پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس کو ’احمقانہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے ’سچ کے نام پر کی جانے والی اس پریس کانفرنس میں جھوٹ اور آدھے سچ بولے گئے، جو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیے گئے‘
عمران خان نے جمعے کی رات کو لانگ مارچ کے آغاز کے بعد برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے خصوصی انٹرویو میں گفتگو کی، جس میں انہوں نے کئی معاملات پر کھل کر بات چیت کی
واضح رہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے حالیہ پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے رواں برس مارچ کے مہینے میں فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ کو غیر معینہ مدت کی توسیع کی پیشکش کی تھی، جسے قبول نہیں کیا گیا
اس دعوے پر بی بی سی کے سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا ’یہ جو انہوں نے سچ کے نام پر پریس کانفرنس کی، اس میں اتنے جھوٹ ہیں اور آدھے سچ ہیں۔‘
عمران خان کا کہنا تھا ’سیاق و سباق سے ہٹ کر چیزیں لی ہوئی ہیں کہ ہم نے ایکسٹینشن کی آفر کی، یہ بتایا کہ کس سائیڈ سے آفر تھی؟ کس تناظر میں بات ہو رہی تھی؟ اگر پوری بات بتائیں تو بڑا شرمناک ہوگا ان کے لیے سب۔‘
عمران خان کا کہنا تھا ’یہ بڑا افسوسناک ہے کیونکہ کبھی آئی ایس آئی چیف اس طرح کی پریس کانفرنس نہیں کرتا۔ میں پوائنٹ بائی پوائنٹ اس کا جواب دے سکتا ہوں، جو بڑا شرمندہ کر سکتا ہے فوج کو۔‘
’لیکن ہم نہیں چاہتے ہمارے فوج کے ادارے کو نقصان پہنچے کیونکہ ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ فوج کمزور ہو اور پاکستان کمزور ہو جائے گا۔‘
جب عمران خان کو ڈی جی آئی ایس آئی کے اس بیان کا حوالہ دیا کہ ’اگر آپ کا چیف غدار ہے تو پھر آپ ان کی تعریفیں کیوں کرتے تھے اور رات کی تاریکی میں ملتے کیوں ہیں‘ تو اس پر عمران خان نے جواب دیا کہ ’جہاں یہ اچھی چیزیں کریں گے، ہم تعریف کریں گے۔‘
’یہ تو بچوں والی بات ہے کہ ہم نے آپ کی تعریف کی تو آپ ہمیشہ ہی اچھے ہیں۔ آپ اپنے بچوں کی بھی تعریف کرتے ہیں لیکن جب برا کام کرتے ہیں تو آپ تنقید کرتے ہیں۔ یہ دراصل بہت احمقانہ پریس کانفرنس تھی۔‘
اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات اور مستقبل کے حوالے سے سوال پر تحریک انصاف چیئرمین نے کہا ’میں اسٹیبلشمنٹ کی منظوری کی وجہ سے حکومت میں نہیں آنا چاہتا۔ 2018 کا الیکشن ہمیں کسی نے نہیں جتایا تھا‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد ملک میں شفاف الیکشن ہے۔ ’ہم تو اسی لیے ای وی ایم مشین لانا چاہتے تھے کہ اس سے دھاندلی کے 160 میں سے 130 طریقے ختم ہو جاتے ہیں۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں نے وہ آنے نہیں دی اور نہ ہی الیکشن کمشنر نے، جو کہیں اور سے حکم لیتا ہے، جس کی وجہ سے ہمارا الیکشن ہمیشہ متنازع ہو گا اور اس میں مداخلت کے مواقع موجود رہیں گے۔‘
ایک اور حالیہ تنازعے، جس میں سینیٹر اعظم سواتی نے الزام لگایا ہے کہ ان پر دو آئی ایس آئی کے اعلیٰ عہدیداروں نے تشدد کیا، پر بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا ’ہم جنرل باجوہ کو کہہ رہے ہیں کہ آپ نے بلاول کے کہنے پر ایک سیکٹر انچارج بدلا تھا کراچی میں، تو اب جو اعظم سواتی نے کہا ہے ان پر ایکشن لیں۔‘
خیال رہے کہ عمران خان نے اعظم سواتی کی پریس کانفرنس کے بعد آئی ایس آئی کے دو افسران میجر جنرل فیصل نصیر اور بریگیڈیئر فہیم کے نام لے کر انکیں اعظم سواتی پر تشدد کا ذمہ دار قرار دیا تھا
تاہم وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناءللہ نے گذشتہ روز اعظم سواتی اور عمران خان کے الزامات کی تردید کی اور ایف آئی کے اہلکاروں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اعظم سواتی کو وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سائبر کرائم ونگ کے اہلکاروں نے اپنی حراست میں لیا تھا اور انہیں کسی اور ادارے کے حوالے نہیں کیا گیا
عمران خان نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہم چاہتے ہیں کہ اس کے اوپر ایکشن لیا جائے۔ جنرل باجوہ کو ایکشن لینا چاہیے اگر وہ امیج پروٹیکٹ کرنا چاہتے ہیں آرمی کے ادارے کا۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ایک ہی مقصد ہے۔ صاف اور شفاف الیکشن۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں وہ حکومت ہو، جس کو پاکستان کی عوام منتخب کرے، الیکشن سے آئے‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’اسلام آباد میں عوام جس طرح جمع ہوگی، پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا، یہ میری پیشگوئی ہے، میں جانتا ہوں کہ عوام کی نبض کیا ہے‘
کیا الیکشن کے علاوہ بھی ان کی تحریک کا کوئی مقصد ہے؟ اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے مارچ کا مقصد صرف الیکشن ہیں لیکن حقیقی آزادی کی تحریک کا مقصد ہے کہ پاکستان کے فیصلے پاکستان میں ہوں‘
انہوں نے کہا ’کوئی باہر سے ہمیں ڈکٹیٹ نہ کرے کہ آج انھوں نے فیصلہ کیا اور ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ ادھر جا کر لڑیں اور اپنے 80 ہزار لوگ قربان کر دیں۔ ہمیں اگر روس سے سستا تیل مل رہا ہے تو ہندوستان لے رہا ہو لیکن پاکستان کو اجازت نہ ہو۔ میں ایک آزاد خارجہ پالیسی چاہتا ہوں۔ ‘
’دوسرا، میں قانون کی حکمرانی چاہتا ہوں۔ یہاں جنگل کا قانون ہے، ہمارے لوگوں کو اٹھا لیا جاتا ہے، تشدد کیا جاتا ہے، جنسی تشدد کیا جاتا ہے، جیل میں تشدد کیا جاتا ہے اور لوگ ڈرتے ہیں نام لینے سے جو یہ کر رہے ہیں، اس کے علاوہ صحافیوں کے ساتھ جو کیا گیا، اے آر وائی کو بند کیا گیا۔ جو ہمارے حق میں لکھتا ہے اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو اٹھا کر مارا، ان کو دھمکیاں دی ہیں اور پھر یہ جو ارشد شریف کا واقعہ ہوا، یہ اس ملک میں ہوتا ہے جہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی۔‘