آبی ماہرین کا وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی رپورٹ پر شدید تحفظات کا اظہار

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – آبی ماہرین نے پارلیمنٹ میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان کے 61 فیصد پینے کے پانی کا آلودہ ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے

رپورٹ پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹر ریسورسز کی جانب سے مرتب کی گئی ہے، جس میں ملک بھر سے چار سو سے زیادہ پانی کے نمونوں کا کلینیکل معائنہ کیا گیا

اس حوالے سے شبلی فراز نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ رپورٹ کے نتائج اور سفارشات تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول صوبائی حکومتوں کے ساتھ شیئر کی جاتی ہیں، تاکہ وہ اس حوالے سے مناسب اقدامات کریں

پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹر ریسورسز کی رپورٹ کے مطابق ملتان میں 94 فیصد، شیخوپورہ میں 60 فیصد، سرگودھا میں 83 فیصد، حیدرآباد میں 80 فیصد، ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں 93 فیصد اور سندھ کے کچھ اضلاع میں سو فیصد پانی آلودہ پایا گیا

آبی وسائل کے ماہر حسن عباس کا کہنا ہے کہ ”ہم اپنے صنعتی، زرعی اور میونسپل فضلے کو آبی ذرائع میں ڈال رہے ہیں اور میرے خیال میں پاکستان کا 61 فیصد نہیں بلکہ اس سے زیادہ پانی آلودہ ہے، زراعت میں ہم کیڑے مار ادویات، جڑی بوٹی مار ادویات، پوٹاشیم کا استعمال کرتے ہیں اور اسے زیرِ زمین پانی میں جذب ہونے دیا جاتا ہے، جسے پینے کے لیے نکالتے ہیں۔“

حسن عباس نے مزید کہا کہ ”میونسپل اور صنعتی فضلہ واٹر کورسز میں پھینکا جا رہا ہے، اس فضلے میں سے دو فیصد سے بھی کم پانی کو صحیح طریقے سے ٹریٹ کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر اسلام آباد کے ایک مشہور اپارٹمنٹ کا تمام فضلہ ایک نالے میں ڈالا جاتا ہے جو پانی کے ذرائع سے منسلک ہے جنہیں لوگ استعمال کرتے ہیں، میونسپل کا بہت سا فضلہ اور دیگر گندگی بھی راول جھیل میں ڈالی جاتی ہے اور راولپنڈی کو وہ پانی فراہم کرتے ہیں۔“

رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پُرفضا مقام گلگت بلتستان سے اکٹھے کیے گئے پانی کے نمونے سو فیصد آلودہ ثابت ہوئے۔ حسن عباس کہتے ہیں”سیاح شمالی علاقوں میں پیمپرز سے لے کر شاپنگ بیگز تک سب کچھ آبی گزرگاہوں میں پھینک دیتے ہیں، مقامی لوگوں کے پاس صفائی کا مناسب انتظام نہیں ہے، اس لیے وہ میونسپل فُضلہ واٹر کورسزاور فواروں میں پھینک دیتے ہیں۔”

حسن عباس کہتے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ صنعتوں کو صنعتی فضلہ اور بلدیاتی اداروں کو میونسپل کچرے کو ٹریٹ کرنے کا پابند کرے اور زرعی آلودگی سے متعلق قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروائے تو اسے حل کیا جا سکتا ہے، لیکن اس حوالے سے کوئی سنجیدگی نظر نہیں آتی

آلودہ پانی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے امراض کے متعلق ڈاکٹر آمنہ سرور کہتی ہیں، ”آلودہ پانی کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں، اس میں مختلف دھاتوں کی آمیزش بھی ہو سکتی ہے، انسانوں اور جانوروں کا فضلہ بھی شامل ہو سکتا ہے، اس سے معدے، آنتوں اور جگر کی بے شمار بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، سب سے زیادہ مسئلہ تب ہوتا ہے، جب جسم سے پانی کا اخراج ہونا شروع ہو جائے، کیوں کہ اس کے نتیجے میں انسان کی موت بھی ہو سکتی ہے، اس کے علاوہ گندے پانی کے استعمال سے کینسر اور ہیپاٹائٹس جیسی جان لیوا اور مہلک بیماریاں بھی لاحق ہو سکتی ہیں۔“

دوسری جانب رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے صدر اور سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد سے اب یہ صوبوں کی ذمہ داری ہے تو آزاد کشمیر گلگت بلتستان تو ایک طرح سے وفاق کے تحت ہیں اور یہ تو پورے ملک کا مسئلہ ہے، میں نے چیئرمین سینیٹ سے بھی درخواست کی کہ وہ صوبائی حکومتوں کو بلائیں، لیکن انہوں نے اس حوالے سے اپنی بے بسی کا اظہار کیا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close