لانگ مارچ کا تیسرا روز: کنٹینر کی زد میں آنے والی خاتون رپورٹر کی ہلاکت پر مارچ روک دیا گیا

ویب ڈیسک

صوبہ پنجاب کے شہر سادہوکی میں تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ایک خاتون رپورٹر مرکزی کنٹینر تلے آ کر ہلاک ہو گئی ہیں

ریسکیو 1122 کی جانب جاری کردہ پریس ریلیز میں خاتون کی شناخت 35 سالہ صدف نعیم کے طور پر کی گئی ہے جو ’چینل فائیو‘ سے منسلک تھیں۔ ریسکیو 1122 کے مطابق خاتون رپورٹر کنٹینر تلے آ کر کچلی گئیں اور ہلاک ہو گئیں۔ ان کی میت تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال کامونکی منتقل کر دی گئی ہے

سادہوکی میں لانگ مارچ کی کوریج کرنے والے رپورٹرز نے بتایا کہ خاتون رپورٹر عمران خان کا انٹرویو کرنے کی غرض سے کنٹینر پر چڑھنا چاہ رہی تھیں تاہم اسی دوران وہ زمین پر آن گریں اور کنٹینر کے ٹائر تلے کچلی گئیں

صحافی احتشام شامی کے مطابق رپورٹر کی ہلاکت کی خبر سننے کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لانگ مارچ کے تیسرے دن کا فی الفور اختتام کرتے ہوئے پیر کے روز کامونکی سے دوبارہ لانگ مارچ کے آغاز کا اعلان کیا

اسٹیبلشمنٹ نے چوروں کا ساتھ دینا ہے تو معاف کیجیے عوام ساتھ نہیں: عمران خان

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ سازش کے ذریعے لائے گئے سیاستدان اربوں روپے کی چوریاں معاف کروا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب گذشتہ چھ ماہ میں مہنگائی نے نئے ریکارڈ بنائے ہیں

تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے تیسرے دن مرید کے میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا ’میں اپنی اسٹیبلیشمنٹ سے پوچھتا ہوں کہ پہلے تم ہی کہتے تھے کہ یہ چور ہیں اور اب ان کو ہمارے اوپر مسلط کر کے کہتے ہیں کہ ان کو قبول کر لو۔ اور اب جو ان کے سامنے کھڑا ہو رہا ہے ان پر یہ ظلم اور تشدد کر رہے ہیں۔‘

سابق وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ صحافی ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں جبکہ ارشد شریف کو کینیا جا کر ’شہید‘ کیا گیا۔ ’دوسری جانب اعظم سواتی پر صرف اس لیے تشدد کیا گیا کیونکہ انھوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں آرمی چیف پر تنقید کر دی تھی۔ مگر دھمکیوں، تشدد اور ڈرانے کے باوجود ہم ناانصافی کے سامنے کھڑے ہوں گے۔‘

’ان چوروں کو بٹھا کر اگر اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی ہے۔۔۔ کیونکہ اب آپ (اسٹیبلشمنٹ) نے فیصلہ کر لیا ہے کہ چوروں کا ساتھ دینا ہے۔۔۔ تو معاف کرنا ہم آپ کے ساتھ نہیں ہیں۔ ہمیشہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ قوم کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے

انہوں نے مزید کہا کہ ’قوم آپ کے ساتھ نہیں ہے۔ ملکی اسٹیبلیشمنٹ ہمیشہ قوم کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ اور قوم ان چوروں کے ساتھ نہیں ہے۔‘

عمران خان نے مزید کہا کہ ’مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے۔ ان لوگوں نے جو امریکی سازش کے تحت میر جعفر میر صادق اوپر لے کے آئے، اربوں روپیہ دے کر ضمیر خریدے، لوٹے بنائے۔ سب کو پتہ ہے کہ چھ مہینے میں کتنی مہنگائی بڑھ چکی ہے۔‘

’میں اسٹیبلشمنٹ سے پوچھتا ہوں کہ پہلے تم ہی کہتے تھے کہ یہ چور ڈاکو ہیں اور اب ان کو مسلط کر کے کہتے ہیں قبول کر لو؟ جو ان کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اس کے اوپر ظلم و تشدد؟ آج بھی دو صحافی ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔‘

اسلام آباد میں دھرنے کی جگہ تاحال نہ مل سکی

پاکستان تحریک انصاف کا لانگ مارچ ممکنہ طور پر چار نومبر کو اسلام آباد کی حدود میں داخل ہو گا لیکن تاحال انتظامیہ کی جانب سے جلسے/ دھرنے کی جگہ مختص کرنے کی بجائے پچھلی بار کی ’خلاف ورزیوں‘ پر جواب طلب کیا گیا ہے

گذشتہ ہفتے تحریک انصاف کے رہنما علی اعوان نے ایک خط میں اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ سے چار نومبر کے لیے ایچ نائن، جی نائن کے درمیان موجود گراؤنڈ میں دھرنے/جلسے کی اجازت طلب کی تھی

اس کے بعد اسلام آباد انتظامیہ نے پی ٹی آئی کے وفد کو مراسلہ فراہم کیا جس میں ڈی سی اسلام آباد نے پی ٹی آئی حکام کو ان کے 25 مئی کے معاہدوں کی ’خلاف ورزی‘ کی فہرست تھما دی

مراسلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی انتظامیہ یقین دہانی کروائے کہ ان کو اب کی بار جلسے کی اجازت کیوں دی جائے۔ مزید کہا کہ ’25 مئی 2022 کو یہ طے ہوا تھا کہ آپ ایچ نائن میں جلسہ کریں گے لیکن 25 مئی کو معاہدے کی پاسداری نہیں کی گئی۔ 30 جون 2022 کو سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے پر اتفاق ہوا ،اس میں بھی ناکام رہے۔‘

پاکستان تحریک انصاف نے ڈی سی آفس سے جاری مراسلے کا جواب جمع کروا دیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد کے صدر علی نواز اعوان کی جانب سے جانے جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد انتظامیہ مطلوب معلومات مہیا کی جا چکی ہیں

’انتظامیہ فی الفور پر امن جلسے/دھرنے کے لیے این او سی جاری کرے۔ انتظامیہ کی جانب سے تاخیر توہینِ عدالت کے زمرے میں آئے گی۔‘

لانگ مارچ سے متعلق اسلام آباد میں ’سکیورٹی‘ اقدامات

دوسری جانب اسلام آباد پولیس نے بھی تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے لیے تیاری مکمل کر لی ہے

میسر معلومات کے مطابق لانگ مارچ کے لیے 13086 افسران و اہلکار تعینات کیے جائیں گے

اسلام آباد پولیس کے مجموعی طور پر 4190 افسران و اہلکار تعینات ہوں گے، جبکہ 4265 ایف سی 3600 رینجرز جبکہ سندھ پولیس کے 1022 افسران و اہلکار تعینات ہوں گے

اس کے علاوہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں مظاہرین سے نمٹنے کے لیے 616 آنسو گیس گن اور 50050 شیل فراہم کر دیے گئے۔ 2430 ماسک اور 374 گاڑیاں بھی پولیس کو فراہم کر دی گئیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close