گھر میں بیٹھے ایک سیارچہ دریافت کرنے والا 13 سالہ لڑکا

ویب ڈیسک

وینزویلا سے تعلق رکھنے والے ایک تیرہ سالہ لڑکے مگیل روہاس نے گھر میں بیٹھے ”ایک سیارچہ دریافت کر لیا

مگیل روہاس کو فزکس کی کتابوں اور بلیک ہولز، نظام شمسی، کہکشاؤں اور کائنات کے بارے میں مطالعہ کرنا پسند ہے

اسی شوق کی وجہ سے اس بارے میں ان کا مطالعہ اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ انہوں نے اس سے متعلق تصاویر کا جائزہ لینا شروع کر دیا، یہ جانتے ہوئے کہ وہ کیا ڈھونڈ رہے ہیں اور یہ کہ کہاں اور کیسے اس کی کھوج لگائی جا سکتی ہے

اس دوران بالآخر مگیل کو ایک نیا سیارچہ مل گیا، یہ ایسی چیز تھی، جس کا انہیں بے صبری سے انتظار تھا۔ اس سیارچے کو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا

مگیل کی عمر صرف تیرہ سال ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ ابھی سے ان چیزوں کو سمجھ سکتے ہیں، جو عام لوگوں کے لیے محض سائنس فکشن ہے

انھوں نے مغربی وینزویلا کی ریاست لارا کے دارالحکومت بارکیسیمتو کے ریوکلیرو کے ہائی اسکول کا پہلا سال پڑھا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ، بقول ان کے :”میرا کوئی پسندیدہ مضمون نہیں، مگر مجھے ریاضی، بائیولوجی، مختلف زبانیں اور جغرافیہ پسند ہیں۔“

البتہ وہ خلائی سائنس کو جنون کی حد تک پسند کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ سیارچے کو کیسے پہچانا جا سکتا ہے۔ ان کا مقصد واضح ہے: وہ ایک اسپیس انجینیئر بننا چاہتے ہیں

انھوں نے بتایا ہے کہ ’میں ساری زندگی خلا میں دلچسپی لیتا رہا ہوں۔ بہت کم عمری سے۔ میری پہلی کتابوں نے مجھے فلکیات اور سائنس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے پر اکسایا۔‘

وہ ان کتابوں کی بات نہیں کر رہے جو ان کی عمر کے دیگر نوجوان پڑھتے ہیں، جیسے ہیری پوٹر۔ وہ فخر سے اپنے کمرے میں اسٹیفن ہاکنگ اور دیگر سائنسدانوں کی کتابیں دکھاتے ہیں

واضح رہے کہ یہ تمام کتابیں سائنس کے پیچیدہ موضوعات کے بارے میں ہیں۔ جیسے کائنات کن قوانین کی پیروی کرتی ہے

سیارچے کی دریافت ان کے لیے سیکھنے کا ایک قدرتی عمل تھا۔ یہ ان کے لیے پہلی سیڑھی ہے جو انھیں خلا کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے میں مدد کرے گی اور جس سے وہ ایک دن براہ راست ناسا کے ساتھ کام کر سکیں گے

مگیل کی والدہ میری ریموس بتاتی ہیں کہ کم عمری سے ہی ان کا بیٹا خلا کے بارے میں پیچیدہ معلومات حاصل کرنے میں غیر معمولی دلچسپی رکھتا تھا

وہ سٹیفن ہاکنگ کی کتابوں میں سپیس اور ٹائم کی تھیوری پڑھتے ہیں

ریموس کا کہنا ہے کہ ’یہ یوٹیوب پر وڈیوز دیکھنے سے شروع ہوا۔ وہ پانچ یا چھ سال کی عمر میں وڈیوز دیکھتے ہوئے مجھے کہتے تھے ’ماں، مجھے ایسی ایک کتاب چاہیے۔‘

اگر کسی شخص نے انہیں متاثر کیا تو وہ اسٹیفن ہاکنگ تھے۔ وینزویلا میں اسٹیفن ہاکنگ کی کتابیں حاصل کرنا مشکل کام ہو سکتا ہے۔ مگر بارکیسیمتو میں اور بھی مشکل تھا۔ تو ان کے والدین کو یہ کتابیں بیرون ملک سے منگوانی پڑیں

ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’جب میں یہ کتابیں دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ انہوں نے ان کتابوں کو کیسے سمجھا۔ مگر پھر بھی وہ یہ کتابیں پڑھتے رہے اور چونکہ انہیں یہ سمجھ نہیں آتی تھیں تو وہ ان کتابوں کو دوبارہ پڑھتے تھے۔ وہ یوٹیوب پر مزید وڈیوز ڈھونڈتے تھے۔‘

’یہ ان کے لیے آسان تھا۔ اور وہ مجھے بھی یہ سمجھانے کی کوشش کرتے تھے۔ میں اس بارے میں نہیں جانتی تھی۔‘

مگر ایک سیارچے کی دریافت کے لیے مگیل نے نظریات کو عمل میں تبدیل کیا۔

بارکیسیمتو میں ان جیسے ایک اور نوجوان ڈیوڈ اویڈو تھے، جنہوں نے سنہ 2012 میں سیارچہ دریافت کیا تھا۔ اور اب وہ فلکیات کی ایسوسی ایشن کے ساتھ مل کر سیارچے کی دریافت کی مہم چلا رہے تھے۔ اس مہم کا نام اوبیٹا سی آئی 130 ہے

ڈیوڈ اویڈو کو مگیل اپنا ’مینٹور‘ کہتے ہیں ’ہمیں اس ادارے کا پتا چلا اور ایک طرح سے مگیل کو اسی کی تلاش تھی۔‘

اوربیٹا سی آئی 130 ایک نجی فلاحی تنظیم ہے، جو وینزویلا میں بہترین صلاحیت رکھنے والے بچوں اور بڑوں کو اس بارے میں سکھاتی ہے

فاؤنڈیشن فار پیس کے صدر جرارڈو گارسیا، جو اوربیٹا سی آئی 130 کی سربراہی کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ تنظیم نہ صرف سپیس سائنس بلکہ ریاضی، روبوٹکس، جیومیٹری، فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی اور دیگر زبانوں کے بارے میں بھی بتاتی ہے

مگر اس وقت تک مگیل سیارچوں کی دریافت میں نہیں آئے تھے۔ انہوں نے لیکچر سن کر شروعات کی، کیونکہ ابھی وہ اس مہم میں حصہ لینے کے لیے اتنے بڑے نہیں تھے

اور پھر نومبر 2020 میں انھوں نے سیارچوں کی کھوج شروع کر دی

گھر میں دوربین کے بغیر سیارچہ کیسے دریافت کیا؟ مگیل اس کا مختصر جواب دیتے ہیں۔ فلکیات کی انٹرنیشنل سرچ کولیبریشن (آئی اے ایس سی، یا ستارچوں کی کھوج کی مہم) نے انہیں ایک دوربین کی تصاویر بھجوائیں، جو پین اسٹارز ٹیلیسکوپ سے کھینچی گئی تھیں

واضح رہے کہ امریکی ریاست ہوائی کی ہالیکالا آبزرویٹری میں واقع اس ٹیلیسکوپ کا ایک مقصد نئے سیارچوں اور زمین کے قریب کسی بھی طرح کی چیز کی کھوج لگانا ہے۔ یہ مہم ناسا کی حمایت یافتہ ہے مگر ناسا کسی نئے سیارچے کی دریافت کی تصدیق نہیں کرتا، بلکہ یہ آئی اے ایس سی کی ذمہ داری ہے

تصاویر ملنے کے بعد مگیل روہاس نے ایک خاص سافٹ ویئر پر ان کا جائزہ لیا۔ انہوں نے اسے استعمال کرنے کی ٹریننگ حاصل کی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک رپورٹ لکھی اور بتایا کہ انہوں نے تصاویر میں کیا دیکھا ہے

ایک پیشہ ورانہ ماہرِ فلکیات نے ان رپورٹس کا جائزہ لیا۔ اس نے مگیل کی رپورٹ اس ڈیٹا بیس میں دیکھی اور ان کے تبصرے پر غور کیا۔ اس ماہر فلکیات کے اس نئی چیز کی تصدیق کرنے سے اسے ’ابتدائی دریافت‘ کا درجہ مل جانا تھا

یہ صرف پہلا قدم ہے۔ اس دریافت کو پھر زمین میں مختلف مبصرین کو بھیجا جاتا ہے۔ وہ اپنی اپنی ٹیلیسکوپ سے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس مرحلے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ لیکن آخر میں اگر وہ اس بات پر متفق ہوں، تو اسے عارضی دریافت کہا جاتا ہے۔

مگیل کے نئے سیارچے، جس کا نام 2021GG40 ہے، کی تفصیل گذشتہ اپریل میں دی گئی تھی اور دسمبر میں انہیں آئی اے ایس سی، ناسا اور یونیورسٹی آف ہوائی میں محکمہ فلکیات کے دستخط شدہ سرٹیفیکیٹ موصول ہوئے

سیارچہ کیا ہے؟

ناسا کے مطابق چار اعشاریہ چھ ارب برس قبل نظام شمسی کے ابتدائی وجود کے وقت سے خلا میں پتھر سے بنے اجرام فلکی ہیں

یہ سیاروں کی طرح سورج کے گرد گھومتے ہیں مگر ان کا حجم بہت کم ہوتا ہے۔ یہ مریخ اور مشتری کے درمیان ’ایسٹیرائڈ بیلٹ‘ میں جمع ہو چکے ہیں

سیارچے نظام شمسی کے دیگر حصوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ سورج کے گرد سیاروں کے راستے پر بنا ان سے ٹکرائے گھومتے ہیں، جنھیں ’ٹروجن‘ کہا جاتا ہے

دو سیارچوں کو ایک نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ اتنے بڑے ہو سکتے ہیں کہ کچھ 530 کلومیٹر کے فاصلے پر پھیلے ہوں یا بعض محض 10 میٹر سے بڑے نہیں ہوتے

اکثر سیارچے پتھر کی مختلف اقسام سے بنے ہوتے ہیں۔ ان میں مٹی کے علاوہ نِکل یا آئرن ہو سکتا ہے۔ یہ دمدار ستاروں یا کامٹ سے مختلف ہوتے ہیں کیونکہ کامٹ برف اور دھول سے بنے ہوتے ہیں اور ان کی دم سے بخارات نکلتے ہیں

ایسٹیرائڈ اسی وقت بنے تھے جب سیارے وجود میں آئے۔ اس لیے سائنسدانوں کے لیے ان سے متعلق معلومات بہت اہم ہے

مختلف مہمات کی مدد سے زمین کے قریب سیارچوں کی نشاندہی کی جاتی ہے اور ایسے میں مختلف دوربینیں استعمال ہوتی ہیں، جیسے ہوائی کی پین اسٹارز ٹیلیسکوپ

وقت کے ساتھ ساتھ ان سے نکلنے والے مواد زمین کے ماحول میں داخل ہوسکتے ہیں۔ ان ٹکٹروں کو شہابی پتھر کہا جاتا ہے

مستقبل کی کھوج

ایسٹیرائیڈ 2021GG40 مگیل کی واحد حالیہ دریافت نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی کم از کم چھ ابتدائی دریافتیں تصدیق کی منتظر ہیں

وہ واحد نوجوان نہیں، جنہوں نے سیارچوں کی کھوج کی مہمات میں حصہ لیا ہے۔ اوربیٹا سی آئی 130 نے آٹھ مہمات میں 12 عارضی دریافتیں کی ہیں

مگیل کا مقصد خلا میں چیزیں ڈھونڈتے رہنا ہے۔ ایگزو پلینٹ اور سپر نووا نامی مہمات میں اب تک انہوں نے حصہ نہیں لیا، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ابھی وہ اس کے لیے تیار نہیں

وہ کہتے ہیں ’میرا مقصد یہی ہے کہ میں ان مہمات تک پہنچنے کے لیے پڑھوں اور سیکھتا رہوں۔ اور اس کام میں اہم کامیابی حاصل کروں، جس سے میرے ملک اور ریاست کا نام روشن ہو۔‘

مگیل کا کہنا ہے ’یہ بس شروعات ہے اور کے بعد محنت اور لگن سے مزید کامیابیاں ملیں گی۔‘

’میں ناسا کے ساتھ بطور سپیس انجینیئر کا کام کرنا چاہتا ہوں تاکہ میں دنیا اور انسانیت کے لیے اہم کام کر سکوں۔ یہ میرا خواب ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سائنس اور فلکیات انسانوں اور ٹیکنالوجی دونوں کا مستقبل ہیں۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close