لاہور میں عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقد کی جانے والی کانفرنس میں کی گئی تقریروں، لگنے والے نعروں اور اس کے بعد منظر عام پر آنے والے بیانات پر سوشل میڈیا پر تاحال بحث جاری ہے
اس کانفرنس میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین نے بھی تقریر کی تھی، جس کے بعد ان کے خلاف لاہور میں اداروں کے خلاف لوگوں کو اکسانے کے الزام میں مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ہے
اس حوالے سے منظور پشتین نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ’ظلم و جبر کے خلاف حق کی آوازوں کو ایف آئی آرز، جیل یا پروپگینڈا سے نہیں دبایا جاسکتا۔ اس کا حل صرف اور صرف انصاف دینا ہے‘
وکیل رہنما عاصمہ جہانگیر کی یاد میں ہونے والی کانفرنس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی شرکت کی اور تقریر بھی کی
ان کی تقریر کے دوران جب کانفرس کے شرکاء میں سے کچھ لوگوں نے جنوبی وزیرستان کے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی رہائی کے لیے نعرے لگائے، تو وزیر خارجہ نے کہا ”آپ لوگوں کو جانا چاہیے اور ’ان لوگوں‘ کے سامنے احتجاج کرنا چاہیے، جن کے پاس علی وزیر کو رہا کرنے کی طاقت ہے“
تاہم اس واقعے کے اگلے روز ہی بلاول بھٹو زرداری کو یاد آیا کہ اب وہ صرف پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہی نہیں بلکہ شہباز شریف کی کابینہ میں وزیر خارجہ بھی ہیں تو انہیں اپنی اس بات کی وضاحت کرنی پڑی
انہوں نے کہا ’میں سمجھتا ہوں جو میں نے ان کا (نعروں کا) جواب دیا وہ بھی نامناسب تھا۔ میں وزیر خارجہ تھا، مجھے ان نعروں کا بہتر انداز میں جواب دینا چاہیے تھا
دوسری جانب ’اینٹ سے اینٹ بجانے والے‘ سابق صدر آصف علی زرداری بھی لاہور میں لگنے والے نعروں کی مذمت کرتے ہوئے نظر آئے۔ ایک بیان میں پاکستان کے سابق صدر نے کہا کہ کسی بھی پلیٹ فارم کو اداروں کے خلاف استعمال نہیں ہونا چاہیے اور پاکستان کی بقاء ہمارے اداروں سے ہی ہے
عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں لگنے والے نعروں کے وقت وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بھی اسٹیج پر موجود تھے اور سوشل میڈیا پر ان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ جس کے جواب میں انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا ’عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکاء کے ایک مختصر گروہ کی طرف سے ریاستی اداروں کے خلاف نعرے بازی پر دکھ اور افسوس ہوا ہے۔ جذباتی نعرہ بازی کرنے والے حکومتی اقدامات اور اداروں کی کوششوں اور قربانیوں کو بھی بھول گئے۔ ہم سب ایک مضبوط پاکستان کے خواہاں ہیں۔‘
پیر کی رات اعظم نذیر تارڑ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے چکے ہیں لیکن ان کے مطابق انہوں نے یہ استعفیٰ ’ذاتی وجوہات‘ کی بنا پر دیا ہے
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے منسلک سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر طنز کرتے ہوئے لکھا ’عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے بعد استعفوں، معافیوں اور وضاحتوں کا سلسلہ جاری۔ ایک صاحب پر تو تقریر کے ذریعے مملکت کا وجود خطرے میں ڈالنے پر پرچہ بھی کٹ چکا‘
منظور پشتین کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر پر پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) نے بھی مذمتی بیان جاری کیا ہے
ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں ایچ آر سی پی کا کہنا تھا ’اس ایف آئی آر کا وقت ظاہر کرتا ہے کہ اس کے ذریعے دیگر افراد کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ ریاستی ایجنسیوں کو ان کی زیادتیوں کے لیے جوابدہ ٹھرانے سے باز رہیں۔‘
اعظم نذیر تارڑ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ کیوں دیا؟
مستعفی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ وہ ججز تعیناتی کی موجودہ پارٹی پالیسی سے اتفاق نہیں رکھتے اور مستعفی ہونے کی وجہ بھی یہی ہے
اپنے استعفے سے متعلق ہونے والی قیاس آرائیوں کے حوالے سے اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ میں ذاتی طور پر ان ججز کی تعیناتی کے خلاف تھا۔ جوڈیشل کمیشن اجلاس میں شرکت ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ پارٹی پالیسی اور حکومتی فیصلے کے تحت بطور وزیر قانون کی تھی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرے استعفے کی وجہ تو یہی ہے، تاہم عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں میری موجودگی میں جو کچھ ہوا، اس کے بارے میں میں ٹویٹ کرچکا ہوں
عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں لگنے والے نعروں کے وقت اعظم نذیر تارڑ اسٹیج پر موجود تھے اور سوشل میڈیا پر ان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا
دوسری جانب کچھ حلقوں کا دعویٰ ہے کہ اعظم نذیر تارڑ کے استعفے کی ایک وجہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں لگنے والے نعرے اور ان کی وہاں موجودگی بھی تھی
اس حوالے سے اردو نیوز سے گفتگو میں احسن بھون نے کہا ’ان کی حکومت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے نامزد ججوں کی حمایت کرنے پر رضا مند ہو چکی تھی۔ اس لیے انہوں جوڈیشل کمیشن اجلاس میں ان کے حق میں ووٹ دیا‘
عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں ہونے والے واقعے سے متعلق سوال پر احسن بھون نے کہا کہ ’مجھے اتنا تو معلوم ہے کہ ان پر دباؤ تھا اور ان کے استعفے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے، لیکن کسی جگہ پر بھی اعظم نذیر تارڑ نے خود سے اس دباؤ یا وجہ کا ذکر نہیں کیا۔‘
خیال رہے کہ سوموار کو جوڈیشل کمیشن اجلاس میں حکومتی ووٹوں کی مدد سے چیف جسٹس کی جانب سے نامزد چار میں سے تین ججوں کے ناموں کی منظوری دی گئی تھی۔ جوڈیشل کمیشن نے جن ججز کے ناموں کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی منظوری دی ان میں سے دو پر حکومت کی جانب سے پچھلے اجلاس میں مخالفت کی گئی تھی۔
کہا جا رہا ہے کہ اٹارنی جنرل آفس اور چیف جسٹس کے درمیان مسلسل رابطوں کے بعد حکومت نے چیف جسٹس کے نامزد کردہ ججز جن کو سنیارٹی کے اصولوں کے برعکس نامزد کیا گیا ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔