”ہمارا سیارہ زمین خطرے میں ہے“ 14000 سائنسدانوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

ویب ڈیسک

سائنسدانوں نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ہمارے کرہِ ارض کے فطری نظاموں سے وابستہ تمام معیارات (وائٹل سائنز) روبہ زوال ہیں اور کچھ اپنی تباہی کی حد پر پہنچ چکے ہیں، ان میں انٹارکٹیکا اور گرین لینڈ کی برفیلی چادروں کا غیرمعمولی پگھلاؤ، مرجانی چٹانوں کی تباہی، ایمیزوں اور آسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی ہولناک آگ بھی شامل ہے، اور یوں ہم زمین کی نبضوں کو ڈوبتے ہوئے دیکھ رہے ہیں

یاد رہے کہ اس سے قبل 2019ع میں بایوسائنس نامی جرنل میں گیارہ ہزار سے زائد سائنسدانوں نے سیارہ زمین پر کلائمٹ ایمرجنسی کی درخواست کی تھی۔ لیکن اس رپورٹ میں مزید کچھ اضافے کے بعد اسے اب دوبارہ شائع کیا گیا ہے اور چودہ ہزار سائنسدانوں نے اس کی تصدیق و تائید کی ہے

رپورٹ میں شامل سڈنی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہر ماحولیات  تھامس نیوسم کے مطابق گزشتہ دو برس میں ہم آگ لگنے کے ہولناک واقعات دیکھ رہے ہیں جبکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ جیسی گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار نے نئے رکارڈ قائم کئے ہیں

اس دوڑ میں مزید دو ہزار آٹھ سو سائنسداں شامل ہوچکے ہیں اور اب دنیا کے چونتیس ممالک میں ایک ہزار نو سو نوے قوانین منظور ہوئے ہیں جو کلائمٹ ایمرجنسی سے متعلق ہیں۔ لیکن  خوش آئند بات یہ ہے کہ کئی ممالک تین نقاط پر متفق ہوچکے ہیں یا ان کے قریب پہنچ چکے ہیں، ان نقاط میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج پر بھاری ٹیکس، رکازی ایندھن (تیل، گیس اور کوئلے) پر مرحلہ وار پابندی اور حیاتیاتی تنوع کے مقامات (مثلاً ایمیزون) کا تحفظ شامل ہیں۔ لیکن یہ وی باتیں ہیں،  ماہرین 1960ع سے جن کا تقاضہ کرتے آ رہے ہیں

ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی سرگرمیوں سے ہماری زمین غیرمعمولی تباہی سے دوچار ہے اور اب ہمارے پاس وقت بالکل ختم ہو چکا ہے۔ انسان تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے اس سیارے کے وسائل اور قدرتی نظام تباہ کر رہا ہے

ماہرین نے کل اکتیس وائٹل سائنز یعنی اہم فطری اشاریوں کو اپنی تحقیق میں شامل کیا ہے جن میں سمندروں کی صحت، برف کے پگھلتے ہوئے ذخائر، غلے اور مویشیوں کی تعداد جیسے عوامل شامل ہیں جو دباؤ کے شکار ہیں۔ لیکن رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کچھ اچھی خبریں بھی ہیں جن میں 2018ع سے اب تک ہوا سے بجلی بنانے کے نئے منصوبے شامل ہیں جو اب بڑھ کر 57 فیصد تک جا پہنچے ہیں، جبکہ اسی عرصے میں رکازی (فاسل) فیول کی سرمایہ کاری میں اسی طرح کمی ہوئی ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close