گئی گاڑیاں سڑکوں پر چلتی دکھائی دیں، ابتدائی طور پر جشن منانے کی تصاویر سامنے آئیں۔ ایک نوجوان شہری نے بتایا کہ ’حماس نے جو کیا اس سے مجھے خوشی ہوئی، انھوں نے الاقصی میں اسرائیلی کارروائیوں کو بدلہ لیا۔‘ وہ مشرقی یروشلم میں یہودیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا حوالہ دے رہے تھے

فلسیطین ہسپتال اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد زخمیوں سے بھر چکے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں تقریبا 23 لاکھ فلسطینی آباد ہیں جہاں 2007 میں حماس انتخابات جیتنے کے بعد برسراقتدار آئی تھی۔ اس وقت سے اسرائیل اور مصر نے اس پٹی کا سخت محاصرہ کر رکھا ہے، جہاں غربت اور بے روزگاری کی بہتات ہے

حماس کے تازہ آپریشن کے بعد اسرائیلی فوج نے بڑے پیمانے پر تیاری کا آغاز کر دیا ہے۔ غزہ پر فضائی حملوں میں شدت کے ساتھ یہ عندیہ بھی دیا جا رہا ہے کہ زمینی آپریشن کی منصوبہ بندی بھی ہو رہی ہے۔ تاہم حماس کی جانب سے اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنانے کے بعد یہ معاملہ پیچیدہ ہو چکا ہے

اسرائیلی فوج کے ترجمان نے بتایا ہے کہ ’اس وقت ہم علاقے پر کنٹرول بحال کرنے میں مصروف ہیں اور غزہ کی پٹی کے ساتھ والے علاقوں میں زیادہ کارروائیاں کر رہے ہیں اور نظر ثانی کی جائے گی۔‘

نظر ثانی کرنے میں شاید ابھی کچھ وقت لگے لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیلی خدیہ ادارے اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ خود سے سوال کر رہی ہوگی کہ انھوں نے اس کارروائی کو پہلے کیوں نہیں دیکھا اور اس کے تباہ کن نتائج کو روک کیوں نہیں سکے

اسرائیل کو 50 سال بعد ایک بار پھر فلسطینی گروپ حماس کے حملے کے نتیجے میں ’جنگ رمضان‘ کا سامنا ہے جس میں اس کو بھاری جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے

1973 میں چھ اکتوبر کو اسرائیل پر شام اور مصر نے مختلف اطراف سے حملہ کیا تھا جس میں اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ یہودی اپنے اس مذہبی دن کو ’یوم کپور‘ کہتے ہیں جبکہ فلسطینیوں کے لیے یہ ’جنگ رمضان‘ ہے۔

نصف صدی قبل اسرائیل اور اس کے عرب پڑوسی ممالک کے درمیان یہ جنگ 19 روز تک جاری رہی تھی

پچاس سال بعد سات اکتوبر 2023 کو یہی واقعہ ایک بار پھر ایک بھیانک خواب کی طرح اسرائیل کے سامنے آگیا جب ’یوم کپور‘ کے دن ہی اس پر فلسطینی گروپ حماس کی جانب سے اسرائیل پر اچانک حملہ کیا گیا، جس میں اب تک سینکڑوں اسرائیلیوں کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات ہیں

چھ اکتوبر 1973 کو بھی ہفتے کا ہی دن تھا جب مصری اور شامی افواج نے دو مختلف محاذوں سے اسرائیل پر ایک ساتھ حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں اسرائیل کو اپنے اندزے سے بھی بڑھ کر بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

1973 کی جنگ میں 1948 کے بعد اسرائیل کا سب سے زیادہ نقصان ہوا تھا۔ اس حملے میں دو ہزار 600 اسرائیلی فوجی مارے گئے اور آٹھ ہزار 800 زخمی ہوئے تھے۔ مصر میں سات ہزار 700 اور شام میں تین ہزار 500 کے قریب فوجی اموات کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں

حیرت انگیز طور پر 1973 کی طرح 50 سال بعد ہفتے کو سات اکتوبر 2023 کو بھی یوم کپور منایا جا رہا تھا جب حماس نے اسرائیل کے خلاف ’آپریشن طوفان الاقصیٰ‘ شروع کرتے ہوئے پانچ ہزار سے زائد راکٹ اسرائیل کی جانب داغے ہیں، جس کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ پر فضائی حملے کیے گئے۔

خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق اسرائیلی حکام نے اب تک باقاعدہ اموات کی تعداد نہیں بتائی ہے تاہم مختلف ذرائع کے حوالے خبر دی ہے کہ 200 سے زیادہ اسرائیلی شہری زخمی ہوئے ہیں۔

یروشلم پوسٹ نے دعوی کیا تھا کہ 750 سے زیادہ اسرائیلی شہری حماس کے حملے کے بعد لاپتہ ہیں تاہم اس خبر کی تصدیق اسرائیلی حکام نے نہیں کی ہے۔

فلسطین کے محکمہ صحت نے اتوار کو کہا کہ اسرائیلی فضائی حملوں میں گذشتہ روز سے اب تک 313 شہریوں کی اموات ہوئی ہیں جبکہ 1700 سے زیادہ فلسطینی زخمی ہوئے ہیں اور وہ بمباری اور فضائی حملوں کے ڈر سے رہائشی عمارتوں کو چھوڑ پر متبادل مقامات پر منتقل ہو رہے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close