وزیر آباد میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر کا معاملہ ایسی صورتحال میں مزید پیچیدہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے، جب پی ٹی آئی پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج کرنے میں مبینہ ہچکچاہٹ پر سوالات اٹھا رہی ہے جبکہ پولیس پارٹی رہنماؤں کی جانب سے اب تک ایف آئی آر درج کرنے کی کوئی درخواست موصول ہونے سے انکار کر رہی ہے
سابق وزیر اعظم کی جانب سے ایک اعلیٰ فوجی افسر، وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے اصرار پر پنجاب کی حکمران اتحادی جماعتوں (پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق) کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار ہے، اس دوران یہ افواہیں بھی گرم ہوئیں کہ ایف آئی آر کے اندراج میں ہچکچاہٹ پر صوبائی حکومت انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) فیصل شاہکار کا تبادلہ کرنے جا رہی ہے
پنجاب پولیس اس واقعہ میں ملوث کم از کم تین مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا ہے، تاہم انہوں نے پی ٹی آئی کی جانب سے ایف آئی آر کے لیے کوئی درخواست موصول ہونے سے انکار کیا ہے، دوسری جانب عمران خان کے بھتیجے ایڈووکیٹ حسان نیازی کا کہنا ہے ںکہ انہوں نے درخواست پولیس اسٹیشن میں جمع کرا دی ہے لیکن اہلکاروں نے انہیں اس کی کوئی رسید فراہم نہیں کی
انہوں نے کہا ”میں نے درخواست میز پر چھوڑ دی اور واپس آگیا“ بعدازاں انہوں نے ٹوئٹ کی کہ ”ایس ایچ او وزیرآباد اور ڈی پی او وزیرآباد نے درخواست لینے سے بھی انکار کر دیا، اڑتالیس گھنٹے گزر چکے ہیں، پولیس درخواستیں لینے سے انکار کر رہی ہے، درخواست گزار زبیر نیازی (پی ٹی آئی لاہور جنرل سیکریٹری) سے کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم کے نام میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن یہ ایک نام ایف آئی آر کے لیے درخواست میں سے نکال دیں“
واضح رہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان ایف آئی آر میں وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور آئی آیس آئی کے میجر جنرل فیصل نصیر کا نام بطور مرکزی ملزم درج کروانا چاہتے تھے، جس پر پی ٹی آئی کے انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی راضی نہ تھے۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے پی ٹی آئی اور اداروں کے درمیان تناؤ مزید بڑھے گا
جمعے کی رات کو بین الاقوامی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے عمران خان سے صحافی مبشر بخاری نے جب سوال کیا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہونے کے باوجود ایف آئی آر درج کیوں نہیں ہو رہی تو عمران خان نے جواب دیا ”پولیس سے پوچھیں تو کہتے ہیں اوپر سے حکم ہے۔ دوسرے اہلکاروں سے بات کریں تو وہ بھی کہتے ہیں کہ اوپر سے حکم ہے جبکہ اس معاملے میں وزیر اعلیٰ بے بس ہیں“
دوسری جانب ڈی پی او گجرات غضنفر علی شاہ نے جمعے کی رات ایک نجی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ابھی تک پولیس کو اس کیس کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی
پنجاب حکومت کی ترجمان اور پی ٹی آئی کی رہنما مسرت جمشید چیمہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے وکیل زبیر نیازی کی سربراہی میں درخواست برائے اندراج مقدمہ لے کر متعلقہ پولیس اسٹیشن گئے لیکن وہ درخواست وصول نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ درخواست عمران خان کی ہدایت کے مطابق ہی لکھی گئی تھی
دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما شبلی فراز نے بھی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری درخواست میں کچھ نام ایسے ہیں، جن کے خلاف پولیس مقدمہ درج کرنا نہیں چاہتی۔ ’ہم اس تھانے کا مقدمہ درج ہونے تک گھیراؤ کریں گے۔‘
قبل ازیں عمران خان نے ایک پریس کے دوران بتایا تھا کہ جن تین لوگوں پر انہوں نے اپنے قتل کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام عائد کیا ہے ان تینوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج نہیں کی جا رہی ہے
انہوں نے کہا ”جب تک وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور ’ایک‘ میجر جنرل مستعفی نہیں ہوتے، اس وقت تک شفاف تحقیقات نہیں ہو سکتی“
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت ملک کا ہر شہری برابر ہے اور کسی کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے، چاہے وہ حاضر سروس فوجی افسر ہو، سول افسر ہو یا وزیراعظم ہو
انہوں نے کہا کہ شہری کی شکایت پر کسی کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی جا سکتی ہے، تاہم اسٹیشن ہاؤس آفیسر کے قانونی اختیارات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایس ایچ او ایف آئی آر کے اندراج سے قبل کسی بھی شکایت پر انکوائری بھی کر سکتا ہے
اس حوالے سے ایڈووکیٹ صفدر شاہین پیرزادہ کا کہنا ہے کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 پولیس کو کسی بھی شہری کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا اختیار دیتی ہے، اگر جرم قابلِ سزا ہو تو فوجی حکام کو مقدمے کے اندراج سے کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے
تاہم انہوں نے کہا کہ تفتیشی افسر انکوائری کر سکتا ہے اور یہ فیصلہ کرنے کے لیے شکایت کنندہ سے ثبوت طلب کر سکتا ہے کہ کسی نامزد مشتبہ شخص کی گرفتاری کی ضمانت ہے یا نہیں
ایڈوکیٹ فرہاد علی شاہ کہتے ہیں ”اس کیس میں فوری ایف آئی آر کاٹنا پولیس کا فرض تھا کیونکہ پولیس اس مارچ کو سکیورٹی فراہم کر رہی تھی۔ دیکھا جائے تو پولیس پارٹی پر بھی فائرنگ ہوئی ہے۔ پولیس اس کیس میں اپنی مدعیت میں ایف آئی آر درج کر سکتی ہے۔ اس وقت جو ملزم پولیس تحویل میں ہے، اسے ایسے کیس میں پکڑا ہوا ہے، جو ابھی تک رجسٹر ہی نہیں ہوا۔ جب تک ایف آئی آر درج نہ ہو تفتیش شروع نہیں ہو سکتی“
انہوں نے کہا ”پولیس آرڈر کے مطابق آپریشنل ونگ نے صرف ایف آئی آر کاٹنی ہوتی ہے جبکہ اس کی تفتیش انویسٹیگیشن ونگ نے کرنی ہوتی ہے“
دریں اثنا میڈیا سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے الزام عائد کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ کچھ عہدیداروں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور ان پر کسی قسم کا دباؤ ہے کہ وہ وزیر آباد حملے کے حوالے سے ایف آئی آر کے لیے ہماری درخواست قبول نہ کریں
انہوں نے کہا کہ اس بات نے ایک سنگین سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے کہ اتنے سنگین کیس میں ایف آئی آر درج نہیں کی جا رہی، لوگ پنجاب پولیس کے سربراہ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں
انہوں نے مزید کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرے اور اس بات کا تعین کرے کہ کیا اعلیٰ پولیس افسر واقعی بے بس ہیں
ایف آئی آر نہ ہونے سے عمران خان کا کیس کمزور ہو سکتا ہے: قانونی ماہرین
تین روز گزرنے کے بعد بھی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر حملے کا مقدمہ درج نہیں ہو سکا جبکہ اس کیس کا ایک ملزم ایف آئی آر کا اندراج نہ ہونے کے باوجود پولیس کی حراست میں ہے
اس تاخیر کی وجہ سے قانونی ماہرین کے مطابق عمران خان کے کیس کو نقصان جبکہ ملزم کو فائدہ ہو سکتا ہے
ایسے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ ایف آئی آر کے بغیر کیا زیر حراست ملزم کی گرفتاری غیر قانونی ہے؟ کیا ملزم رہا ہو سکتا ہے؟
فرہاد علی شاہ ان سوالات کے جوابات میں کہتے ہیں ”کسی بھی شخص کو اگر گرفتار کیا گیا ہے تواس کو چوبیس گھنٹے کے اندر اندر متعلقہ مجسٹریٹ کے پاس پیش کرنا ہوتا ہے۔ قانون کے مطابق ملزم کی اب تک گرفتاری غیر قانونی ہے کیونکہ اس کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہوئی اور باقاعدہ تفتیش کا عمل شروع نہیں ہوسکا۔ کیونکہ گرفتاری، ریمانڈ اور تفتیش تک کا عمل ایف آئی آر درج ہونے سے مشروط ہے“
ان کا کہنا تھا کہ دیکھا جائے تو اس وقت اس ملزم کا پولیس کی تحویل میں ہونا حبس بے جا کے زمرے میں آتا ہے اور اگر کوئی بھی شخص اس کی پیروی کرے اور عدالتی بیلف کا استعمال کیا جائے تو اس شخص کو رہائی مل سکتی ہے کیونکہ اس کے خلاف ابھی تک کوئی کیس رجسٹر نہیں ہوا۔ اور ان سب باتوں کا نقصان پراسیکیوشن کو ہوگا
انہوں نے کہا ”جہاں تک کسی کا نام ایف آئی آر میں ڈالنے یا نا ڈالنے کا سوال ہے۔ اس کے لیے بھی سی آر پی سی کی شق 154 کے تحت ایف آئی آر کے اندراج سے مشروط ہے کیونکہ ایف آئی آر کے اندراج سے پہلے کوئی انکوائری نہیں ہو سکتی“
اس سوال پر،
ایف آئی درج ہونے سے پہلے ملزم کا بیان ٹی وی پر چلانے اور ایف آئی آر میں تاخیر کا نقصان کس کو اور فائدہ کس کو؟
ایڈووکیٹ فرہاد علی شاہ نے کہا ”ابھی تک تو ایف آئی آر ہی رجسٹر نہیں ہوئی۔ دوسری بات اگر کیس میں کوئی شخص ایف آئی آر ہونے تک نامعلوم ہوتا اور اس کی تصویر میڈیا پر آتی تو پھر یہ موٹر وے ریپ کیس والی صورت حال بنتی کیونکہ اس کی شناخت پریڈ ہونی تھی اور انہوں نے پہلے ہی اس کی تصویر نشر کر دی تھی جس کی وجہ سے اس کا کیس خراب ہو سکتا تھا۔ لیکن اس کیس میں ملزم رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے“
ان کا کہنا تھا ”پولیس نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ بھی لیا، تھانے میں کھڑا کر کے اس کا ویڈیو بیان بھی جاری کر دیا اور ابھی تک ایف آئی آر درج نہیں ہوئی“
ان کے مطابق ”ایف آئی آر میں تاخیر، عینی شاہدین کی گواہیوں میں تاخیر وغیرہ کے ذریعے میرے خیال سے پہلے دن سے کیس کے ثبوتوں کو ضائع کیا گیا ہے۔ عمران خان کے ساتھ جو لوگ زخمی ہوئے ہیں ان لوگوں کے میڈیکل جہاں واقعہ ہوا وہاں کے متعلقہ ہسپتال سے ہونے تھے لیکن عمران خان لاہور آ گئے اور شوکت خانم سے نجی طور پر اپنا علاج کروانا شروع کر دیا تو سرکاری طور پر ان کے زخم کل کو ثابت نہیں ہو سکتے اور اس کی سزا ملزم کو نہیں مل سکتی“
فرہاد علی شاہ کہتے ہیں ”اس ساری صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان اس شخص کو پہنچا، جو وہاں گولی لگنے سے قتل ہوا اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے وہاں کھڑے تھے۔ اصل میں کیس اس شخص کا ضائع ہو رہا ہے۔ کیونکہ ان کے کیس کی پیروی نہیں ہو سکتی“
”اس کیس میں پہلے دن سے پولیس نے شکوک کی بنیاد پر ساری کارروائی کی ہے، جس کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو ہوتا ہے“
ایڈووکیٹ فرہاد نے سپریم کورٹ کے ایک کیس کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ طارق پرویز کیس پی ایل ڈی 2015 سپریم کورٹ 1345 کے فیصلے کے مطابق درجنوں شکوک کی بجائے کوئی ایک شک بھی کسی ملزم کو رہا ہونے میں فائدہ دے سکتا ہے۔ ’پولیس پہلے دن سے اس کیس کے ثبوتوں کو ضائع کر رہی ہے۔‘
ایڈووکیٹ فرہاد علی شاہ سے جب پوچھا گیا کہ کیا ایف آئی آر کے بغیر تفتیش شروع کی جاسکتی ہے؟ تو انہوں نے کہا ”تفتیش ایف آئی آر رجسٹر ہونے کے بعد ہونی ہوتی ہے۔ پھر گولیوں کے خول جمع کیے جاتے ہیں، خون کے نمونے اکٹھے کیے جانے ہوتے ہیں۔ جائے وقوع کی انسپیکشن ہونی ہوتی ہے لیکن اب یہاں ایف آئی آر ہی درج نہیں ہوئی تو شواہد کیسے اکٹھے ہوں گے؟ اس ساری صورت حال میں کریمنل جسٹس سسٹم کی نفی کی جارہی ہے۔ اس کا فائدہ ملزم کو ہو گا“