پاکستانی معیشت میں زیتون کی کاشت کی اہمیت

ویب ڈیسک

بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کی معیشت اس وقت زبوں حالی کا شکار ہے۔ ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ زیتون کی پیداوار میں اضافہ ملک کی معیشت اور ماحول دونوں کے لیے سود مند ثابت ہو گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پنجاب، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے بہت سے علاقے جنگلی زیتون کی کاشت کے لیے انتہائی موزوں ہیں

ان علاقوں میں زیتون کی مختلف اقسام بڑے پیمانے پر کاشت کی جا رہی ہیں، جنہیں مقامی زبانوں یعنی پنجابی میں "کہو”، پشتو میں "خونہ” اور بلوچی میں "حث” کہتے ہیں

یہ وہ علاقے ہیں، جہاں زیتون کو مقامی درخت تصور کیا جاتا ہے، کیونکہ ان علاقوں میں یہ درخت خودرو ہیں اور موافق آب و ہوا میں یہ تیزی سے پھل دینے لگتے ہیں۔ لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں کسان اور زمیندار زیتون کی افادیت سے کما حقہ جانکاری نہیں رکھتے۔ اس باعث ماہرین سمجھتے ہیں کہ زیتون سے تیل حاصل کرنے اور دیگر غذائی اشیاء کی تیاری کے لیے انہیں باقاعدہ تربیت کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر فیاض عالم، جو نہ صرف معروف سماجی کارکن اور ماہر زراعت ہیں بلکہ پاکستان میں زیتون کی کاشت کی تاریخ پر ایک کتاب مرتب کرنے میں معروف صحافی شبیر سومرو کی مدد بھی کر رہے ہیں، بتاتے ہیں ”میں ایک عرصے سے اس طرح کے بیانات سن رہا تھا کہ پاکستان میں زیتون کا انقلاب لانے کا سہرا عمران خان کے بلین ٹری سونامی منصوبے کے سر ہے۔ اس حوالے سے نیرا تجسس جاگا اور میں نے پاکستان فاریسٹ انسٹیٹیوٹ پشاور کے لائبریری انچارج تحسین گیلانی سے رابطہ کیا“

ڈاکٹر فیاض عالم کہتے ہیں کہ تحسین گیلانی کی فراہم کردہ دستاویز جنوری سن 1963 میں تحریر کی گئی تھی۔ اس کے مطابق 1866ء میں ایک انگریزی افسر نے راولپنڈی میں زیتون کی مختلف اقسام کے لگ بھگ ایک سو پودے لگائے تھے

اس کے بعد 1964ع میں ایوب خان کے دور میں اردن سے منگوا کر راولپنڈی اور گرد و نواح میں مزید پودے لگائے گئے، جن پر بھرپور طریقے سے پھل آئے۔ لیکن بعد ازاں زیتون کی کاشت پر مناسب توجہ نہ دینے سے اس کی باقاعدہ پیداوار شروع نہیں ہو سکی

ڈاکٹر فیاض عالم بتاتے ہیں کہ 2001ع میں خیبر پختونخواہ میں ترناب اور مردان میں فارم ہاؤس بنا کر زیتون کی پیداوار بڑھانے کے لیے یونٹس بنائے گئے، اس کے بعد سن 2012ع میں چکوال کو ’وادیِ زیتون‘ قرار دے کر اس کی کاشت کا ایک بڑا منصوبہ شروع کیا گیا

کسانوں کو زیتون کی کاشت سے متعلق تربیت دینے والے ماہر زراعت ابنِ فاضل کا کہنا ہے ”پاکستان میں حالیہ برسوں میں زیتون بہت تیزی سے ترقی کرنے والی غذائی جنس کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ مستقبل میں زیتوں ملک میں جاری معاشی بحران سے نمٹنے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے‘‘

اس ضمن میں بارانی ایگریکلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے محقق اور سائنسدان فرحان پاشا بتاتے ہیں ”پاکستان میں تقریباً دس ملین ایکڑ زرعی زمین زیتون کی کاشت کے لیے موزوں ترین ہے۔ یہ اسپین میں زیتون کے زیرِ کاشت رقبے سے دو گنا ہے۔“

واضح رہے کہ اسپین دنیا بھر میں زیتون کی پیداوار میں اول نمبر پر ہے

فرحان پاشا کے مطابق 2012ع میں چکوال میں شروع کیے جانے والے بڑے منصوبے اور بلین ٹری سونامی کے ثمرات اب آہستہ آہستہ سامنے آنے لگے ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں ڈیڑھ ہزار ٹن زیتون کاشت کیا جا رہا ہے، جس سے آٹھ سو تیس ٹن تیل حاصل کیا جاتا ہے

فرحان پاشا مزید بتاتے ہیں کہ پیداوار میں تیزی سے اضافے کو دیکھ کر بین الاقوامی زیتون کاؤنسل نے فروری 2022ع میں پاکستان کو اپنا ممبر منتخب کر کے مستقبل میں زیتون کی پیداوار بڑھانے کے لیے مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی تھی

واضح رہے کہ دنیا بھر سے اس کاؤنسل کے صرف انیس ممبران منتخب کیے گئے ہیں اور جنوبی ایشیاء سے پاکستان اس کا واحد ممبر ملک ہے

پاکستان میں اگنے والے جنگلی زیتون سے نکلنے والا تیل انتہائی اعلیٰ معیار کا ہے۔ اس تیل کی چین، مراکش، تیونس، اسپین اور دیگر ممالک میں بہت زیادہ مانگ بھی ہے

خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے کسان عمر مختار بتاتے ہیں ”میں نے چھ برس قبل مختصر زرعی زمین پر زیتون کی کاشت کا آغاز کیا تھا۔ اپنی زمین پر اگنے والے زیتون سے میں سادہ مشینوں کے ذریعے آٹھ فی صد تیل حاصل کرتا ہوں “

اسی علاقے کے ایک اور زمیندار سید یوسف علی کے مطابق وہ ایک سو ایکڑ رقبے پر زیتون کاشت کرتے ہیں اور مختلف سائز کے زیتون کی پیکنگ کے لیے چین کی مشینیں استعمال کرتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ مشینیں نسبتاً سستی اور استعمال میں آسان ہیں

اس حوالے سے ڈاکٹر فیاض عالم کا کہنا ہے ”زرعی تحقیقی مرکز ترناب فارم پشاور میں زیتون کے پھلوں سے بیج نکالنے اور سلائس بنانے کے لیے اب جدید مشینیں نصب کی گئی ہیں، جن سے علاقے کے تمام زمیندار استفادہ کر سکتے ہیں“

واضح رہے کہ یہ سینٹر چار دہائیوں سے کسانوں کو زیتون سے اچار، مربہ اور دیگر غذائی اشیاء بنانے کی تربیت بھی فراہم کر رہا ہے

بارانی ایگری کلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سائنسدان فرحان پاشا کے مطابق بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے باعث پاکستان کے محض پانچ فی صد رقبے پر جنگلات باقی رہ گئے ہیں

یہ تناسب ایکو سسٹم اور ماحول کی حفاظت کے لیے مختص کیے گئے بین الاقوامی معیار سے بہت کم ہے، جس کے مطابق کسی ملک کے تیئیس فی صد رقبے پر جنگلات کا ہونا اشد ضروری ہے

فرحان پاشا کا کہنا ہے ”ماحولیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے، اگرچہ ماضی میں شجر کاری اور بلین ٹری سونامی جیسے منصوبے شروع کیے گئے مگر منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث اس امر کا خیال نہیں رکھا گیا کہ کس علاقے میں کس طرح کے درخت لگانا موزوں رہے گا‘‘

فرحان پاشا کا ماننا ہے کہ اگر آب و ہوا اور ماحول کو مد نظر رکھ کر زیتون اور اسی طرح کے منافع بخش پھلوں کی کاشت کو تیزی سے آگے بڑھایا جائے تو ناصرف ملکی معیشت بلکہ ماحول پر اس کے مثبت اثرات کچھ ہی عرصے میں سامنےآ جائیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close