نو کتابوں کے مصنف محسن زاہد کنبھر زندگی میں ایک دن بھی اسکول نہیں گئے
تاہم موٹر سائیکل پر گرم مصالحہ فروخت کرنے والے زاہد اب اپنی آمدنی کا ایک حصہ علم حاصل کرنے پر صرف کرتے ہیں
میرپورخاص کے شہر ٹنڈو جان محمد کے زاہد کنبھر بتاتے ہیں ”میں غربت کی وجہ سے اسکول نہیں جا سکا۔ مجھے بچپن میں احساس ہو گیا تھا کہ جو انسان پڑھ لکھ نہیں سکتا وہ زندگی کے بہت سے شعبوں میں پیچھے رہ جاتا ہے“
زاہد کہتے ہیں ”میں اس لحاظ سے خوش قسمت ہوں کہ زندگی میں مجھے ایسے دوست ملے جنہوں نے میری لکھنے پڑھنے سے لے کر ادب و شاعری تک مدد کی“
زاہد اپنے ایسے دوستوں کو اپنا حقیقی استاد سمجھتے ہیں
ان کا کہنا ہے ”آج لوگ جب سنتے ہیں کہ میں پڑھا لکھا نہیں، تو اکثر کو یقین نہیں آتا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ نو کتابوں کا خالق پڑھا لکھا نہ ہو؟“
مگر حقیقت یہی ہے۔ انہوں نے جب 1977ع میں شاعری شروع کی تو اپنے دوستوں کو شعر سناتے تھے، جو بعد ازاں انہیں ضبط تحریر میں لا کر انہیں دے دیتے تھے
ریڈیو پاکستان پر 1990ع کی دہائی سے ان کا کلام نشر کیا جاتا ہے جبکہ ٹی وی پر بھی ان کا کام نشر ہو چکا ہے
ان کی شائع ہونے والی نو کتابوں میں سے تین شاعری کے مجموعے ہیں
زاہد کنبھر بتاتے ہیں ”سندھی ادب میں میرا نام تسلیم کیا جاتا ہے کیوں کہ میں نے شاعری کے ساتھ ساتھ تاریخ اور تحقیق پر بھی کام کیا ہے“
حیدرآباد کی تنظیم رہبر ادبی سوسائٹی نے ان کی ادب و عمل کے لیے غیر معمولی کوششوں کو سراہتے ہوئے ایوارڈ بھی دیا
زاہد نے مزید بتایا ”مہنگائی کی وجہ سے میں دن بھر موٹر سائیکل پر مصالحہ فروخت کرتا ہوں اور رات کو ایک نجی اسکول میں چوکیداری کر کے گھر کے اخراجات پورے کرتا ہوں“
’ہم سب جانتے ہیں کہ کتاب شائع کروانے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
زاہد مصالحہ بیچ کر جو رقم کماتے ہیں وہ اپنے علمی کام پر خرچ کرتے ہیں مگر تحقیق کا کام بہتر وسائل نہ ہونے کے سبب کرنا انتہائی دشوار عمل ہے۔