کہتے ہیں کہ اگر آپ برلن میں صرف ایک جگہ جانا چاہیں تو، تاریخی واقعات سے بھرے اور دنیا کے سب سے زیادہ فعال اور آزادی کا احساس دلانے والے شہروں میں سے ایک کی نشہ آور توانائی کو محسوس کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی دوسری جگہ نہیں ہے
یہ جگہ ہے برلن میں ٹیمپل ہوفر فیلڈ، جو کبھی 953 ایکڑ پر مشتمل ایک ہوائی اڈہ ہوا کرتا تھا، اسے اب عوامی پارک میں تبدیل کر دیا گیا ہے
یہ اب کھیل کا ایسا میدان بن گیا ہے، جو اس شہر کی جیتی جاگتی تصویر پیش کرتا ہے
یہاں پناہ کے متلاشی شامیوں کو نازی دور کے ٹرمینل کے باہر فٹبال کھیلتے ہوئے، 75 میٹر کے ایک لاوارث ریڈار اسٹیشن کے سائے میں لوگوں کو سائیکلیں چلاتے اور سرد جنگ کے دور کے متروک طیاروں کے ساتھ ساتھ مختلف خاندانوں کو باربی کیو کرتے دیکھا جا سکتا ہے
اس سابقہ ہوائی اڈہ کو ٹیمپل ہوف کے نام سے جانا جاتا ہے، اور زیادہ تر برلن والے اس مقام کو اسی نام سے پکارتے ہیں۔ یہ یورپ کی کچھ شدید ہولناکیوں اور عظیم ترین فتوحات کا گواہ رہا ہے اور اس نے ان میں اہم کردار ادا کیا ہے
یہ ایک ایسی جگہ ہے، جہاں شہر کا ماضی، حال اور مستقبل ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں، مسلسل بات چیت اور راز و نیاز کرتے ہیں
یوں تو سیاح عام طور پر برلن دیکھنے کے لیے برینڈن برگ گیٹ یا برلن وال (برلن کی دیوار) دیکھنے ضرور جاتے ہیں، لیکن کہا جاتا ہے کہ برلن کی محبت میں گرفتار ہونے کے لیے ٹیمپل ہوف جانا ضروری ہے۔ ایک ایسا شہر جو ہمیشہ بنتا رہتا ہے اور کبھی پورا نہیں ہوتا، وہاں مسافروں کے لیے دنیا کے سب سے زیادہ فعال اور آزادانہ دارالحکومتوں میں سے ایک کی روح کو محسوس کرنے اور صحیح معنوں میں یہ سمجھنے کے لیے، کہ لوگوں کو اس کی لت کیوں لگ جاتی ہے، اس سے بہتر کوئی دوسری جگہ نہیں ہے
ٹیمپل ہوف اتنا بڑا ہے کہ اس کے دس داخلی راستے جنوبی برلن کے تین محلوں میں آتے ہیں۔ موناکو کے سائز سے دوگنی جگہ کو پوری طرح سے سمجھنے کے لیے ہرفرتھ سٹراس کے گول گول پتھروں کا پیچھا کرتے ہوئے نیوکلن ضلع میں پارک کے مشرقی داخلی دروازے پر گریفٹی سے سجے کیفے اور بار والے ہلچل والے حصے تک جانا پڑتا ہے
گلی کے اختتام پر، جہاں سے آگے راستہ نہیں جاتا، سامنے سابقہ ہوائی اڈے کا وسیع کھلا ہوا پھیلاؤ اچانک ظاہر ہوتا ہے، جو تاحد نظر افق تک چلا جاتا ہے۔ لیکن ہوائی جہازوں کے بجائے یہ پتنگ بازی کرنے والوں اور رن وے پر اسکیٹنگ کرنے والوں سے بھرا رہتا ہے اور دور فاصلے پر ٹرمینل کی عمارت سکڑی سی نظر آتی ہے
برلن کے رہائشی اومی جنتا کہتے ہیں ”جب بھی میرے گھر والے یا دوست آتے ہیں، تو میں انہیں یہ جگہ ضرور دکھاتا ہوں۔ دنیا میں اور کہاں آپ کو ایک لاوارث یا بند ہوائی اڈہ ملے گا، جہاں آپ چل پھر سکیں، یا میری طرح آزادی کے احساس کے ساتھ ادھر ادھر سکیٹس چلا سکیں؟“
کسی بھی دن یہاں تقریباً دس ہزار لوگ پارک میں ہوتے ہیں، تاہم اس کی وسعت کے باعث یہاں کبھی بھیڑ محسوس نہیں ہوتی۔ یہ پارک شہر کے مکینوں کے لگ بھگ ہر ایک طبقے کو متوجہ کرتا ہے۔ جہاں سخت ناک والے برلن کے باشندوں اور عجیب پناہ گزینوں سے لے کر ترک دادا دادی اور ایک کتاب کے ساتھ آرام کی خواہش والے پریشان فلیٹ میٹس تک سبھی طرح کے لوگ ہوتے ہیں
اس جگہ کے بارے میں تعمیراتی لحاظ سے برلن کے اہم ترین علاقوں کے ’معلوماتی‘ پیدل سفر کی میزبانی کرنے والے ادارے ’پولیگونل‘ کے شریک بانی لوکاس سٹوڈنگر کہتے ہیں ”یہ جگہ صرف ایک تاریخی مقام کی طرح نہیں ہے؛ یہ ایک طرح کی تفریح، اور جوش و خروش کی جگہ بن گئی ہے۔ یہ ذیلی ثقافتی سرگرمیوں کے لیے ایک جگہ ہے۔ یہ بہت سی مختلف چیزوں کی جگہ ہے، یہ ان بعض پرندوں کی بھی جگہ جو صرف وہیں گھونسلے بناتے ہیں اور پورے علاقے میں کہیں اور نہیں بناتے ہیں“
لوگ برلن میں نازی جرمنی کو رو برو دیکھنے کے لیے آتے ہیں، کنکریٹ کی دیوار کو چھونے کے لیے آتے ہیں، جس نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا اور شہر کے افسانوی فری وھیلنگ کے جذبے اور کچھ بھی جانے والے رویے سے لطف اندوز ہونے کے لیے آتے۔ یہ سب کچھ ٹھیک ہے لیکن برلن میں کسی بھی جگہ سے زیادہ یہ عناصر ٹیمپل ہوف میں ایک ساتھ نظر آتے ہیں
جیسے ہی ہرفرتھہاس کے داخلی دروازے سے ٹرمینل کے رن وے کی طرف جایا جائے، بائیں طرف کمیونٹی باغات نظر آئیں گے، جن میں ری سائیکل شدہ مواد سے بنائے گئے دیسی ساختہ مجسمے، فنکاروں کے کام کی جگہ پر ایک سرکس اسکول اور دائیں جانب ایک بیرگارٹن ملتا ہے
ٹرمینل کے قریب اٹھارہ ٹکڑوں پر مشتمل انٹریکٹو آرٹ انسٹالیشن ملتا ہے، جو کہ کسی منی گولف کورس کی دگنی سائز کا ہے۔ 4.3 میل کے لوپ کے کنارے لوگوں کو پلسنر (ایک قسم کی بیئر) گلے سے اتارتے یا پھر ایک پہیے والی سائیکل پر کچھ لوگوں کو رن وے کا چکر لگاتے دیکھا جا سکتا ہے
شہر کے ایک بروشر میں لکھا ہے ”اس جگہ کی وسعت وافر جگہ کا زبردست احساس پیدا کرتی ہے۔ اس کا اثر آزادی کا احساس پیدا کرنے والا ہے کہ کس طرح آزاد شہری ایک بار پھر سے تخلیقی ایکسپلورر بن جاتا ہے“
لوگوں کو اس جگہ کے وسیع رقبے نے آزادی سے گھومنے کا موقع اور پہیوں پر رقص کرنے کا اعتماد فراہم کیا۔ یہ بنیادی طور پر جدید برلن کی کہانی ہے
سنہ 1989ع میں جب برلن کے باشندوں نے ہتھوڑے کے ساتھ دیوار کو گھیر لیا تھا تو دنیا نے دیکھا کہ لوگ آزادی کی خوشی میں کس طرح سڑکوں پر رقص کر رہے تھے۔ ٹیمپل ہوفر فیلڈ نے اس آزادی، خوشی اور رقص کو ایک طرح سے دوام بخشا ہے
سینیگال میں پیدا ہونے والی اور تقریباً اپنی پوری زندگی برلن میں گزارنے والی جنتا کہتی ہیں ”اپنی عمر کے بیس کے پیٹے میں جب میں نے رولر سکیٹنگ شروع کی تھی، میں ٹیمپل ہوفر فیلڈ کے قریب رہتی تھی، جس کی وجہ سے جب جی چاہتا وہاں چلی جاتی اور سکیٹنگ کرنا بہت آسان ہو جاتا تھا“
یقینی طور پر یہ ٹیمپل ہوفر فیلڈ کی مہربانی ہے کہ اب وہ ایک پیشہ ور رولر سکیٹر اور ماڈل ہیں۔ انسٹاگرام پر ان کے تقریباً دس لاکھ فالوورز ہیں، جو ٹیمپل ہوف میں سکیٹس پر ان کے انداز دیکھتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں ”جیسے ہی میں ٹیمپل ہوف میں اپنے پیروں کے نیچے ہموار فرش کو محسوس کرتی ہوں، یہ سکیٹنگ کے لیے سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔“
جنتا کہتی ہیں ”یہاں سکیٹنگ کرنا ہمیشہ بہترین احساس فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ میں اس کی عادی ہو چکی ہوں، لیکن ہر بار یہ ایک نئے تجربے کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ جب بھی میں فرش پر اترتی ہوں، میں صرف گہری سانس لیتی ہوں اور اس احساس سے لطف اندوز ہوتی ہوں جو کہ جلد پر تقریباً مکھن کی طرح ہوتا ہے“
یہ وہ جگہ ہے، جہاں سے کبھی ہوائی جہاز اڑا کرتے تھے، لیکن اب یہاں آزادی اپنے پنکھ کھولے اترتی ہے۔ یہ ہوائی اڈہ پارک میں کیسے تبدیل ہوا، اس کی کہانی برلن کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے
یہاں آخری طیارہ سنہ 2008ع میں اترا تھا، اور جیسے ہی سنہ 2010ع میں اسے ’پبلک گرین اسپیس‘ قرار دیا گیا تو ریئل اسٹیٹ کے ڈیولپرز کی اس اہم حصے کو لگژری ہاؤسنگ میں تبدیل کرنے کے امکان سے ہی رال ٹپکنے لگی
لیکن یہ ملیر کا لاوارث علاقہ نہیں، برلن ہے۔۔ ایک ایسا شہر، جو سرمایہ دارانہ ترقی کی کسی بھی مضبوط خواہش والی ہر چیز کو ٹھونک بجا کر دیکھتا ہے۔۔ سو یہاں کسی ملک ریاض کی گنجائش نہیں بچتی
یہ وہ جگہ ہے، جس نے سنہ 2018ع میں جنریفیکیشن یعنی اشراف داری یا کم آمدنی والے علاقے کی ترقی کے خوف کے درمیان گوگل کو شہر سے باہر نکال دیا تھا اور اس کی ’غریب لیکن سیکسی‘ امیج کو محفوظ رکھنے کے لیے پانچ سال کی حد مقرر کرنے کی تجویز پیش کی تھی
چنانچہ جب شہر نے سنہ 2014ع میں اس جگہ کے مستقبل کو عوامی ووٹ کے لیے رکھا، تو کچھ اضلاع کے تقریباً نوے رہائشیوں نے اپنی نئی گرین اسپیس کی حفاظت کے حق میں ووٹ دیا
ٹیمپل ہوف کی عوامی اجتماع کی جگہ میں تبدیلی شاید ایک حالیہ واقعہ ہو، لیکن دراصل اس کی جڑیں گہری ہیں۔ اور اگر آپ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں تو آپ اس کی تاریخ کے ہر باب کو دیکھ سکتے ہیں۔ 1700ع اور 1800ع کی دہائیوں میں ٹیمپل ہوف پریڈ گراؤنڈ ہوا کرتا تھا اور شہد کی مکھیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اس کے گھاس کے میدان کو کاٹا نہیں جاتا تھا
ایسے میں یہ تصور کرنا آسان ہے کہ برلن کے باشندے یہاں پکنک پر آتے ہوں گے اور ویمر دور کے منچھوں والے فوجیوں کو پیتل کے آلات کے ساتھ سورج کی چمکتی روشنی میں قدم بڑھاتے ہوئے دیکھتے ہوں گے
یہ چپٹا گھاس کا پھیلاؤ ایسی جگہ بھی رہی ہے، جہاں دنیا کے پہلے پائلٹوں میں سے کچھ نے اپنے ہوائی جہاز کے پروٹو ٹائپس کا تجربہ کیا۔ ان میں اورول رائٹ بھی شامل ہیں، جنہوں نے سنہ 1909ع میں ٹیمپل ہوف کے لان سے ایک گھنٹے کی پرواز کا ریکارڈ قائم کیا تھا
یہاں کا رن وے، جو اب ونڈ کارٹرز اور جوگرز سے بھرا ہوا ہوتا ہے، اسے سنہ 1923ع میں اس وقت بنایا گیا تھا، جب ٹیمپل ہوف کو یورپ کے پہلے شہری ہوائی اڈے کے طور پر کھولا گیا تھا
پھر وہاں یقیناً نازی آئے۔۔ اور اگر ٹرمک سے گزرتے ہوئے ہلال نما ٹرمینل کی طرف جایا جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ آخر برطانوی ماہر تعمیرات نارمن فوسٹر نے ٹیمپل ہوف کو ’تمام ہوائی اڈوں کی ماں‘ کیوں کہا تھا
نازی عزائم کے وسیع و عریض ارادے کے طور پر ڈیزائن کیے گئے اس ہوائی اڈے کو ہٹلر منصوبہ بند عالمی دارالحکومت جرمنی کا مرکز بنانا چاہتا تھا، جو کہ ناپاک برلن کے ملبے پر تعمیر کیا گیا ایک شاندار آریائی یوٹوپیا (افلاطون کی خیالی ریاست) ہوتا
مرکزی ٹرمینل کی عمارت 1.2 میل تک پھیلی ہوئی ہے اور اپنی لمبائی کے سبب یہ دنیا کی بیس بڑی عمارتوں میں شامل تھی۔ (ستم ظریفانہ طور پر یہ کبھی دنیا کی سب سے چھوٹی ڈیوٹی فری شاپ کا مسکن بھی تھا)۔ گائیڈڈ ٹور سے پتہ چلتا ہے کہ ہوائی اڈے کا اندرونی حصہ کتنا کم تبدیل ہوا ہے اور یہ اپنے ریٹرو چیک ڈیک، اینالوگ گھڑیوں اور نیون سائن کے ذریعے ہوائی سفر کے سنہری دور کا فلیش بیک فراہم کرتا ہے
دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹیمپل ہوف امریکی کنٹرول والے مغربی برلن میں واقع تھا، جو مشرقی جرمنی سے گھرا ہوا ایک سیاسی جزیرہ تھا اور جون سنہ 1948ع میں سوویت یونین کی ناکہ بندی کے نتیجے میں اس کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا کیونکہ اس ناکہ بندی نے مغربی برلن والوں کے لیے رسد تک رسائی کو منقطع کر دیا تھا
شہر کے مغرب میں سڑک، پانی اور ریل کے راستے مسدود ہونے کے بعد، ٹیمپل ہوف جلد ہی واقعتاً ایک غیر معمولی فوجی آپریشن برلن ایئر لفٹ کی جگہ بن گیا۔ تین سو بائیس دنوں تک اتحادی افواج کا ایک رسد فراہم کرنے والا طیارہ ہر پینتالیس سیکنڈ میں ٹیمپل ہوف پر اڑان بھرتا یا اترتا تھا، جس نے کل 2.3 ملین ٹن خوراک اور ایندھن پہنچایا تاکہ بیس لاکھ مغربی برلن کے باشندوں کو فاقہ کشی سے بچایا جا سکے
اسے تاریخ کا سب سے بڑا انسانی آپریشن سمجھا جاتا ہے۔ آج اگر آپ رن وے کے شمال کی جانب کچے راستے پر چلتے ہوئے جائیں، تو آپ کو وہ آخری ہوائی جہاز ٹیمپل ہوف میں پڑا مل سکتا ہے، جو سرد جنگ کے دوران ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور صدر جان ایف کینیڈی جیسے لوگوں کو برلن لے کر جاتے تھے۔ یہ طیارہ ایک ڈگلس سکائی ٹرین سی-47 طیارہ تھا، جو بررلن ایئر لفٹ کے دوران استعمال کیا گیا تھا
ایڈوکیسی گروپ سو فیصد ٹیمپل ہوفر فیلڈ کے ایک رضاکار ڈیاگو کیڈیناس کہتے ہیں ”ٹیمپل ہوف کی تاریخ کا ہر پہلو آپ وہاں دیکھ سکتے ہیں؛ آپ واقعی وہاں جا سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ اس دور میں یہ جگہ شہر کے لیے اور حقیقت میں دنیا کے لیے کیوں اتنی اہمیت رکھتی تھی“
یہ بھی ایک ستم ظریفی ہی کہیے کہ نازیوں کے ذریعے بنایا جانے والا یہ ایئرپورٹ کئی دہائیوں بعد سرد جنگ کے دوران یورپ کا سب سے بڑا پناہ گزین کیمپ بن کر ابھرا
سنہ 2015ع کے آغاز سے ٹرمینل اور اس کے کچھ میدانوں کو شامی پناہ گزینوں کی رہائش کے لیے استعمال کیا گیا جہاں دو ہزار سے زیادہ افراد ہینگرز کی باون فٹ اونچی چھتوں کے نیچے ایک مقام پر سو رہے تھے
آج رن وے کے قریب ایک ’کنٹینر گاؤں‘ میں کئی سو یوکرین سے آنے والے مہاجرین رہائش پذیر ہیں۔ اور کووڈ-19 وبائی امراض کے شدت والے دور میں ہوائی اڈے کا میدان ایک ویکسینیشن سائٹ بن گیا، جو کہ اس کے اس کردار کی یاددہانی کراتا ہے، جو اس نے انیسویں صدی کی فرانکو-پرشین جنگ کے دوران فیلڈ ہسپتال کے طور پر ادا کیا تھا
برلن میں رہنے والی ایک امریکی صحافی سنڈی برزوستوسکی کہتی ہیں ”یہ ایک خاص جگہ ہے کیونکہ اس میں اتنے سارے تاریخی واقعات ہیں۔ یہ یاد کرنے کے لیے صرف ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے کہ آپ رن وے پر ہیں، جس میں سالہا سال کی کہانیاں سانس لے رہی ہیں“